کل کائنات ثناء خواں ہے تمام حیوانات ، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ، ساتواں آسمان ، زمینیں ، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے ۔ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے ، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام حکمت سے پر ہیں ۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے ، خلق میں متصرف وہی ہے ، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے ، وہی فنا کرتا ہے ، وہی پیدا کرتا ہے ۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے ، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ، جو نہ چاہے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بعد کی آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ ) 57- الحديد:3 ) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گذرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے ۔ حضرت ابو زمیل حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہو گا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 94ۙ ) 10- یونس:94 ) ، یعنی اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے ۔ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ ) 57- الحديد:3 ) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں ۔ بخاری فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے ۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے ۔ اے اللہ اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب ، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب اے تورات و انجیل کے اتارنے والے اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے ۔ حضرت ابو صالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو ، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ ملاحظہ ہو مسلم ۔ ابو یعلی میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے ، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے ( جو اوپر بیان ہوئی ) الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آ گیا آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں ۔ فرمایا اسے عنان کہتے ہیں یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں نہ اللہ کے پکارنے والے پھر پوچھا معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے ، فرمایا بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج ، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے وہی جواب ملا ، فرمایا پانچ سو سال کا راستہ ۔ پھر پوچھا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی ۔ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے ، پھر پوچھا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے اور جواب وہی سن کر فرمایا دوسری زمین ہے ، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے ، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں ، پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ، لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن کا ایوب یونس اور علی بن زید محدثین کا قول ہے ۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے ( نہ کہ ذات باری تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا ۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے ۔ امام بزار نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر حضرت ابو ہریرہ کے اور کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے ۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو ، واللہ اعلم ، حضرت ابو ذر غفاری سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ امام ابن جریر آیت ( وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ 12ۧ ) 65- الطلاق:12 ) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی ۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے ۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا ، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتادہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی حضرت قتادہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ کا اپنا ۔ واللہ اعلم
1 3یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان کی بات چیت سے ہے اسی لئے فرمایا گیا کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔
[١] ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح زبان حال سے بھی ہوسکتی ہے اور قال سے بھی۔ زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح یہ ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز خواہ وہ جمادات سے تعلق رکھتی ہو یا نباتات سے یا حیوانات سے اپنی تخلیق اور طریق کار سے واضح طور پر یہ ثبوت فراہم کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہے اور اس نے جو چیز بھی پیدا کی اور بنائی کمال حکمت سے بنائی اور جس مقصد کے لیے بنائی گئی وہ اپنا مقصد پورا کر رہی ہے اور جو تسبیح یہ چیزیں زبان قال سے کر رہی ہیں وہ ہم سمجھ نہیں سکتے۔ (١٧: ٤٤)- [٢] چونکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا اس پر پورا پورا تصرف اور اختیار بھی رکھتا ہے اور ہر چیز کو جس مقصد کے لیے اس نے بنایا ہے اس سے وہ کام لے رہا ہے۔ اس قدر بےپناہ اور ہمہ گیر قوت اور غلبہ کے باوجود اس نے کبھی اس قوت کا غلط استعمال نہیں کیا بلکہ جو چیز بھی بنائی اس میں کئی حکمتیں مضمر ہوتی ہیں۔ خواہ وہ انسان کے علم میں آچکی ہوں یا نہ آئی ہوں اور وہ ہمیشہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کرتی اور مثبت نتائج پیدا کرتی ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت پر دلیل ہے۔
