Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دوغلے لوگوں کا کردار منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں ، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بےدھڑک قسمیں کھا لیتے ہیں ، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں ، ایمان ظاہر کرتے ہیں کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں ، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی اس لئے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کر سکیں نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہو گا ۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہو گا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا سب جمع ہو جائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کر دکھاتے تھے آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لئے بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو؟ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بے ادبی نہیں کی ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہو گا ، قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا ۔ پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے یاد اللہ ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو ۔ حضرت سائب فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں ، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مدینے میں منافقین کا بھی زور تھا اور یہودیوں کی سازشیں بھی عروج پر تھیں ابھی یہود کو جلا وطن نہیں کیا گیا تھا۔ 14۔ 2 یعنی یہ منافقین مسلمان ہیں اور نہ دین کے لحاظ سے یہودی ہیں۔ پھر یہ کیوں یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔ ؟ صرف اس لیے کہ ان کے اور یہود کے درمیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی عداوت قدر مشترک ہے۔ 14۔ 3 یعنی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم تمہاری طرح مسلمان ہیں یا یہودیوں سے انکے رابطے نہیں ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] منافقوں کی یہود سے ملی بھگت :۔ ان لوگوں سے سے مراد مدینہ کے منافق ہیں اور مغضوب علیہ قوم سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں۔ منافقوں کی اصل دوستی اور ہمدردی یہودیوں سے تھی۔ کیونکہ اندر سے منافق بھی مسلمانوں کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی۔ اسی اسلام دشمنی کی مشترک قدر نے ان دونوں کو دوستی کے رشتہ میں منسلک کردیا تھا۔ ان دونوں میں بدتر حالت منافقوں کی تھی جن کے زبانی دعویٰ ایمان پر مسلمانوں کا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے دعویٰ کی وجہ سے مسلمانوں سے کئی قسم کے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ لہذا مسلمانوں میں انہیں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ مگر ان کی کرتوتیں چونکہ ان کے دعویٰ اور قسموں کی تکذیب کردیتی تھیں۔ اس لیے ان پر نہ مسلمان اعتماد کرتے تھے اور نہ یہودی۔ ان کی حالت دھوبی کے کتے جیسی ہوگئی تھی جو نہ گھر کا شمار ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔- [١٩] یہودیوں کے سامنے یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے محض اُلّو بنا رکھا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے وہ یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور ان کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قوْمًا غَضِبَ اللہ ُ عَلَیْہِمْ : اس آیت میں منافقین کے تین اواف بان کرتے ہوئے ان کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے ، ان میں سے پہلا وصف یہ ہے کہ ایمان کے دعوے کے باوجود ان کی دوستی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ایمان والوں کے بد ترین دشمن ہیں اور جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ اگرچہ تمام کفار ہی پر اللہ کا غضب ہے اور منافقین تمام کفار سے درستی کرتے تھے ، مگر ” مغضوب علیھم “ خاص طور پر یہود کا لقب ہے ، جیسا کہ ” غیر المغضوب علیھم “ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ (١٦، ٩٠) ، آل عمران (١١٢) ، اعراف (١٥٢) ، مائدہ (١٦٠) اور سورة ٔ ممتحنہ (١٣) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یہود و نصاری اور کفار کی دوستی سے صریح الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٢٨) ، نسائ (١٤٤) ، مائدہ (٥١) اور سورة ٔ توبہ (٢٣) ۔- ٢۔ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ لا : یہ منافقین کا دوسرا وصف ہے کہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود فی الواقع وہ تم میں سے نہیں ہیں ، کیونکہ اگر وہ حقیقی مومن ہوتے تو کفار کو کبھی دوست نہ بناتے۔ ( دیکھئے مائدہ : ٨١) اور اسی طرح وہ یہود میں سے بھی نہیں ، کیونکہ وہ انہیں بھی حق پر نہیں سمجھتے ، ان کی دوستی محض غرض کی دوستی ہے کہ اگر مسلمانوں پر کوئی گردش آئی تو ان کی دوستی کام آئے گی۔ دیکھئے سورة ٔ نسائ (١٤٢، ١٤٣) کی تفسیر۔- ٣۔ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ : یعنی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر قسمیں بھی کھاتے ہیں ۔ اس جھوٹ سے مراد ایک تو مومن ہونے کا دعویٰ ہے۔ ( دیکھئے منافقون : ١۔ توبہ : ٥٦) پھر مختلف اوقات میں اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے خلاف ان کے کسی قول یا فعل پر جب گرفت کی جاتی تو وہ جھوٹ بول دیتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی، نہ یہ کام کیا ہے اور اس پر قسمیں کھا جاتے ۔ ( دیکھئے توبہ : ٦٢، ٧٤، ٩٥، ٩٦۔ منافقون : ٦، ٧) سیرت کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب کیا ہے ( پہلے لوگوں سے مراد منافقین ہیں اور دوسرے لوگوں سے مراد یہود و جمیع کفار مجاہرین، اور منافقین چونکہ یہودی تھے اس لئے ان کی دوستی یہود سے اور اسی طرح اور کفار سے بھی مشہور اور معلوم ہے) یہ (منافق) لوگ نہ تو (پورے پورے) تم میں ہیں اور نہ (پورے پورے) ان ہی میں (بلکہ ظاہر میں تو تم سے ملے ہوئے ہیں اور باطناً و عقیدةً کفار کے ساتھ ہیں) اور جھوٹی بات پر قسمیں کھا جاتے ہیں ( وہ جھوٹی بات یہی ہے کہ ہم مسلمانوں میں شامل ہیں کقولہ تعالیٰ ویحلفون باللہ انہم لمنکم وماہم منکم) اور وہ ( خود بھی) جانتے ہیں ( کہ ہم جھوٹے ہیں، آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے (کیونکہ) بیشک وہ برے برے کام کیا کرتے تھے (چنانچہ کفر و نفاق سے بدتر کونسا کام ہوگا ؟ اور انہی برے کاموں میں سے ایک برا کام یہ ہے کہ) انہوں نے اپنی (ان جھوٹی) قسموں کو (اپنے بچاؤ کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے (تاکہ مسلمان ہم کو مسلمان سمجھ کر ہماری جان و مال سے تعرض نہ کریں) پھر (اوروں کو بھی) خدا کی راہ (یعنی دین) سے روکتے رہتے ہیں (یعنی بہکاتے رہتے ہیں) سو (اس وجہ سے) ان کے لئے ذلت کا عذاب ہونے والا ہے (یعنی وہ عذاب جیسا شدید ہوگا ایسا ہی ذلیل کرنے والا بھی ہوگا اور جب وہ عذاب ہونے لگے گا تو) ان کے اموال اور اولاد اللہ (کے عذاب) سے ان کو ذرا نہ بچا سکیں گے (اور) یہ لوگ دوزخی ہیں ( اس میں تعیین فرما دی اس عذاب شدید و مہین کی کہ وہ دوزخ ہے اور) وہ لوگ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہنے والے ہیں (آگے وقت عذاب کا بتلاتے ہیں کہ وہ عذاب اس روز ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ ان سب کو (مع دیگر مخلوقات کے) دوبارہ زندہ کرے گا سو یہ اس کے روبرو بھی (جھوٹی) قسمیں کھا جاویں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھا جاتے ہیں (جیسا مشرکین کی جھوٹی قسم قیامت کے دن اس آیت میں مذکور ہے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشر کین) اور یوں خیال کریں گے کہ ہم کسی اچھی حالت میں ہیں (کہ اس جھوٹی قسم کی بدولت بچ جاویں گے) خوب سن لو یہ لوگ بڑے ہی جھوٹے ہیں (کہ خدا کے سامنے بھی جھوٹ بولنے سے نہ چوکے اور ان کی جو حرکات اوپر مذکور ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ) ان پر شیطان نے پورا تسلط کرلیا ہے (کہ اس کے کہنے پر عمل کر رہے ہیں) سو اس نے ان کو خدا کی یاد بھلا دی (یعنی اس کے احکام کو چھوڑ بیٹھے واقعی) یہ لوگ شیطان کا گروہ ہے، خوب سن لو کہ شیطان کا گروہ ضرور برباد ہونے والا ہے (آخرت میں تو ضرور اور گاہے دنیا میں بھی اور ان کی یہ حالت کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ اور رسول کے مخالف ہیں اور قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے نزدیک) سخت ذلیل لوگوں میں ہیں (جب اللہ کے نزدیک ذلیل ہیں تو آثار مذکورہ کا ترتب کیا مستبعد ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ذلت تجویز فرما رکھی ہے اسی طرح مطیعین کے لئے عزت کیونکہ وہ لوگ اللہ اور رسولوں کے متبع ہیں اور) اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکم ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے ( جو کہ حقیقت ہے عزت کی، مقصود یہاں غلبہ بیان کرنا ہے انبیاء کا، اپنا ذکر تشریف انبیاء کے لئے فرما دیا، پس جب رسل ذی عزت ہیں تو ان کے متبعین بھی اور معنی غلبہ کے سورة مائدہ کی آیت (آیت) ان حزب اللہ ھم الغلبون اور سورة مومن کی ( آیت) لننصر رسلنا الخ کے ذیل میں گزر چکے ہیں) بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے ( اس لئے وہ جس کو چاہے غالب کر دے، آگے دوستی کفار میں منافقین کے حال کے خلاف اہل ایمان کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان (کے قلوب) کو اپنے فیض سے قوت دی ہے (فیض سے مراد نور ہے، یعنی مقتضائے ہدایت پر ظاہراً عمل و باطناً سکون قلب وہو المذکور فی قولہ تعالیٰ (آیت) فہو علے ٰ نورمن ربہ، چونکہ یہ نور سبب ہے زیادت حیات معنویہ کا اس لئے اس کو روح سے تعبیر فرمایا، یہ دولت تو ان کو دنیا میں ملی، کقولہ تعالیٰ (آیت) اولٓئک علی ہدی من ربہم) اور (آخرت میں ان کو یہ نعمت ملے گی کہ) ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے خوب سن لو کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے (کقولہ تعالیٰ اولٓئک ہم المفلحون، بعد قولہ اولٓئک علیٰ ھدی من ربہم)- معارف و مسائل - اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ، ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان لوگوں کی بدحالی اور انجام کار عذاب شدید کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ کے دشمنوں کافروں سے دوستی رکھیں، کفار خواہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ یا دوسرے اقسام کے کفار کسی مسلمان کے لئے دلی دوستی کسی سے جائز نہیں اور وہ عقلاً ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ مومن کا اصل سرمایہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے کفار اللہ تعالیٰ کے مخالف اور دشمن ہیں اور جس شخص کے دل میں کسی شخص کی سچی محبت اور دوستی ہو اس سے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس کے دشمن سے بھی محبت اور دوستی رکھے، اسی لئے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں اور جو مسلمان کسی کافر سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرہ میں شامل سمجھے جانے کی وعید آئی ہے لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔- کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا یا تجارتی اور اقتصادی معاملات ان سے کرنا، دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا کھلا ہوا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا اپنے دین کے لئے مضر نہ ہو اپنے ایمان اور عمل میں سستی پیدا نہ کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی مضر نہ ہو۔