Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گذاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے نہ تو چھوڑتا نہ اڑاتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورہ ( الھکم ) پڑھ کر فرمانے لگے انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھا لیا پہن لیا صدقہ کر دیا کھایا ہوا فنا ہو گیا پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہو گیا ، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا ( مسلم ) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے ۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کیطرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں ، صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں؟ کہا فرشتے ، فرمایا وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے؟ کہا پھر انبیاء فرمایا ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے؟ کہا پھر ہم فرمایا واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے ، میں تم میں زندہ موجود ہوں ، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے ، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے ، سورہ بقرہ کے شروع میں آیت ( الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ Ǽ۝ۙ ) 2- البقرة:3 ) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں ، پھر انہیں روز میثاق کا قول و قرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ċ۝ ) 5- المآئدہ:7 ) ، اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو حضرت آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا ، مجاہد کا بھی یہی مذہب ہے واللہ اعلم ۔ وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے ۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے کتابیں اتاریں ، رسول بھیجے ، شکوک و شبہات دور کر دیئے ، ہدایت کی وضاحت کر دی ۔ ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا پھر صدقات کی رغبت دلائی ، اور فرمایا میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو ، اس لئے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے ، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کر چکا ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39؀ ) 34- سبأ:39 ) جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے اور فرماتا ہے ( مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ 96؀ ) 16- النحل:96 ) اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا ۔ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے ، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا ۔ پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لئے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا ، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے ، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں ، بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف میں کچھ اختلاف ہو گیا جس میں حضرت خالد نے فرمایا تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا میرے صحابہ کو میرے لئے چھوڑ دو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے ۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ حضرت خالد کے مسلمان ہو جانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا ہم مسلمان ہوگئے ہم صابی ہوئے یعنی بےدین ہوئے ، اس لئے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے حضرت خالد نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا ۔ ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے ہم نے کہا کیا قریشی؟ فرمایا نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے پھر آپ نے اسی آیت ( لایستوی ) کی تلاوت کی ، لیکن یہ روایت غریب ہے ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے ابن جریر میں ہے عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے صحابہ نے پوچھا کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں اور آپ نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا پھر فرمایا وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے ہم نے پوچھا کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے؟ فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ پھر آپ نے اپنی اور انگلیاں تو بند کرلیں اور چھنگیا کو دراز کر کے فرمایا خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ، پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں ۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی ہو ، جیسے کہ سورہ مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ آیت ( وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ 20؀ۧ ) 73- المزمل:20 ) یعنی کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے یعنی فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی جس نے جو کچھ راہ اللہ دیا ہے کسی کو اس سے کم ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل سے کم ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے ۔ اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گذرے اس لئے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا ۔ پھر فرمایا تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے ۔ حدیث شریف میں ہے ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کے سردار ہیں آپ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور حضرت صدیق اکبر بھی تھے ۔ صرف ایک عبا آپ کے جسم پر تھی ، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو حضرت ابو بکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں ، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو؟ آپ نے حضرت صدیق کو یہ سب کہہ کر سوال کیا ۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہو سکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں ۔ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے ، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا ہے ۔ بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو ، پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی ، اس آیت کو سن کر حضرت ابو دحداح انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ، کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئے آپ نے ہاتھ بڑھایا تو آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا آپ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے ۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یا قوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح کو اللہ نے دے دیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] ترتیب نزولی اور اس مضمون سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت جنگ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک قریش مکہ ہی مسلمانوں پر چڑھ چڑھ کر آتے رہے اور حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ احزاب کے خاتمہ اور کافروں کے فرار کے بعد رسول اللہ نے گویا فرما دیا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے تاہم ابھی مسلمانوں کا غلبہ بہت دور کی بات تھی۔ ایسے مذبذب حالات میں بھی کچھ مسلمان اور مہاجرین ایسے تھے جو اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے تھے اور تنگ دستی کے باوجود اس حق و باطل کے معرکہ میں جو کچھ بھی انہیں میسر آتا بےدریغ خرچ کر رہے تھے۔ لیکن کئی نو مسلم ایسے بھی تھے جو گومگو کی حالت میں تھے۔ نہ حق و باطل کے اس معرکہ میں مخلص بن کر کوشش کرتے تھے اور نہ ہی جہاد کی خاطر اپنے اموال خرچ کرنے کو تیار تھے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔ جو اسلام لانے کے باوجود اسلام کے لیے جانی یا مالی یا بدنی قربانیاں پیش کرنے کو تیار نہ تھے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایمان لاکر اللہ کے رسول کا ساتھ دو اور ان کے کیے ہوئے وعدوں کو یقینی سمجھو۔ - [١٠] یعنی جن اموال سے اللہ کی راہ میں یا جہاد کی خاطر خرچ کرنے سے تم گریز کر رہے ہو ان اموال کے تم حقیقی مالک نہیں ہو۔ ان کا حقیقی مالک تو اللہ ہے۔ تمہاری حیثیت صرف ایک نائب اور امین کی ہے۔ یہ اموال موت کے وقت تو یقیناً تمہاری ملکیت سے نکل جائیں گے اور اس سے پہلے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے یہی اموال اور لوگوں کے قبضے میں تھے آج تم ان کے جانشین ہونے کی بنا پر ان پر قابض ہو۔ لہذا ان اموال کو اپنی ملکیت نہ سمجھ بیٹھو اور اللہ کی ہدایات اور رضا کے مطابق اسے خرچ کردو۔ ایسا خرچ کیا ہوا مال ہی تمہارے لیے بہت بڑے اجر کا سبب بنے گا۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جتنا مال تم خرچ کرو گے اتنا یا اس سے زیادہ مال اور دے دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ : سورت کے شروع سے یہاں تک اس حقیقت کے اعلان کے بعد کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز نے اللہ کا ( ہر عیب اور کمی سے) پاک ہونا بیان کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی دس سے زیادہ صفات بیان ہوئی ہیں جو یہ ہیں :” العزیز، الحکیم ، لہ ملک السموات والارض ، یحییٰ و یمیت ، وھو کل علی شئی قدیر ، ھو الاول والاخرو الظاھر والباطن ، وھو بکل شئی علیم ، یولج الیل فی النھار و یولج النھار فی الیل “ ان صفات کے بیان کے بعد اس بات کی دعوت دی ہے کہ ان صفات کے مالک اللہ تعالیٰ پر اور اس کا پیغام لے کر آنے والے پر ایمان لاؤ ۔ اس کے مخاطب اگرچہ کفار بھی ہیں ، مگر بعد میں پورے سلسلہ کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں سے خطاب ان مسلمانوں کو ہے جو ایمان لا چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں کوتاہی کر رہے تھے اور جہاد فی سبیل اللہ میں جان و مال کی قربانی سے گریز کر رہے تھے۔ یہ وہی بات ہے جو سورة ٔ نساء کی آیت (١٣٦) (یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ ) ( اے لوگوجو ایمان لائے ہو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر) میں بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو ، جن میں سے ایک بہت بڑا تقاضا اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔- ٢۔ وانفقوا : یہاں خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین و مہاجرین کی ضروریات کے لیے خرچ کرنا ہے۔ دلیل اس کے آگے والی آیت (١٠) ہے :(وَمَا لَکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ )” اور تمہیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے “۔ اور ” فی سبیل اللہ “ کا خاص اطلاق جہاد پر ہوتا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ توبہ کی آیت (٦٠) کی تفسیر۔- ٣۔ٗمِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط : اس میں کئی طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے ، ایک یہ کہ یہ مال تمہارا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے جو اس نے تم سے پہلے لوگوں کو دیا تھا ، اب اس نے تمہیں اس میں پہلوں کا جانشین بنادیا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے کہ تم اس کی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہو یا نہیں ۔ ( دیکھئے انعام : ١٦٥) غلام کا یہ کام نہیں کہ مالک کے مال کو وہاں خرچ نہ کرے جہاں وہ اسے خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے ، بلکہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا پھرے یا جمع کرنے لگ جائے ۔ دوسرا یہ کہ پہلے لوگوں کی طرح یہ تمہارے پاس بھی نہیں رہے گا ۔ اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرلیا تو یہ آخرت کے لیے تمہارا ذخیرہ بن جائے گا اور اگر تم نے خرچ نہ کیا تو کچھ اور لوگ اس میں تمہارے جانشین بن جائیں گے۔ پھر اگر انہوں نے اسے نیکی میں خرچ کیا تو وہ تم سے بہتر رہے کہ وہ مال جو تم نیکی میں خرچ نہ کرسکے انہوں نے کردیا ، تم محروم رہے اور اگر انہوں نے بدی میں خرچ کیا تو تمہاری دولت بھی ان کی بدی میں معاون ٹھہری ۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( یقول العبد ما لی ما لی ، انما لہ ٗ من مالہ ثلاث ، ما اکل فافنی او لبس فابلی او اعطی فاقتنی ، وما سوی ذلک فھو ذاھب وتار کہ للناس) (مسلم ، کتاب الزھد والرقائق ، باب الدنیا سبحن للمؤمن وجنۃ للکافر : ٢٩٥٩)” بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ، اس کے مال میں سے اس کی اپنی تو صر ف تین چیزیں ہیں ، جو اس نے کھایا اور فنا کردیا ، یا پہنا اور بوسیدہ کردیا ، یاد دے دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے علاوہ ہے تو یہ جانے والا ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے “۔- ٤۔ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا : یہ لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا ان میں سے سب سے پہلے ابوبکر (رض) ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے ایمان لائے اور تبوک کے موقع پر صدقہ کے اعلان پر سارا مال لے آئے ، ان میں عمر (رض) بھی ہیں جو آدھا مال لے آئے اور عثمان (رض) تعالیٰ عنہ بھی اور وہ تمام صحابہ کرام (رض) بھی جنہوں نے خو شحالی میں بھی خرچ کیا اور تنگدرست کے باوجود محنت مشقت کر کے بھی صدقہ کیا ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (٧٩) کی تفسیر۔- ٥۔ لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ :” فی سبیل اللہ “ خرچ کرنے والوں کی فضیلت کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٧٤) اور سورة ٔ انفال (٦٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ( ایمان لا کر) جس مال میں تم کو اس نے دوسروں کا قائم مقام بنایا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرو ( اس عنوان استخلاف میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ مال تم سے پہلے اور کسی کے پاس تھا اور اسی طرح تمہارے بعد کسی اور کے ہاتھ میں چلا جاوے گا، بس جب یہ سدا رہنے والی چیز نہیں تو اس کو اس طرح جوڑ جوڑ کر رکھنا کہ ضروری مصرف میں بھی خرچ نہ کیا جاوے حماقت کے سوا کیا ہے) سو (اس حکم کے موافق) جو لوگ تم میں سے ایمان لے آویں اور (ایمان لا کر اللہ کی راہ میں) خرچ کریں ان کو بڑا ثواب ہوگا اور ( جو لوگ ایمان نہ لاویں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ) تمہارے لئے اس کا کون سبب ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے (اسی میں ایمان بالرسل بھی آگیا) حالانکہ (دواعی قویہ ایمان لانے کے موجود ہیں وہ یہ کہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی رسالت دلائل سے ثابت ہے) تم کو اس بات کی طرف بلا رہے ہیں کہ تم اپنے رب پر ( اسی کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق) ایمان لاؤ (ایک داعی تو یہ ہوا) اور (دوسرا داعی یہ کہ) خود خدا نے تم سے (ایمان لانے کا میثاق الست بربکم میں) عہد لیا تھا (جس کا اجمالی اثر تمہاری فطرت میں بھی موجود ہے اور اللہ کے رسول جو معجزات اور دلائل لے کر آئے انہوں نے بھی اس کی یاد دہانی کی سو) اگر تم کو ایمان لانا ہو (تو یہ دواعی کافی ہیں ورنہ پھر ایمان لانے کے لئے کس داعی کا انتظار ہے کقولہ تعالیٰ (آیت) فبای حدیث بعد اللہ وایاتہ یومنون، آگے اس مضمون والرسول الخ کی اور شرح ہے کہ) وہ ایسا (رحیم) ہے کہ اپنے بندہ (خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صاف صاف آیتیں بھیجتا ہے (جو حسن عبارت اور اعجاز خاص کی وجہ سے مقصود پر واضح دلالت کرتی ہے) تاکہ وہ (بندہ خاص) تم کو (کفر و جہل کی) تاریکیوں سے (ایمان اور علم حقائق کی) روشنی کی طرف لاوے (کقولہ تعالیٰ (آیت) لتخرج الناس من الظلمت الی النور باذن ربہم) اور بیشک اللہ تمہارے حال پر بڑا شفیق مہربان ہے (کہ اس نے ایسا