Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ اس میں کم یا اس سے زیادہ تعداد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بیخبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے، مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ 7۔ 2 خلوت میں ہوں یا جلوت میں، شہروں میں ہوں یا جنگلوں صحراؤں میں، آبادیوں میں ہوں یا بےآباد پہاڑوں بیابانوں میں، جہاں بھی ہوں، اس سے چھپے نہیں رہ سکتے۔ 7۔ 3 یعنی اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا نیک کو اس کی نیکیوں کی جزا اور بد کو اس کی بدیوں کی سزا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] مشورہ اور مشیروں کی تعداد اور جمہوریت پسند :۔ اس آیت سے دراصل سمجھانا یہ مقصود ہے کہ انسان کسی وقت اور کسی حال میں بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔ اور اگر وہ کوئی بات کرے تو وہ اسے بھی سن رہا ہوتا ہے۔ لہذا انسان کو گناہ کے کاموں اور گناہ کی باتوں سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین اور پانچ یعنی طاق اعداد کا ذکر کیا ہے۔ دو اور چار وغیرہ جفت اعداد کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ مشورہ طاق لوگوں سے لینا چاہیے۔ ایک سے تو مشورہ کیا یا لیا نہیں جاسکتا اور دو مشورہ کرنے والوں میں اگر اختلاف ہوجائے تو کچھ فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ اور اگر تین ہوں اور دو کی رائے ایک طرف ہو تو ان کی رائے ایک سے زیادہ معتبر ہوگی اور اس سے آگے انہوں نے کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کے اصول کو درست ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ یہ دلیل کئی لحاظ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ نَجْوٰی کا معنی کانا پھوسی، سرگوشی اور راز کی باتیں ایک دوسرے کو کہنا یا بتانا ہوتا ہے۔ اور یہ لفظ اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ الا یہ کہ کوئی قرینہ موجود ہو اور یہ کانا پھوسی دو آدمیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ تین میں بھی اور چار میں بھی۔ دوسرے یہ کہ آیت کے الفاظ (وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ ۝) 58 ۔ المجادلة :7) ان لوگوں کی اس دلیل کو باطل کردیتے ہیں۔ تین سے ادنیٰ دو ہے اور اکثر چار۔ پانچ سے ادنیٰ چار ہے اور اکثر چھ۔ علی ہذا القیاس تیسرے یہ کہ صرف طاق اعداد کا ذکر اہل عرب کے رواج اور حسن کلام سے تعلق رکھتا ہے اس کا مشیروں کی تعداد سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اصحاب کہف کی تعداد کا ذکر فرمایا تو وہاں بھی تین، پانچ یا سات کا ہی ذکر فرمایا۔ حالانکہ وہاں کوئی ایسا معاملہ نہیں جو مشورہ سے تعلق رکھتا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَلَمْ تَرَ : اس کے لیے دیکھئے سورة ٔ فیل کی پہلی آیت اور سورة ٔ نور کی آیت (٤١) کی تفسیر۔- ٢۔ اَنَّ اللہ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط : یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہی کو نہیں بلکہ آسمان و زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو جانتا ہے۔- ٣۔ یہاں سے آیت (١٩) تک مسلسل منافقین کے طرزعمل پر گرفت کی گئی ہے۔- ٤۔ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلاَّ ھُوَ رَابِعُہُمْ ۔۔۔۔۔:” نجا ینجو نجوا و نجوی و ناجی منا جاۃ و نجاء ، الرجل “ کسی آدمی سے اپنے دل کی بات دوسروں سے چھپا کر کرنا۔” نجوی “ اس سے اسم مصدر ہے ، سر گوشی ۔ زیادہ تر اس کا استعمال برے کاموں کی سر گوشیوں اور سازشوں کے لیے ہوتا ہے ، مثلاً چوری ، ڈاکے ، قتل یا کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ مشورہ کرنا ۔ خیر کے کاموں میں اس کا استعمال کم ہوتا ہے ، کیونکہ عموماً انہیں چھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یعنی تھوڑے سے تھوڑے یا زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کوئی مجلس ، کوئی سرگوشی اور کوئی خفیہ سے خفیہ مشورہ نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نہ ہو ، بلکہ جو بھی تین آدمی چھپ کر مشورہ کررہے ہوں ان کے ساتھ چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور جو بھی پانچ آدمی چھپ کر مشورہ کررہے ہوں ان کے ساتھ چھٹا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ جہاں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔” الا ھو معھم “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید (١٤) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

شان نزول - اسباب نزول ان آیات کے چند واقعات ہیں، اول یہود اور مسلمانوں میں صلح تھی، لیکن یہود جب کسی مسلمان کو دیکھتے تو اس کے خیالات پریشان کرنے کے لئے آپس میں سر گوشی کرنے لگتے، وہ مسلمان سمجھتا کہ میرے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو اس سے منع فرمایا مگر وہ باز نہ آئے، اس پر (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى الخ نازل ہوئی۔- دوم : اسی طرح منافقین بھی باہم سرگوشی کیا کرتے اس پر آیت اِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَـنَاجَوْا الخ اور آیة انما النجوی الخ نازل ہوئی، سوم : یہود آپ کے حضور میں آتے تو از راہ شرارت بجائے السلام علیکم کہنے کے السام علیکم کہتے، سام بمعنی موت کے ہیں، چہارم منافقین بھی اسی طرح کہتے ان دونوں واقعوں پر (آیت) وَاِذَا جَاۗءُوْكَ حَيَّوْكَ الخ نازل ہوا اور ابن کثیر نے امام احمد کی روایت سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود اس طرح سلام کر کے خفیہ کہتے لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ ، یعنی اگر ہم نے یہ گناہ کیا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا، پنجم : ایک بار آپ صفہ مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور مجلس میں مجمع زیادہ تھا، چند صحابہ جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے آئے تو ان کو کہیں جگہ نہ ملی اور نہ اہل مجلس نے ایسا کیا کہ مل مل کر بیٹھ جاتے جس سے جگہ کھل جاتی، آپ نے جب دیکھا تو بعضے آدمیوں کو مجلس سے اٹھنے کے لئے فرما دیا، منافقین نے طعن کیا کہ یہ کونسی انصاف کی بات ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو اپنے بھائی کے لئے جگہ کھول دے، سو لوگوں نے جگہ کھول دی، اس پر آیت يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا الخ نازل ہوئی، رواہ ابن کثیر عن ابی حاتم، مجموعہ اجزا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اول آپ نے جگہ کھولنے کے لئے فرمایا ہوگا، بعضوں نے تو جگہ کھول دی، جو کافی نہ ہوئی ہوگی اور بعضوں نے جگہ نہیں کھولی، آپ نے تادیباً جیسے مدارس کے طلبہ میں ہوتا ہے ان کو اٹھ جانے کے لئے فرمایا جو کہ منافقین کو ناگوار ہوا۔- ششم : بعض اغنیاء حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر بڑی دیر تک آپ سے سرگوشی کیا کرتے اور فقراء کو استفادہ کا وقت کم ملتا، آپ کو ان لوگوں کا دیر تک بیٹھنا اور دیر تک سرگوشی کرنا ناگوار گزرتا اس پر آیت اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ الخ نازل ہوئی، فتح البیان میں زید بن اسلم سے بلا سند نقل کیا ہے کہ یہود و منافقین بلا ضرورت آپ سے سرگوشیاں کرتے، مسلمانوں کو اس خیال سے کہ شاید کسی نقصان دہ بات کی سرگوشی ہونا گوار گزرتا، اس پر ان کو منع کیا گیا، جس کا ذکر آیت نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى میں ہے، مگر جب وہ باز نہ آئے تو یہ حکم نازل ہوا اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ الخ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل باطل اس سرگوشی سے رک گئے، کیونکہ حب مال کی وجہ سے صدقہ ان کو گوارا نہ تھا۔