- اس مسئلہ میں مولات اور مواسات اور معاملات کے فرق کی پوری تفصیل سورة آل عمران (آیت) لا یتخذ المومنون الکفرین اولیا کے تحت معارف القرآن جلد دوم صفحہ 45 تا 49 میں گزر چکی ہے وہاں مطالعہ کرلیا جائے۔- ویحلفون علے الکذب، بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن نبتل منافق کے بارے میں نازل ہوئی جس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ تشریف رکھتے تھے تو فرمایا کہ اب تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس کا قلب قلب جبار ہے اور جو شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اس کے بعد ہی عبداللہ بن نبتل منافق داخل ہوا جو نیلگوں چشم، گندم گوں، پست قد، خفیف اللحیہ تھا، آپ نے اس سے فرمایا کہ تم اور تمہارے ساتھی مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ اس نے حلف کھا کے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا، پھر اپنے ساتھیوں کو بھی بلالیا انہوں نے بھی یہ جھوٹا حلف کرلیا، حق تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے جھوٹ کی خبر دے دی (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ مَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْہُمْ۝ ٠ ۙ وَيَحْلِفُوْنَ عَلَي الْكَذِبِ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٤- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير :- تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره .- والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- والمُحَالَفَة : أن يحلف کلّ للآخر، ثم جعلت عبارة عن الملازمة مجرّدا، فقیل : حِلْفُ فلان وحَلِيفُه، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «لا حِلْفَ في الإسلام» . وفلان حَلِيف اللسان، أي : حدیده، كأنه يحالف الکلام فلا يتباطأ عنه، وحلیف الفصاحة .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور جو کسی سے الگ نہ ہوتا ہو اسے اس کا حلف یا حلیف کہا جاتا ہے حدیث میں ہے اسلام میں زمانہ جاہلیت ایسے معاہدے نہیں ہیں ۔ فلان حلیف اللسان فلاں چرب زبان ہے کو یا اس نے بولنے سے عہد کر رکھا ہے اور اس سے ایک لمحہ نہیں رکتا حلیف الفصا حۃ وہ صحیح ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کی جو یہودیوں کے ساتھ دوستی تھی اگلی آیات اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمائی ہیں۔ محمد کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی، یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے یہ منافق اندرونی طور پر نہ تو تم میں ہیں کہ تمہارے لیے جو چیزیں واجب ہیں وہ ان کے لیے واجب ہوں اور نہ علانیہ طور پر یہودیوں ہی میں ہیں کہ ان پر جو غصہ ہے وہ ان پر بھی ہو اور اپنے مسلمان ہونے اور ایمان کے دعوے کرنے پر جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں۔- شان نزول : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا (الخ)- ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن نبتل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ” کیا تم نے غور نہیں کیا ان لوگوں (کے طرزِعمل) پر جنہوں نے دوستی گانٹھی ہے ان لوگوں سے جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے۔ “- اللہ کے غضب کے حوالے سے یہاں قوم یہود (مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ ) کی طرف اشارہ ہے اور ان سے دوستیاں گانٹھنے والے اوس اور خزرج کے منافقین تھے جو ان کے ساتھ اپنے پرانے حلیفانہ تعلقات کو ابھی تک نبا ہے چلے جا رہے تھے۔- مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ ” نہ وہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں “- منافقین کے اس دوغلے کردار کا ذکر سورة النساء (آیت ١٤٣) میں اس طرح ہوا ہے : لَآ اِلٰی ہٰٓــؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ہٰٓــؤُلَآئِ ” نہ تو یہ ان کی جانب ہیں اور نہ ہی ان کی جانب ہیں۔ “- وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ ” اور وہ جانتے بوجھتے جھوٹ پر قسمیں اٹھاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :31 اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :32 یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہ اہل ایمان سے ہے نہ یہود سے ۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :33 یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لائے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: اس سے مراد منافقین ہیں جنہوں نے یہودیوں سے ایسی دوستی گانٹھی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