اندھیریوں سے نکالنے والا تمہاری طرف بھیجا) اور (اس مضمون میں تو ایمان نہ لانے پر سوال تھا، اب اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر سوال ہے کہ ہم پوچھتے ہیں کہ) تمہارے لئے اس کا کون سبب ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ (اس کا بھی ایک قوی داعی ہے وہ یہ کہ) سب آسمان و زمین اخیر میں اللہ ہی کا رہ جاوے گا (جب سب مالک مر جاویں گے اور وہی رہ جاوے گا پس جب سب مال ایک روز چھوڑنا ہے تو خوشی سے کیوں نہ دیا جاوے کہ ثواب بھی ہو اور آسمان کا ذکر کرنا باوجودیکہ کوئی مخلوق اس کی مالک نہیں شاید اس نکتہ کے لئے ہو کہ جیسے آسمان بلا شرکت اس کی ملک ہے اسی طرح زمین بھی حقیقت کے اعتبار سے تو فی الحال بھی اس کی ملک ہے اور آخر کار ظاہری طور پر بھی اسی کی ملک رہ جاوے گی، یہ مضمون لفظ مستخلفین کی شرح کے طور پر ہوگیا آگے خرچ کرنے والوں کے درجات کا تفاضل بتلاتے ہیں کہ گو خرچ کرنا بوجہ مامور بہ ہونے کے ہر ایک کے لئے جو ایمان لا کر خرچ کرے موجب اجر ہے، لیکن پھر بھی تفاوت ہے وہ یہ کہ) جو لوگ فتح مکہ سے پہلے (فی سبیل اللہ) خرچ کرچکے اور (فی سبیل اللہ) لڑ چکے (اور جو کہ بعد فتح مکہ کے لڑے اور خرچ کیا دونوں) برابر نہیں (بلکہ) وہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد میں خرچ کیا اور لڑے اور (یوں) اللہ تعالیٰ نے بھلائی (یعنی ثواب) کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے (اس لئے ثواب دونوں وقت کے عمل پر دیں گے، اس لئے جن لوگوں کو موقع فتح مکہ کے قبل خرچ کا نہیں ملا ہم ان کو بھی ترغیباً کہتے ہیں کہ) کوئی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح (یعنی خلوص کے ساتھ) قرض کے طور پر دے پھر خدا تعالیٰ اس (دیئے ہوئے ثواب) کو اس شخص کے لئے بڑھاتا چلا جاوے اور (مضاعفت کے ساتھ) اس کے لئے اجر پسندیدہ (تجویز کیا گیا) ہے (مضاعفت سے تو مقدار بڑھا دینے کو بیان کیا گیا اور لفظ کریم سے اس جزا کی کیفیت بہتر ہونے کی طرف اشارہ ہے )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ۝ ٧- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- كبير - الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان،- ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

لہذا اے مکہ والو تم اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم پر ایمان لاؤ اور جس مال کا اس نے تمہیں مالک بنا رکھا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو سو مکہ والو جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئیں اور پھر اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کریں تو ان کو ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ سے جنت میں بڑا ثواب ملے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ” ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور خرچ کرو ان سب میں سے جن میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔ “- خلافت کے حوالے سے انسان کو سب سے زیادہ اختیار تو اپنے جسم پر عطا کیا گیا ہے۔ اس میں اس کے مختلف اعضاء ہیں ‘ طاقت جسمانی ‘ طلاقت لسانی ‘ ذہانت و فطانت اور دوسری بہت سی صلاحیتیں ہیں ۔ پھر مال و دولت ‘ اولاد اور دوسری بیشمار نعمتیں ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہے۔ واضح رہے کہ ” نفق “ کا لفظ مال و دولت خرچ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور جان خرچ کردینے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ نَفَقَتِ الدَّرَاھِمکے معنی ہیں رقم ختم ہوگئی اور نَفَقَ الْفَرس کے معنی ہیں گھوڑا مرگیا۔ یہاں یہ آیت پڑھتے ہوئے ضروری ہے کہ سورة الحجرات کی اس آیت کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں :- اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔ - ” مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ‘ پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔ “- ان دونوں آیات میں دو دو مطالبات آئے ہیں ‘ پہلا مطالبہ دونوں میں مشترک ہے یعنی اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ‘ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ۔ جبکہ دوسرے مطالبے کے حوالے سے سورة الحجرات کی مذکورہ بالا آیت میں جہاد کا ذکر ہے کہ اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کرو ‘ اور زیر مطالعہ آیت میں ہر اس چیز کے انفاق کا حکم ہے جس پر انسان کو خلیفہ بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں انفاقِ مال بھی شامل ہے اور بذل نفس یعنی انفاقِ جان بھی۔ - فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ ۔ ” پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے (اپنے مال و جان کو ) خرچ کیا ‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ “- جس خوش نصیب نے مذکورہ دونوں مطالبات پورے کردیے ‘ یعنی اسے یقین والا ایمان بھی نصیب ہوگیا اور اس نے اپنی زیر ملکیت ہرچیز کو اللہ کی رضا کے لیے پیش بھی کردیا تو اس کے گویا وارے نیارے ہوگئے۔ وہ بہت بڑے اجر کا مستحق ٹھہرا۔۔۔۔ - - مضمون کے حوالے سے یہاں آیات کے ربط و نظم کی خوبصورتی اور مندرجات کی ترتیب ملاحظہ کیجیے کہ پہلے ایک آیت میں دو مطالبات کا ذکر کر کے ان کے بارے میں ترغیب دی گئی ہے۔ اب اس کے بعد ان میں سے ہر مطالبے سے متعلق دو دو آیات اس طرح آرہی ہیں کہ پہلی آیت میں زجر یعنی ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے ‘ جبکہ دوسری میں راہنمائی اور ترغیب دی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :7 یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے ، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنی حصہ ادا کرو ، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہوگا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے ۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں نہ کہ انتہائی ۔ اس لیے فحوائے کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْا بِاللہِ وِرَسْوْلِہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :8 اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیت نمبر 10 کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جد و جہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو سر بلند کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں برپا تھی ۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک ، جنگی ضروریات ۔ دوسرے ، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور آ رہے تھے ۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا ، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات 10 ۔ 12 ۔ 18 ۔ اور 19 میں دی گئی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :9 اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کا بخشا ہوا مال ہے ۔ تم بذات خود اس کے مال نہیں ہو ، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے ۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو ۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے ۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا ، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا ، پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے ۔ اس عارضی جانشینی کی تھوڑی سی مدت میں ، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے ، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو ، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حاصل ہو ۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا ۔ آپ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا ؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفُھا ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ فرمایا اَنْ تَصَدَّقَ وانت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمَلُ الغِنیٰ ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفلان کذا ولفلان کذا وقد کان لفلان ۔ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو ، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو ۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو ۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی ، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت ، او لبست فابلیتَ ، او تصدقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰلک فذاھب و تارکہ للناس ۔ آدمی کہتا ہے میرا مال ، میرا مال ۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا ، یا پہن کر پرانا کر دیا ، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا ؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ( مسلم ) ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :10 یہاں پھر جہاد میں مال خرچ کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا اور اخلاص فی الایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ، گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقی اور مخلص مومن وہی ہے جو ایسے موقع پر مال صرف کرنے سے جی نہ چرائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: مال و دولت میں انسان کو قائم مقام بنانے سے دو عظیم حقیقتوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ مال و دولت، خواہ کسی قسم کا ہو، اصل میں وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، کیونکہ اسی نے اس کو پیدا فرمایا ہے البتہ اس نے انسان کو اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عطا فرمایا ہے، اس لیے انسان اس کی ملکیت میں اللہ تعالیٰ کا قائم مقام ہے، اور جب وہ قائم مقام ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی اور اس کے حکم کے مطابق خرچ کرے۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان جو دولت کماتا ہے، وہ اس سے پہلے کسی اور کے قبضے میں تھی، اور اب خریداری، تحفے یا میراث وغیرہ کے ذریعے سے اس کے پاس آگئی ہے، اس لحاظ سے وہ اپنے سے پچھلے مالک کا قائم مقام یا جانشین ہے۔ اس سے یہ اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح یہ دولت تم سے پہلے مالک کے پاس ہمیشہ نہیں رہی، بلکہ تمہارے پاس منتقل ہوگئی، اسی طرح یہ تمہارے پاس بھی ہمیشہ نہیں رہے گی، بلکہ کسی اور کے پاس چلی جائے گی، اور جب اسے ہمیشہ تمہارے پاس نہیں رہنا، کسی نہ کسی کے پاس جانا ہے تو تمہاری خوش نصیبی یہ ہے کہ اس کو ان لوگوں کی طرف منتقل کرو جنہیں دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