19۔ 1 استحوذ کے معنی ہیں گھیر لیا احاطہ کرلیا جمع کرلیا اسی کا ترجمہ غلبہ حاصل کرلیا کیا جاتا ہے کہ غلبے میں یہ سارے مفہوم آجاتے ہیں۔ 19۔ 2 یعنی اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان سے شیطان نے ان کو غافل کردیا ہے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے، ان کا وہ ارتکاب کرواتا ہے، انہیں خوبصورت دکھلا کر یا مغالطوں میں ڈال کر یا تمناؤں اور آرزاؤں میں مبتلا کر کے۔ 19۔ 3 یعنی مکمل خسارا انہی کے حصے میں آئے گا۔ گویا دوسرے ان کی نسبت خسارے میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جنت کا سودا گمراہی لے کر کرلیا، اللہ پر جھوٹ بولا اور دنیا و آخرت میں جھوٹی قسمیں کھاتے رہے۔
[٢٢] استحوذ کا لغوی مفہوم :۔ إسْتَحْوَذَ ۔ حَاذ بمعنی سختی کے ساتھ ہانکنا اور حاذ الدَّابَۃُ بمعنی جانور کو تیزی سے چلانا اور اِسْتَحْوَذَ کے معنی کسی پر مسلط ہو کر اسے سختی سے ہانکنا ہے۔ کہتے ہیں استحوذ العیر علی الاتان یعنی گدھے کا گدھی کی پشت پر چڑھ کر اسے دونوں جانب سے دبا لینا ہے (مفردات) یعنی شیطان نے ان منافقوں پر مسلط ہو کر انہیں کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ انہیں اللہ کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں آتا اور وہ اسی کے آلہ کار بن کر رہ گئے ہیں۔- [٢٣] اسلامی نقطہ نظر سے سیاسی پارٹیاں صرف دو ہوسکتی ہے ایک حزب اللہ دوسری حزب الشیطان :۔ حِزْبٌ بمعنی پارٹی، گروہ جتھا، جن کے خیالات میں ہم آہنگی نیز سختی اور شدت پائی جائے۔ گویا حزب کا لفظ سیاسی پارٹی، فوج اور لشکر کے معنوں میں آسکتا ہے۔ جس کا مقصد مملکت میں عمل دخل حاصل کرنا ہو۔ غزوہ احزاب میں ایسی ہی پارٹیاں اسلام کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ منافق شیطان کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شرعی نقطہ نگاہ سے صرف دو ہی سیاسی پارٹیاں ہوسکتی ہیں۔ ایک اللہ کے فرمانبرداروں کی پارٹی جسے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حزب اللہ کے نام سے موسوم فرمایا۔ اور دوسرے شیطان کی پارٹی جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اسلام دشمن جتنی بھی طاقتیں ہیں۔ وہ سب حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی میں شامل ہیں اور اسی پارٹی کے افراد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً جنگ احزاب میں مشرکین مکہ، یہود مدینہ، منافقین اور عرب کے دیگر مشرک قبائل سب شامل تھے۔ ان میں سے ایک ایک گروہ بھی شیطان کی پارٹی ہے اور سب مل کر بھی شیطان کی بڑی پارٹی بن جاتی ہے۔- [٢٤] جنگ احزاب میں شامل تمام پارٹیوں میں قدر مشترک صرف اسلام دشمنی اور اللہ کے رسول کی مخالفت تھی۔ اگرچہ ان سب کی سرگرمیاں اور طریق کار الگ الگ نوعیت کے تھے۔ یہ لوگ چونکہ حق اور اللہ کی پارٹی کے مقابلہ میں سامنے آئے تھے تو ضروری تھا کہ اللہ بھی اپنی پارٹی کی مدد اور حمایت کرتا۔ چناچہ اللہ نے اس انداز سے اپنی پارٹی کی مدد فرمائی کہ شیطان کی پارٹی ہر لحاظ سے خسارہ میں رہی ان کا مال بھی ضائع ہوا۔ محنت مشقت سفر بھی اور بالآخر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور فرار کے سوا انہیں اپنی عافیت کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ یہ تو انجام دنیا میں ہوا اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ خسارہ اور برے انجام سے دو چار ہوں گے۔ واضح رہے کہ دنیا میں شیطان کی پارٹی کا یہ انجام فقط غزوہ احزاب یا دوسرے غزوات تک ہی مختص نہیں بلکہ حق کے مقابلہ پر آنے والی ہر پارٹی کا یہی حشر ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مقابلہ میں لوگ صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔
١۔ اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰہُمْ ذِکْرَ اللہ ِ ط ۔۔۔: یعنی منافقین کے ان اعمال کی وجہ سے ان پر شیطان غالب آگیا اور اس طرح مسلط ہوگیا ہے کہ اس نے انہیں اللہ کی یاد تک بھلا دی ہے۔ یہ لوگ شیطانی گروہ ہیں اور شیطان کا گروہ ہی کامل خسارے والے لوگ ہیں ۔- ٢۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال کے نتیجے میں شیطان کا آدمی پر غلبہ ہوجاتا ہے ، ان اعمال میں سے ایک نماز با جماعت کا ترک ہے۔ ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ما من ثلاثۃ فی قریۃ ولا بدولا تقام فیھم الصلاۃ الا قداستحوذ علیھم الشیطان فعلیک بالجماعۃ فانما یا کل الذئب القاصیۃ ) (ابوداؤد ، الصلاۃ باب الشدید فی ترک الجماعۃ : ٥٤٧)” کوئی بھی بستی یا باد یہ نہیں جس میں تین آدمی (ہی) ہوں اور ان میں نماز با جماعت نہ ہوتی ہو مگر اس پر شیطان غالب آچکا ہے ، اس لیے تم جماعت کو لازم پکڑو، کیونکہ بھیڑیا صرف اسی بکر ی کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور جانے والی ہو “۔ قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، فرمایا :(وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی لا )” اور جب وہ ( منافق) نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں “۔
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ١٩- حوذ - الحَوْذُ : أن يتبع السّائق حاذيي البعیر، أي : أدبار فخذيه فيعنّف في سوقه، يقال : حَاذَ الإبلَ يَحُوذُهَا، أي : ساقها سوقا عنیفا، وقوله : اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ [ المجادلة 19] ، استاقهم مستولیا عليهم، أو من قولهم : استحوذ العیر علی الأتان، أي : استولی علی حَاذَيْهَا، أي : جانبي ظهرها، ويقال : استحاذ، وهو القیاس، واستعارة ذلک کقولهم :- اقتعده الشیطان وارتکبه، والأَحْوَذِيّ : الخفیف الحاذق بالشیء، من الحوذ أي : السّوق .- ( ح و ذ) الحوذن ( ن) کے معنی ہیں ہانکنے والا جو اونٹ کے پیچھے اس کے رانوں کے عین بیچ میں چل کر وہاں سے سختی کے ساتھ اسے ہانکے جائے ۔ حاذالا ۔ بل سختی کے ساتھ ہانکنا اور آیت :۔ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ [ المجادلة 19] شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہے ۔ میں استحوذ کے معنی ان پر مسلط ہوکر ہانکنے کے ہیں ۔ یہ استحوذ العیر علی الاتان کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی گدھے کا مادہ خر کی پشت پر چڑھ کر دونوں جانب سے قابوپالینا ( جیسا ک جفتی کی صورت میں ہوتا ہے ) اس میں ایک قرآت استحاذ بھی ہے جو قیاس کے مطابق ہے آیت میں شیطان کے بنی آدم پر غلبہ پانے کے لئے استحوذ کا استعمال بطور استعارہ کے ہے جیسا کہ اقتعدہ الشیطان اور تکبہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی شیطان نے اسے اپنی ذسواری بنا لیا ۔ الاحوذی مرد سبک فہم و نیک کار گزار کسی چیز کا ماہر حوذ سوق ( چلانا ) سے مشتق ہے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
ان پر شیطان نے پورا قبضہ جما کر کے اپنی پیروی کا ان کو حکم دیا ہے سو یہ اسی کی پیروی کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے خفیہ طور پر اطاعت خداوندی اور اس کی یاد کو بھلا دیا ہے واقعہ ہی یہود و منافقین شیطان کا گروہ ہے اور شیطان کا گروہ دنیا و آخرت کے ضائع ہونے سے ضرور برباد ہونے والا ہے۔
آیت ١٩ اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰٹہُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ ” شیطان نے ان کے اوپر قابو پا لیا ہے ‘ پس انہیں اللہ کی یاد بھلا دی ہے۔ “- شیطان ان پر مسلط ہوچکا ہے اور اس نے انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے۔- اُولٰٓئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ ” یہ لوگ ہیں شیطان کی جماعت۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں شیطان کی یہ جماعت تین گروہوں پر مشتمل تھی۔ ان میں شیطان کا سب سے طاقتور ہتھیار مشرکین عرب تھے۔ انہوں نے اسلام کی مخالفت اور اپنے ” دین “ کی حمایت میں ہر طرح کی قربانیاں دیں ‘ جنگیں بھی لڑیں اور اپنے باطل معبودوں کے لیے گردنیں بھی کٹوائیں۔ دوسرا گروہ یہود مدینہ کا تھا ‘ جبکہ تیسرا گروہ منافقین پر مشتمل تھا۔ منافقین مسلمانوں کے اندر رہتے ہوئے ان کے خلاف کا کردار ادا کر رہے تھے۔ آیات زیر مطالعہ میں خصوصی طور پر ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اگرچہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں بیٹھے ہیں ‘ لیکن اصل میں یہ حزب الشیطان ہی کے ارکان ہیں۔ مسلمانوں کی مخالفت کے حوالے سے ان لوگوں کے کردار کی مزید تفصیل اگلی سورة یعنی سورة الحشر میں بیان ہوئی ہے۔- اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ ” آگاہ ہو جائو شیطان کی جماعت کے لوگ ہی حقیقت میں خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “