Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے ، جیسے اور جگہ فرمان ہے ( وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا 44؀ ) 17- الإسراء:44 ) یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور ثناء خوانی کرتی ہے ، وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے ۔ جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ، اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں ، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیں یہاں سے نکال دیا ، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا ، خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا ، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے ، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ اٹھالیں ، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں ، اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آ پڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہوگئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑا ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیں حضور علیہ السلام کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کر دیں گے اور تمہاری عورتوں لڑکیوں کو لونڈیاں بنا لیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو ، عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کر لی ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقعہ دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آ گئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بد عہدی پر کمر باندھ لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں ، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔ اس بد عہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کر لیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن و امان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے ، چنانچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی ، دوسری صبح کو آپ بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو انہوں نے منظور کر لیا اور معاہدہ ہو گیا ، آپ وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی ، آخر یہ ہارے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کر دو جو اسباب لے جانا چاہو اور اونٹوں پر لاد کر لے جاؤ چنانچہ انہوں نے گھر بار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہوگئے ، ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ کو ہی دلوا دیئے ، جیسے آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ ) 59- الحشر:6 ) میں ہے ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کر دیا ۔ تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا ۔ غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب یہ ہے کہ مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام کو بیئر معونہ میں شہید کر دیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچ کر بھاگ نکلے مدینہ شریف کی طرف آئے آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کر دیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا تھا اور آپ نے انہیں امن و امان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر حضرت عمر و کو نہ تھی ، جب یہ مدینے پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا ، بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کر لیا جائے ۔ قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ یہاں پہنچے تو انہوں نے کہاں ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں ادھر آپ سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا ۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو ، چنانچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دب جائیں ، عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے اتنے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ آپ فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے ۔ آپ کے ساتھ اس وقت چند صحابہ تھے مثلاً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ وغیرہ آپ یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے ، ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چنانچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا واقعہ ہے؟ آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے ۔ یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کر دیئے اور پناہ گزین ہوگئے آپ نے محاصرہ کر لیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں ، اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا ؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم ، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی ۔ کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک ، ابن ابو قوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے ، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی ، ادھر ان کے دل مرعوب ہوگئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کر لے جاسکیں وہ ہمیں دے دیا جائے آپ نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازں تک کو اکھیڑ کر لے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہوگئے ، ان کے باقی کے اہل خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چنانچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کر دیا ، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لئے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے ، بنو نضیر میں سے صرف دو شخص مسلمان ہوئے جن کے مال انہی کے پاس رہے ایک تو یامین بن عمیر جو عمرو بن حجاش کے چچا کے لڑکے کا لڑکا تھا یہ عمرو وہ ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا ، دوسرے ابو سعد بن وہب ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یامین سے فرمایا کہ اے یامین تیرے اس چچا زاد بھائی نے دیکھ تو میرے ساتھ کس قدر برا برتاؤ برتا اور مجھے نقصان پہنچانے کی کس بےباکی سے کوشش کی؟ حضرت یامین نے ایک شخص کو کچھ دینا کر کے عمرو کو قتل کرا دیا ، سورہ حشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارہ میں اتری ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے ، ان یہودیوں سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں؟ آپ نے فرمایا محشر کی زمین کی طرف ، حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں ( ابن جریر ) بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا ، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی یہودیوں کی زیادتی یکجہتی منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کر دیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں ، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آ گیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی ، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بےخبر ان پر عذاب الٰہی آ جاتا ہے ، ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لئے توڑنے پھوڑنے شروع کر دیئے مقاتل فرماتے ہیں مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لئے انہیں ڈھاتے گئے ، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے ، پھر فرماتا ہے ، اے آنکھوں والو عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں ۔ اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا ، یہ قتل ہوتے اور قید کر لئے جاتے وغیرہ وغیرہ ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لئے تیار ہیں ۔ بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی ، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی ، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی بقول حضرت عروہ بن زبیر شروع سورت سے فاسقین تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں ۔ جلاء کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی ، اس فیصلہ کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے آئیں ، اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لئے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے ۔ ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لئے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی ، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں ، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے ۔ لینہ کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ لینہ میں داخل نہیں اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے ، یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں؟ یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لئے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ ، یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے؟ جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے ، اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں اور اعداء دین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے ، صحابہ نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی ، بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے ۔ بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں ، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہاں جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے ، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا ۔ ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے ، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یہ سورت یہود کے ایک قبیلے بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی، اس لئے اسے سورة النضیر بھی کہتے ہیں۔ صحیح بخاری۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج ۔۔۔۔۔۔: اس آیت کی تفسیر سورة ٔ حدید کی پہلی آیت اور سورة ٔ بنی اسرائیل کی آیت (٤٤) میں گزر چکی ہے ، یہاں صرف چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس مقام سے متعلق ہیں :(١) سورة ٔ حدید میں ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ والارض “ ہے ، جب کہ یہاں ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ “ ہے ۔ ابن عاشور (رح) تعالیٰ نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ سورة ٔ حدید کی ابتداء میں زمین و آسمان کی ہر چیز کے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے کو بطور دلیل بیان کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی توحید اور ان صفات کے ثبوت کے لیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے ۔ چونکہ وہ سب کچھ جو زمین و آسمان میں پایا جاتا ہے مجموعی طور پر اس کی دلیل ہے ، اس لیے ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ میں اسے اکٹھا کردیا ہے۔ جب کہ سورة ٔ حشر کی ابتداء میں اللہ کی تسبیح کا ذکر مسلمانوں پر اس احسان کی یاد دلانے کے لیے ہے جو زمین پر پیش آنے والے ایک واقعہ کی صورت میں ہوا اور وہ ہے بنو نضیر کی جلا وطنی اور مسلمانوں کا ان کی راضی اور اموال کا مالک بن جانا ۔ اس لیے اس میں زمین والوں کو خاص طور پر الگ ذکر کرنے کے لیے ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ “ فرمایا۔ یہی معاملہ سورة ٔ صف ، سورة ٔ جمعہ اور سورة ٔ تغابن کا ہے ، ان سب میں ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ کے بجائے ” مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ “ کہ اگیا ہے ، کیونکہ ان کے بعد مذکور چیزوں کا تعلق خاص طور پر زمین والوں کے ساتھ ہے۔- ٢۔ بنو نضیر کے واقعہ کے ذکر سے پہلے ” سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ “ لانے کا مقصد یہ ہے کہ اس جیسے طاقتور قبیلے کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ، جو ہر عیب اور عجز سے پاک ہے ، یہ کام جو مسلمانوں کی تعداد اور قوت کے لحاظ سے ممکن ہی نہ تھا ، اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل معمولی ہے ، کیونکہ وہ سبحان ہے ، اللہ تعالیٰ کی صفات ” العزیز الحکیم “ لانے میں بھی حکم ہے کہ جب وہ کسی کو غالب کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور اس واقعہ میں بھی اس کی بیشمار حکمتیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں مسلمانوں کے لیے سبق بھی ہے کہ جب آسمانوں کی ہر چیز اور زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے تو تمہیں بھی اس کی بیشمار نعمتوں پر ، جن میں بنو نضیر کی جلا وطنی کی نعمت بھی ہے اس کی تسبیح کرنی چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط سورت اور شان نزول :- پچھلی سورت میں یہود کی دوستی جو منافقین نے اختیار کر رکھی تھی اس کی مذمت کا بیان تھا، اس سورت میں یہود پر دنیا میں جلا وطنی کی سزا اور آخرت کا عذاب مذکور ہے اور قصہ ان یہود کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ طیبیہ میں تشریف لائے تو یہود سے معاہدہ صلح کا ہوچکا تھا اور ان یہودیوں کے مختلف قبائل میں ایک قبیلہ بنو نضیر کا تھا وہ بھی معاہدہ صلح میں داخل تھا اور یہ لوگ مدینہ طیبہ سے دو میل پر رہتے تھے، ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ عمرو بن امیہ ضمری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے جس کا خون بہا سب کو مل کر ادا کرنا تھا، آپ نے اپنے مسلمانوں سے اس کے لئے چندہ حاصل کیا، پھر یہ ارادہ ہوا کہ یہود بھی ازروئے صلح نامے مسلمانوں کے ساتھ ہیں خون بہا کی رقم میں ان کو بھی شریک کیا جائے، اس کام کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلہ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے یہ سازش کی کہ آپ کو قتل کردینے کا موقع ہمارے ہاتھ آ گیا، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جگہ بٹھلا دیا اور کہا کہ ہم خون بہا کی رقم جمع کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور خفیہ مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جس دیوار کے نیچے آپ تشریف فرما ہیں کوئی شخص اوپر چڑھ کر کوئی بڑا بھاری پتھر آپ کے اوپر چھوڑ دے کہ آپ کا کام تمام ہوجائے، آپ کو فوراً بذریعہ وحی ان کی یہ سازش معلوم ہوگئی، آپ وہاں سے اٹھ کر واپس تشریف لائے اور ان سے کہلا بھیجا کہ تم نے عہد شکنی کر کے صلح توڑ دی اس لئے اب تمہیں دس روز کی مہلت دی جاتی ہے اس میں تم جہاں چاہو چلے جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص یہاں نظر آوے گا اس کی گردن مار دی جاوے گی، انہوں نے چلے جانے کا ارادہ کیا تو عبداللہ بن ابی منافق نے ان کو روکا کہ کہیں نہ جاؤ، میرے پاس