١۔ سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج : یعنی زمین و آسمان کی ہر چیز نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کا خالق ومالک اللہ عزوجل ہر عیب اور کمی سے پاک ہے ، اس کی ذات وصفات ، افعال و احکام غرض ہر چیز کسی بھی طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہے ۔ اس سورت میں اور سورة ٔ صف اور سورة ٔ حشر کے شروع میں ” سبح “ ( ماضی) آیا ہے ، سورة ٔ جمعہ اور سورة ٔ تغابن میں ” یسبح “ ( مضارع) آیا ہے ، جس میں حال و استقبال دونوں شامل ہیں اور سورة ٔ بنی اسرائیل میں ” سبحن “ ( مصدر) آیا ہے ، جس میں دوام پایا جاتا ہے ۔ یعنی کائنات کا ذرہ ذرعہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا ہر عیب سے پاک ہوتا بیان کرتا چلا آتا ہے ، اب بھی کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا ۔ سورة ٔ اعلیٰ میں ” سبح “ امر کے ساتھ بھی آیا ہے۔- ٢۔ اس میں مشرکین پر چوٹ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہر عیب سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے اور تم ہو کہ اس کے لیے شریک اور اس کے لیے اولاد بنا کر اس پر اتنا بڑا عیب لگا رہے ہو جس سے بڑا عیب اور جس سے بڑی گالی اس کے لیے ہو ہی نہیں سکتی ۔ تمہیں پیدا اس نے کیا ، تمہاری پرورش وہ کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری وہ کرتا ہے ، تمہاری موت و حیات اس کے ہاتھ میں ہے ، مگر تم اس کے بےبس بندوں میں سے کسی کو داتا کہتے ہو ، کسی کو دستگیر ، کسی کو مشکل کشا اور کسی کو گنج بخش ، کسی کو تم نے اولاد دینے والا بنا رکھا ہے تو کسی کو حکومت دینے والا ، کسی کو خزانے بخشنے والا تو کسی کو شفاء دینے والا ، کسی کے متعلق کہتے ہو کہ وہ اللہ کی تقدیر کا رخ پھیر دیتا ہے اور کسی کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر راستے سے واپس لے آتا ہے۔ اب آسمان و زمین کی ہر چیز کی گواہی کو دیکھو اور اپنے طرز عمل کو دیکھو ۔ عبد اللہ بن عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں :(قال اللہ کذبنیی ابن آدم ولم یکن لہٗ ذلک وشتمنی ولم یکن لہ ذلک ، فاماتکذمیہ ایای فزعم انی لا اقدر ان اعیدہ کما کان واما شتمہ ایای فقولہ لی ولد ، فسبحانی ان اتخذ صاحبۃ او ولدا) (بخاری ، التفسیر ، سورة البقرۃ ، باب :( وقالوا اتخذ اللہ ولدا سبحانہ): ٤٤٨٢)” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ابن آدم نے جھٹلا دیا ، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا اور اس نے مجھے گالی دی ، حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے دوبارہ بنانے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا اس کا یہ کہنا ہے کہ میری کوئی اولاد ہے، حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کوئی بیوی یا اولاد بناؤں “۔ اس سورت میں اور مذکورہ بالا دوسری سورتوں کی آیات میں ” تسبیح “ کے لفظ اور اس حدیث میں ’ سبحانی “ کے لفظ پر غور فرمائیں تو تسبیح کا مفہوم کافی حد تک واضح ہوجائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح کے ذکر کے بعد اپنی دس سے زیادہ صفات بیان فرمائیں اور سب کے بعد کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانے کی دعوت دی ، فرمایا :(اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط ) ( الحدید : ٧) ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں ( پہلوں کا) جانشنی بنایا ہے “۔- ٣۔ تسبیح کا لغوی معنی کیا ہے ، قرآن آیات میں اس کا مفہوم کیا ہے ، یہ تسبیح زبان حال سے ہے یا قول کے ساتھ ؟ ان سب باتوں کے لیے دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (٤٣، ٤٤) کی تفسیر۔- ٤۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ :” العزیز “ ” عز یعز “ (ض) سے مبالغے کا صیغہ ہے ، سب پر غالب ہے ، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ کرنا چاہے اور نہ کرسکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے کسی کام سے روک سکے۔” الحکیم “ کمال حکمت والا ۔ اس کا ہر کا محکم ہے اور دانائی پر مشتمل ہے ، اس لیے کہ وہ ماضی ، حال اور مستقبل کا کامل عامل رکھتا ہے۔ اس کے کسی کام میں کوئی غلطی نہیں ، وہ عزیز ہے تو حکیم بھی ہے ، اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ کمال حکمت بھی شامل ہے۔” العزیز الحکیم “ خبر پر الف لام سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ عزیز و حکیم صرف وہ ہے ، کوئی اور نہیں ۔
خلاصہ تفسیر - اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں (زبان قال سے یا زبان حال سے) اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے اسی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی وہی حیات دیتا ہے اور (وہی) موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے وہی (سب مخلوق سے) پہلے ہے اور وہی (سب کے فناء ذاتی یا صفاتی سے) پیچھے (بھی رہے گا، یعنی اس پر نہ پہلے کبھی عدم طاری ہوا اور نہ آئندہ کسی درجہ میں اس پر عدم طاری ہونے کا امکان ہے، اس لئے سب سے آخر میں وہی ہے) اور وہی (مطلق وجود کے اعتبار سے ازروئے دلائل نہایت) ظاہر ہے اور وہی (کنہ ذات کے اعتبار سے نہایت) مخفی ہے (یعنی کوئی اس کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتا) اور (گو وہ خود تو ایسا ہے کہ مخلوق کو ایک حیثیت سے معلوم ہے اور ایک حیثیت سے غیر معلوم لیکن مخلوق سب من کل الوجوہ اس کو معلوم ہے اور) وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے (اور) وہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے آسمان اور زمین کو چھ روز (کی مقدار زمانہ) میں پیدا کیا پھر عرش پر (جو کہ مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو اس کی شان کے لائق ہے اور) وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے (مثلاً بارش) اور جو چیز اس میں سے نکلتی ہے (مثلاً نباتات) اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے (مثلاً ملائکہ کہ نزول و عروج کرتے ہیں اور مثلاً احکام جن کا نزول ہوتا ہے اور اعمال عباد جن کا صعود ہوتا ہے) اور (جس طرح ان چیزوں کا اس کو علم ہے اسی طرح تمہارے تمام احوال کا بھی اس کو علم ہے چنانچہ) وہ (علم و اطلاع کے اعتبار سے) تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے اسی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف سب امور ( جو ہریہ و عرضیہ) لوٹ جاویں گے (یعنی قیامت میں پیش ہوجاویں گے، اسی میں توحید کے ساتھ ضمناً قیامت کا بھی اثبات ہوگیا) وہی رات (کے اجزاء) کو دن میں داخل کرتا ہے (جس سے دن بڑا ہوجاتا ہے) اور وہی دن (کے اجزاء) کو رات میں داخل کرتا ہے (جس سے رات بڑی ہوجاتی ہے) اور (اس قدرت کے ساتھ اس کا علم ایسا ہے کہ) وہ دل کی باتوں (تک) کو جانتا ہے۔- معارف و مسائل - سورة حدید کی بعض خصوصیات :- پانچ سورتوں کو حدیث میں مسبحات سے تعبیر کیا گیا ہے، جن کے شروع میں سَبَّحَ یا یُسَبِّحُ آیا ہے، ان میں سے پہلی یہ سورت حدید ہے، دوسری حشر، تیسری صف، چوتھی جمعہ، پانچویں تغابن، ابوداؤد، ترمذی، نسائی میں حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے یہ مسبحات پڑھا کرتے تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے، ابن کثیر نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ افضل آیت سورة حدید کی یہ آیت ہے، (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ)- ان پانچ سورتوں میں سے تین یعنی حدید، حشر، صف میں تو لفظ سبح بصیغہ ماضی آیا ہے اور آخری دو یعنی جمعہ اور تغابن میں یسبح بصیغہ مضارع، اس میں اشارہ اس طرف ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور ذکر ہر زمانے ہر وقت ماضی و مستقبل اور حال میں جاری رہنا چاہئے (مظہری )
سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اللہ کی پاکی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں مخلوقات ہیں اور وہ کافر کو سزا دینے میں زبردست اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے اس نے اس بات کا حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے۔
آیت ١ سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔ “- ان سورتوں (المُسَبِّحات) کا یہ مضمون بہت اہم ہے۔ آگے چل کر سورة الحشر اور سورة الصف میں یہ آیت ” مَا فِیْ “ کے اضافے کے ساتھ اس طرح آئے گی : سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج اور پھر سورة الجمعہ اور سورة التغابن میں مزید ُ پرزور انداز میں فعل مضارع کے ساتھ یوں آئے گا : یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۔ کائنات کی ہرچیز کس طرح اللہ کی تسبیح کرتی ہے ؟ اس کی ایک صورت تو ” تسبیح حالی “ کی ہے جو ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ ہرچیز اپنی زبان حال سے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ اس کی مثال ایک تصویر ہے جو اپنے مصور کے کمال فن یا عدم مہارت پر دلالت کرتی ہے ۔ چناچہ جس طرح ایک خوبصورت تصویر زبان حال سے اپنے مصور کی تعریف کرتی نظر آتی ہے اسی طرح اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ میرا پیدا کرنے والا ‘ میرا صانع ‘ میرا خالق ‘ میرا مصور ہر عیب سے پاک ‘ ہر نقص سے بالا اور ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے ‘ اس کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی حکمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری صورت ” زبانی تسبیح “ کی ہے جو کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورة حٰمٓ السَّجدۃ کی آیات ٢٠ اور ٢١ میں قیامت کے اس منظر کا ذکر ہے جب انسانوں کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ اس پر وہ لوگ حیرت سے اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ جواب میں ان کی کھالیں کہیں گی : اَنْقَطَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ (آیت ٢١) کہ آج اس اللہ نے ہمیں بھی زبان دے دی ہے جس نے ہر شے کو زبان دی ہے۔ اس کے علاوہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو اپنی تسبیح کے لیے ایک طریقہ تفویض کر رکھا ہے : - تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ (آیت ٤٤)- ” اسی کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور (وہ تمام مخلوق بھی ) جو ان میں ہے۔ اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ ‘ لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔ “- بہرحال کائنات کی ہرچیز اپنی زبان حال سے بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اللہ کی عطا کردہ اپنی مخصوص زبان سے بھی اس کی تعریف و توصیف میں مشغول و مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس کی تسبیح کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔- وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ ” اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔ “- ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے یہ دو اسماء اکٹھے ایک ساتھ بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اسمائے حسنیٰ کا یہ جوڑا معنوی اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ العزیز وہ ہستی ہے جس کا اختیار مطلق ہو ۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی سطح پر مطلق العنانیت کا تجربہ ہمیشہ بہت تلخ رہا ہے۔ عملی طور پر ہمارے ہاں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں مطلق العنانیت آتی ہے ‘ وہاں اختیارات کا ناجائز استعمال ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ پولیٹیکل سائنس کا تو اس حوالے سے آزمودہ فارمولا یہ ہے : - " . "- چنانچہ جب کسی ملک کا آئین بنایا جاتا ہے اور معاشرے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں تو متعلقہ ماہرین کی ساری کوشش اختیارات کو مشروط کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ایسی صاحب اختیار ہستی ہے جس کے اختیارات کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات کسی شرط سے مشروط ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ” الحکیم “ بھی ہے۔ وہ اپنے مطلق اختیارات میں خود ہی اپنی حکمت سے توازن قائم رکھتا ہے۔ چناچہ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ زبردست ہے ‘ وہ اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے ‘ اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘ لیکن اس کا کوئی کام ‘ اس کا کوئی عمل اور اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :1 یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے ، اس کی صفات پاک ہیں ، اس کے افعال پاک ہیں ، اور اس کے احکام بھی ، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی ، سراسر پاک ہیں ۔ یہاں سَبَّحَ صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ صیغہ مضارع استعمال ہو ا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے ، آج بھی کر رہا ہے ، اور ہمیشہ کرتا رہے گا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لفظ ھُوَ کو پہلے لانے سے خود بخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ۔ عزیز کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے ، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے ، جس کی نافرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا ۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کی تخلیق ، اس کی تدبیر ، اس کی فرمانروائی ، اس کے احکام ، اس کی ہدایات ، سب حکمت پر مبنی ہیں ۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی ، مقتدر ، جبار اور ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے ، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے ۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے ، وہاں اس کے ساتھ حکیم ، علیم ، رحیم ، غفور ، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو ، جاہل ہو ، بے رحم ہو ، در گزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو ، بخیل ہو ، اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے ، یا بخیل اور تنگ دل ہے ، یا بد خو اور بد کردار ہے ، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا ، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے ۔ علیم بھی ہے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کرتا ہے ۔ رحیم بھی ہے ، اپنے بے پناہ اقتدا کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا ۔ غفور بھی ہے ، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خردہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے ۔ وہاب بھی ہے ، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے ۔ اور حمید بھی ہے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں ۔ قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت ( ) کے مسئلے پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں ۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو ، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے ، یا اس کو بدلنے ، یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو ، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو ۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہو اسے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان ، جاہل ، بے رحم ، اور بدخو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم و فساد ہو گی ۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان ، یا انسانی ادارے ، یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہو گا ۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہو سکتی ہے ، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ ، یا پارلیمنٹ ، یا قوم ، یا پارٹی کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کر سکے ۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو ، سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہو جائے ۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خود غرضی ، نفسانیت ، خوف ، لالچ ، خواہشات ، تعصب ، اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے ۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہو گا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ عزیز یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے ، حکیم و علیم ہے ، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے ۔
1: دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل : 44