- ہفتم : جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم ہوا تو بہت سے آدمی ضروری بات کرنے سے بھی رک گئے، اس پر آیت ءاشفقتم نازل ہوئی، حضرت حکیم الامت (رح) نے فرمایا کہ صدقہ دینے کے حکم میں پہلے سے بھی فان لم تجدوا میں نادراروں کو رخصت دے دیگئی تھی، لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نہ تو بالکل نادار ہوتے ہیں اور نہ پورے صاحب ثروت ہوتے ہیں گو صاحب نصاب ہوں، غالباً ایسے لوگوں کو تنگی پیش آئی ہوگی کہ کم و سعتی کی وجہ سے تو خرچ کرنا شاق ہوا اور اپنی ناداری میں بھی شبہ ہوا، اس لئے نہ صدقہ دے سکے اور نہ اپنے کو محل رخصت سمجھا اور سرگوشی کرنا کوئی عبادت نہ تھی کہ اس کا چھوڑنا ملامت کا سبب ہو سکے، اس لئے اس سے رک گئے (الروایات کلہا فی الدر المنثور) ان اسباب نزول سے فہم تفسیر میں اعانت و سہولت ہوگی (ازبیان القرآن)- خلاصہ تفسیر - کیا آپ نے اس پر نظر نہیں فرمائی (مطلب اوروں کو سنانا ہے جو ممنوع کی ہوئی سرگوشی سے باز نہ آتے تھے) کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ( اور اسی میں ان کی تناجی یعنی سرگوشی بھی داخل ہے پس) کوئی سرگوشی تین آدمیوں کی ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا وہ ( یعنی اللہ تعالیٰ ) نہ ہو اور نہ پانچ کی (سرگوشی) ہوتی ہے جس میں چھٹا وہ نہ ہو اور نہ اس (عدد) سے کم (میں ہوتی ہے جیسے دو یا چار آدمیوں میں) اور نہ اس سے زیادہ (میں ہوتی ہے، جیسے چھ سال یا زیادہ آدمیوں میں) مگر وہ (ہر حالت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے (خواہ) وہ لوگ کہیں بھی ہوں، پھر ان ( سب) کو قیامت کے روز ان کے کئے ہوئے کام بتلا دے گا، بیشک اللہ تعالیٰ کو ہر بات کی پوری خبر ہے ( اس آیت کا مضمون بعنوان کلی اگلے مضامین جزئیہ کی تمہید ہے یعنی یہ ایذاء مسلمین کے لئے باطل سرگوشی کرنے والے خدا سے ڈرتے نہیں کہ خدا کو سب خبر ہے اور ان کو سزا دے گا، آگے وہ جزئی مضامین ہیں، یعنی) کیا آپ نے ان لوگوں پر نظر نہیں فرمائی جن کو سرگوشی سے منع کردیا گیا تھا (مگر) پھر (بھی) وہ وہی کام کرتے ہیں جس سے ان کو منع کردیا گیا تھا اور گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں (یعنی ایسی سرگوشی کرتے ہیں جس میں بوجہ منہی عنہ ہونے کے خود بھی گناہ ہے اور مسلمانوں کو غمگین کرنے کی وجہ سے عدوان یعنی ظلم بھی ہے اور بوجہ اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منع فرما چکے تھے رسول کی نافرمانی بھی ہے جیسا واقعہ اول اور دوم میں بیان ہوا) اور وہ لوگ ( ایسے ہیں کہ) جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے لفظ سے سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے آپ کو سلام نہیں فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ کے الفاظ تو یہ ہیں (آیت) سلم علی المرسلین، سلام علی عبادہ الذین اصطفے، صلوا علیہ وسلم وا تسلیما اور وہ کہتے ہیں السام علیک) اور اپنے جی میں ( یا اپنے آپس میں) کہتے ہیں کہ ( اگر یہ پیغمبر ہیں تو) اللہ تعالیٰ ہم کو ہمارے اس کہنے پر ( جس میں سراسر آپ کی بےادبی ہے) سزا (فوراً ) کیوں نہیں دیتا ( جیسا واقعہ سوم و چہارم میں گزرا، آگے ان کے اس فعل کی وعید اور اس قول کا جواب ہے کہ جلدی عذاب بعض حکمتوں کے سبب نہ آنے سے مطلقاً عذاب نہ دینا لازم نہیں آتا) ان (کی سزا) کے لئے جہنم کافی ہے اس میں یہ لوگ (ضرور) داخل ہوں گے سو وہ راہ ٹھکانا ہے (آگے ایمان والوں کو خطاب ہے جس سے منافقین کے ساتھ مشابہت کرنے سے ان کو بھی ممانعت کی گئی ہے اور منافقین کو بھی سنانا منظور ہے کہ تم تو مدعی ایمان کے ہو تو مقتضائے ایمان پر عمل کرو پس ارشاد ہے کہ) اے ایمان والوں جب تم ( کسی ضرورت سے) سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں مت کرو (تفسیر ان الفاظ کی ابھی گزری ہے) اور نفع رسانی اور پرہیزگاری کی باتوں کی سرگوشیاں کرو (برعدو ان کا مقال ہے، اس سے مراد وہ نفع ہے جو دوسروں تک پہنچے اور تقویٰ ، اثم اور معصیت الرسول یعنی رسول کی نافرمانی کا مقابل ہے) اور اللہ سے ڈرو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے، ایسی سرگوشی محض شیطان کی طرف سے (یعنی اس کے بہکانے سے) ہے تاکہ مسلمانوں کو رنج میں ڈالے (جیسا واقعہ اول میں بیان ہوا) اور (آگے ان مسلمانوں کی تسلی ہے کہ رنجیدہ نہ ہوا کریں، کیونکہ) وہ (شیطان) بدون خدا کے ارادہ کے ان (مسلمانوں) کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتا (مطلب یہ کہ اگر بالفرض وہ شیطان کے بہکانے سے تمہارے خلاف ہی کوئی تدبیر کر رہے ہیں تب بھی وہ ضرر بغیر مشیت ازلیہ کے تم کو نہیں پہنچ سکتا پھر کیوں فکر میں پڑتے ہو) اور مسلمانوں کو ( ہر امر میں) اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے (آگے واقعہ پنجم کے متعلق حکم ہے، یعنی مجلس میں کچھ لوگ بعد میں آجائیں تو ان کے لئے جگہ کھولنے کا حکم ہے کہ) اے ایمان والو جب تم سے کہا جاوے (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں یا اولی الامر یا واجب الاطاعت لوگوں میں سے کوئی کہے) کہ مجلس میں جگہ کھول دو (جس میں آنے والے کو بھی جگہ مل جاوے) تو تم جگہ کھول دیا کرو (اور آنے والے کو جگہ دے دیاکرو) اللہ تعالیٰ تم کو (جنت میں) کھلی جگہ دے گا اور جب ( کسی ضرورت سے) یہ کہا جاوے کہ (مجلس سے) اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو (خواہ اٹھنے کے لئے اس غرض سے کہا جاوے کہ آنے والے کے لئے جگہ کھل جاوے اور خواہ اس وجہ سے کہا جاوے کہ صدر مجلس کو اس وقت کسی مصلحت، مشورہ خاص یا کسی ضرورت آرام یا عبادت وغیرہ سے تنہائی کی ضرورت ہو جو بغیر تنہائی کے مطلقاً حاصل نہ ہو سکیں یا کامل نہ ہو سکیں، بس صدر مجلس کے کھڑے ہونے کے حکم سے اٹھ جانا چاہئے اور یہ حکم غیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی عام ہے، کذا فی الروح، پس صاحب مجلس کو ضرورت کے وقت اس کی اجازت ہے کہ کسی شخص کو اٹھ جانے کے لئے کہہ دے، البتہ آنے والے کو نہ چاہئے کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھ جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے (رواہ الشیخان) غرض حکم یہ دیا گیا کہ صدر مجلس کے کہنے سے اٹھ جایا کرو) اللہ تعالیٰ ( اس حکم کی اطاعت سے) تم میں ایمان والوں کے اور ( ایمان والوں میں) ان لوگوں کے (اور زیادہ) جن کو علم ( دین) عطا ہوا ہے (اخروی) درجے بلند کر دے گا (یعنی اس حکم کو بجا لانے والوں کی تین قسمیں ہیں، ایک کفار جو کسی مصلحت دنیویہ سے مان لیں جیسے منافقین وہ تو لفظ منکم کی بنا پر اس وعدہ سے خارج ہیں دوسرے اہل ایمان جو صحاب علم نہ ہوں ان کے لئے محض رفع درجات ہے، تیسرے وہ اہل ایمان جو اہل علم بھی ہوں، چونکہ بوجہ علم و معرفت ان کے عمل کا منشاء زیادہ خشیت و زیادہ خلوص ہے، جس سے عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے ان کے لئے مزید رفع درجات ہیں) اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے ( کہ کس کا عمل ایمان کے ساتھ ہے اور کس کا بغیر ایمان کے، پھر اس میں کس کے عمل میں کم خلوص ہے اور کس کے عمل میں زیادہ خلوص ہے، اس لئے ہر ایک کی جزاء وثمرہ میں تفاوت رکھا، آگے واقعہ ششم کے متعلق حکم ہے جو واقعہ اول و دوم سے مربوط ہے یعنی) اے ایمان والو جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی (کرنے کا ارادہ) کیا کرو تو اپنی اس سرگوشی سے پہلے کچھ خیرات (مساکین کو) دے دیا کرو ( جس کی مقدار آیت میں منصوص نہیں اور روایات حدیث میں مختلف مقداریں آئی ہیں، ظاہراً مقدار غیر معین معلوم ہوتی ہے لیکن معتدبہ ہونا ضروری ہے) یہ تمہارے لئے (ثواب حاصل کرنے کے واسطے) بہتر ہے اور (گناہوں سے) پاک ہونے کا اچھا ذریعہ ہے (کیونکہ اطاعت سے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، یہ مصلحت مالدار مومنین کے اعتبار سے ہے اور فقراء مومنین کے اعتبار سے یہ ہے کہ ان کو نفع مالی پہنچے گا، جیسے لفظ صدقہ سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ صدقہ کے مصارف فقراء ہی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتبار سے یہ ہے کہ اس میں آپ کی شان کی بلندی ہے اور منافقین کی سرگوشی سے آپ کو جو تکلیف ہوتی تھی اس سے نجات اور آرام ہے کیونکہ ان کی ضرورت تو تناجی یعنی سرگوشی کی تھی نہیں اور بےضرورت محض اس لئے مال خرچ کرنا ان کو از حد شاق تھا اور غالباً اس صدقہ میں حکم یہ ہوگا کہ سب کے سامنے صدقہ کریں تاکہ نہ کرنے والا دھوکہ نہ دے سکے، آگے فرماتے ہیں کہ یہ حکم تو مقدور کی حالت میں ہے) پھر اگر تم کو (صدقہ دینے کا) مقدور نہ ہو (اور ضرورت پڑے سرگوشی کی) تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے ( اس صورت میں اس نے تم کو معاف کردیا ہے، اس سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صدقہ کا واجب تھا، مگر ناداری کی صورت مستثنیٰ تھی، آگے واقعہ ہفتم کے متعلق جو کہ واقعہ ششم سے مربوط ہے ارشاد ہے کہ) کیا تم (یعنی تم میں سے بعض جن کا بیان واقعہ ہفتم کے ذیل ہوا ہے) اپنی سرگوشی کے قبل خیرات دینے سے ڈر گئے سو ( خیر) جب تم ( اس کو) نہ کرسکے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال پر عنایت فرمائی ( کہ بالکل اس کو منسوخ کر کے معاف فرما دیا جس کی حکمت ظاہر ہے کہ جس مصلحت کے واسطے یہ حکم واجب ہوا تھا وہ مصلحت حاصل ہوگئی کیونکہ مصلحت سد باب تھی جو بعد نسخ بھی باقی رہی کہ لوگ احتیاط کرنے لگے، غرض ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرما دیا) تو تم (دوسری عبادت کے پابند رہو یعنی) نماز کے پابند رہو اور زکوٰة دیا کرو اور اللہ رسول کا کہنا مانا کرو (مطلب یہ ہے کہ اس کے نسخ کے بعد تمہارے قرب و قبول نجات کے لئے احکام باقیہ پر استقامت و ہمیشگی ہی کافی ہے) اور اللہ کو تمہارے سب اعمال کی ( اور ان کی حالت ظاہری و باطنی کی) پوری خبر ہے۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ اگرچہ خاص واقعات کی بنا پر نازل ہوئی ہیں جن کا ذکر اوپر شان نزول میں آ چکا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ سبب نزول کچھ بھی ہو ہدایات قرآنی عام ہوتی ہیں، ان میں عقائد و عبادات اور معاملات و معاشرے کے متعلق تمام احکام ہوتے ہیں، ان آیات میں بھی باہمی سرگوشی اور مشورے کے متعلق چند ایسی ہی ہدایات ہیں۔- خفیہ مشوروں کے متعلق ایک ہدایت :- خفیہ مشورہ عموماً مخصوص راز دار دوستوں میں ہوتا ہے، جن پر یہ اطمینان کیا جاتا ہے کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے، اس لئے ایسے موقع پر ایسے منصوبے بھی بنائے جاتے جن میں کسی پر ظلم کرنا، کسی کو قتل کرنا ہے، کسی کی املاک پر قبضہ کرلینا ہے، وغیر ذلک، حق تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا علم ساری کائنات پر حاوی ہے تم کہیں کیسا ہی چھپ کر مشورہ کرو اللہ تعالیٰ اپنے علم اور سمع و بصر کے اعتبار سے تمہارے پاس موجود ہوتا ہے اور تمہاری ہر بات کو دیکھتا سنتا اور جانتا ہے، اگر اس میں کوئی گناہ کرو گے تو سزا سے نہ بچوگے، اس میں بتلانا تو یہ ہے کہ تم کتنے ہی کم یا زیادہ آدمی مشورہ اور سرگوشی میں شریک ہو حق تعالیٰ ان میں موجود ہوتا ہے، مثال کے طور پر دو عدد بتلا دیئے گئے، تین اور پانچ، یعنی اگر تم تین آدمی مشورہ کر رہے ہو تو سمجھو کہ چوتھا اللہ تعالیٰ وہاں موجود ہے اور پانچ آدمی مشورہ کر رہے ہو تو سمجھو کہ چھٹا حق تعالیٰ موجود ہے، تین اور پانچ کے عدد کی تخصیص میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جماعت کے لئے اللہ کے نزدیک طاق عدد پسند ہی (مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ الآیہ) کا یہی حاصل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝ ٠ ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ٧- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- ثلث - الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان .- قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124]- ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل 20] تمہارا پروردگار - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ- [ المائدة 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم .- دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور مروی ہے تو یہ دون سے ہے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

محمد کیا آپ کو بذریعہ قرآن حکیم اس چیز کی اطلاع نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو کہ آسمانوں اور زمین میں مخلوقات ہیں ان کے اعمال اور کوئی سرگوشی تین آدمیوں کی ایسی نہیں ہوتی جس سے اللہ تعالیٰ واقف نہ ہو اور نہ پانچ کی سرگوشی ایسی ہوتی ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ واقف نہ ہو اور نہ اس سے کم کی اور نہ اس سے زیادہ کی مگر وہ ہر حالت میں ان سے اور ان کی سرگوشی سے واقف ہوتا ہے۔ وہ لوگ کہیں بھی ہوں پھر ان سب کو قیامت کے روز ان کے دنیاوی اعمال بتا دے گا بیشک اللہ تعالیٰ کو ان کی اور ان کی سرگوشیوں کی پوری خبر ہے یہ آیت حضرت صفوان بن امیہ اور ان کے داماد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کا واقعہ سورة حم سجدہ میں گزر گیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ جانتا ہے اس سب کچھ کے بارے میں جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ؟ “- مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ ” نہیں ہوتے کبھی بھی تین آدمی سرگوشیاں کرتے ہوئے مگر ان کا چوتھا وہ (اللہ) ہوتا ہے “- وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ ” اور نہیں (سرگوشی کر رہے) ہوتے کوئی پانچ افراد مگر ان کا چھٹا وہ (اللہ) ہوتا ہے “- خفیہ انداز میں سرگوشیاں کرنے کو ” نجویٰ “ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں پر ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ کسی تنظیم یا جماعت کے اندر نجویٰ کا رجحان یا رواج گروہ بندیوں اور فتنوں کا باعث بنتا ہے۔ کسی بھی اجتماعیت کے افراد میں باہم اختلافِ رائے کا پایا جانا تو بالکل ایک فطری تقاضا ہے ‘ جہاں اجتماعیت ہوگی وہاں لوگ ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف بھی کریں گے۔ لیکن ایسے اختلافات کا اظہار اجتماعیت کے قواعد و ضوابط کے مطابق متعلقہ فورم پر کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ تخریبی ذہنیت کے حامل کچھ ارکان اپنے اپنے اختلاف کا اظہار نجویٰ کی صورت میں دوسرے ساتھیوں سے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بات آگے بڑھتی ہے تو چند افراد پر مشتمل ایک مخصوص لابی بن جاتی ہے اور یوں تنظیم یا جماعت کے اندر باقاعدہ گروہ بندی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ اگر اختلافات کا اظہار مناسب فورم پر ہو تو کھلی اور تعمیری بحث کا نتیجہ ہمیشہ مثبت رہتا ہے۔ اس سے غلط فہمیاں ختم ہوجاتی ہیں ‘ ابہام دور ہوجاتا ہے اور اصل حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ بہرحال نجویٰ (سرگوشیوں) کی حیثیت اجتماعیت کے لیے سم ِقاتل کی سی ہے اور اگر یہ زہر کسی جماعت کی صفوں میں سرایت کر جائے تو اس کا اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ - وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ” اور نہیں ہوتے وہ اس سے کم (یعنی دو افراد سرگوشی میں مصروف) اور نہ اس سے زیادہ مگر یہ کہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔ “- سورة الحدید کی آیت ٤ میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْج ” اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ “- ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ ” پھر وہ ان کو جتلا دے گا قیامت کے دن جو کچھ بھی انہوں نے عمل کیا تھا ‘ یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :18 یہاں سے آیت 19 تک مسلسل منافقین کے اس طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت مسلم معاشرے میں اختیار کر رکھا تھا ۔ وہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے ، مگر اندر ہی اندر انہوں نے اہل ایمان سے الگ اپنا ایک جتھا بنا رکھا تھا ۔ مسلمان جب بھی انہیں دیکھتے ، یہی دیکھتے کہ وہ آپس میں سر جوڑے کھسر پسر کر رہے ہیں ۔ انہیں خفیہ سرگوشیوں میں وہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور فتنے برپا کرنے اور ہراس پھیلانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے تھے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :19 سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دو اور تین کے بجائے تین اور پانچ کا ذکر کس مصلحت سے کیا گیا ہے؟ پہلے دو اور پھر چار کو کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ مفسرین نے اس کے بہت سے جوابات دیے ہیں ، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ طرز بیان دراصل قرآن مجید کی عبارت کے ادبی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے ۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عبارت یوں ہوتی : مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی اثْنَیْنِ اِلَّا ھُوَ ثاَلِثُھُمْ وَلاَ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ ۔ اس میں نَجْوَی اثْنَیْن بھی کوئی خوبصورت ترکیب نہ ہوتی اور ثالث اور ثلٰثَۃٍ کا یکے بعد دیگرے آنا بھی حلاوت سے خالی ہوتا ۔ یہی قباحت اِلاَّ ھُوَ رَابِعُھُمْ کے بعد وَلاَ اَربَعَۃٍ کہنے میں بھی تھی ۔ اس لیے تین اور پانچ سرگوشی کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فقرے میں اس خلا کو یہ کہہ کر بھر دیا گیا کہ وَلَٓا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ ۔ سرگوشی کرنے والے خواہ تین سے کم ہوں یا پانچ سے زیادہ ، بہرحال اللہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :20 یہ معیت در حقیقت اللہ جل شانہ کے علیم و خبیر ، اور سمیع و بصیر اور قادر مطلق ہونے کے لحاظ سے ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس معنی میں کہ اللہ کوئی شخص ہے جو پانچ اشخاص کے درمیان ایک چھٹے شخص کی حیثیت سے کسی جگہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے ۔ دراصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد وہاں کے یہودیوں سے امن وامان کے ساتھ رہنے کا معاہدہ فرمایا تھا۔ دوسری طرف یہودیوں کو مسلمانوں سے جو دلی بغض تھا، اُس کی بنا پر وہ مختلف ایسی شرارتیں کرتے رہتے تھے جو مسلمانوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوں ؛ چنانچہ ایک شرارت یہ تھی کہ بعض اوقات جب وہ مسلمانوں کو دیکھتے تو آپس میں اس طرح کانا پھوسی اور ایسے اشارے شروع کردیتے تھے جیسے وہ ان کے خلاف کوئی سازش کررہے ہوں۔ بعض منافقین بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اس طرز عمل سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی، اس لئے اُنہیں اس طرح کی سرگوشیاں کرنے سے منع کردیا گیا تھا، اس کے باوجود وہ اس سے باز نہیں آئے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