دو ہزار آدمیوں کی جمعیت ہے جو اپنی جان دیدیں گے، تم پر آنچ نہ آنے دیں گے اور روح المعانی میں ابن اسحاق کی روایت سے اس میں عبداللہ کے ساتھ ودیعہ مالک اور سوید اور راعس کا شریک ہونا بھی لکھا ہے، یہ لوگ ان کے کہنے میں آگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلا بھیجا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کرلیجئے، آپ صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلہ پر حملہ آور ہوئے اور یہ لوگ قلعہ بند ہوگئے اور منافقین منہ چھپا کر بیٹھ گئے، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے درخت جلوا دیئے، کچھ کٹوا دیئے، آخر تنگ آ کر انہوں نے جلا وطن ہونا منظور کرلیا، آپ نے اس حال میں بھی ان کے ساتھ یہ رعایت کی کہ حکم دے دیا کہ جتنا سامان تم ساتھ لے جاسکتے ہو لے جاؤ، بجز ہتھیار کے وہ ضبط کر لئے جاویں گے، یہ لوگ نکل کر کچھ شام میں چلے گئے، کچھ خیبر میں اور حرص دنیا کی وجہ سے اپنے گھروں کی کڑیاں، تختے، کواڑ تک اکھاڑ کرلے گئے اور یہ قصہ غزوہ احد کے بعد ربیع الاول سن 4 ھ میں پیش آیا، پھر حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو دوسرے یہود کے ساتھ ملک شام کی طرف نکال دیا، یہ دونوں جلا وطنی حشر اول اور حشرثانی کہلاتی ہیں، کذافی زادلمعاد۔- خلاصہ تفسیر - اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے (چنانچہ اس کی علو شان اور قدرت اور حکمت کا ایک اثر یہ ہے کہ) وہی ہے جس نے (ان) کفار اہل کتاب (یعنی بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی ہی بار اکٹھا کر کے نکال دیا (یعنی بقول زہری اس کے قبل ان پر یہ مصیبت واقع نہ ہوئی تھی، یہ مصیبت ان پر پہلی بار ہی آئی ہے جو ان کی حرکات شنیعہ کا ثمرہ ہے اور اس میں ایک لطیف اشارہ ہے ایک پیشین گوئی کی طرف کہ ان کے لئے پھر بھی ایسا اتفاق ہوگا، چناچہ دوبارہ حضرت عمر نے تمام یہود کو جزیرہ عرب سے نکال دیا، کذافی الخازن اور اشارہ کو لطیف اس لئے کہا گیا کہ لفظ اول ہمیشہ مقتضی نہیں ہوگا کہ اس کا کوئی ثانی بھی ہو، چناچہ بولتے ہیں فلاں عورت کے پہلی ہی بار بچہ پیدا ہوا ہے، ان کا گھروں سے نکال دینا مسلمان کی طاقت اور غلبہ کا اثر تھا، آگے اس کی تقریر ہے کہ اے مسلمانوں ان کا سامان و شوکت دیکھ کر) تمہارا گمان بھی نہ تھا کہ وہ (کبھی اپنے گھروں سے) نکلیں گے اور (خود) انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (کے انتقام) سے بچالیں گے (یعنی اپنے قلعوں کے استحکام پر ایسے مطمئن تھے کہ ان کے دل میں انتقام غیبی کا خطرہ بھی نہ آتا تھا، پس ان کی حالت مشابہ اس شخص کے تھی جس کا یہ گمان ہو کہ ان کے قلعے اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے اور اگر خاص قبیلہ بنو نضیر کے قلعے متعدد نہ ہوں تو حصو نہم جمع کی ضمیر مطلق یہود کی طرف ہوگی اور انہم کی ضمیر بھی اور صرفضمیر بنی نضیر کی طرف ہوجاوے گی، یعنی بنی نضیر کا یہ خیال تھا کہ سب یہود کو ان کے قلعے حوادث سے بچا لیں گے، ان سب یہود میں یہ بھی آگئے کہ اپنے قلعہ کو اپنا محافظ سمجھتے تھے) سو ان پر خدا (کا عقاب) ایسی جگہ سے پہنچا کہ ان کو خیال (اور گمان) بھی نہ تھا، (مراد اس جگہ سے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں نکالے گئے جن کی بےسرو سامانی پر نظر کر کے اس کا احتمال بھی نہ تھا کہ یہ بےسامان ان باسامانوں پر غالب آجائیں گے) اور ان کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا) رعب ڈال دیا کہ (اس رعب کی وجہ سے نکلنے کا قصر کیا اور اس وقت یہ حالت تھی کہ) اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی اجاڑ رہے تھے (یعنی خود بھی کڑی تختہ لے جانے کے واسطے اپنے مکانوں کو منہدم کرتے تھے اور مسلمان بھی ان کے قلب کو صدمہ پہنچانے کے واسطے منہدم کرتے تھے اور مسلمانوں کے منہدم کرنے کو بھی ان کی طرف منسوب اس لئے کیا کہ سبب اس انہدام کا وہ ہی لوگ تھے کیونکہ انہوں نے عہد شکنی کی اور وہ فعل یہود کا ہے پس اسناد سبب کی طرف ہوگئی اور مسلمانوں کا ہاتھ بمنزلہ آلہ کے ہوگیا) سو اے دانش مندو ( اس حالت کو دیکھ کر) عبرت حاصل کرو (کہ انجام خدا اور رسول کی مخالفت کا بعض اوقات دنیا میں بھی نہایت برا ہوتا ہے) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کی قسمت میں جلا وطن ہونا نہ لکھ چکتا تو ان کو دنیا ہی میں (قتل کی) سزا دیتا (جس طرح ان کے بعد بنی قریظہ کے ساتھ معاملہ کیا گیا) اور (گو دنیا میں عذاب قتل سے بچ گئے لیکن) ان کے لئے آخرت میں دوزخ کا عذاب (تیار) ہے (اور) یہ (سزائے جلاوطنی دنیا میں اور سزا نار آخرت میں) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ کی مخالفت کرتا ہے ( اور وہی مخالفت رسول کی بھی ہے) تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے (یہ مخالفت دو طرح کی ہوئی، ایک نقض عہد سے جس سے کہ سزا جلاوطنی ہوئی اور دوسرے عدم ایمان سے جو سبب عذاب آخرت کا ہے، آگے یہود کے ایک طعن کا جواب ہے جو درختوں کے کاٹنے اور جلانے کے باب میں کیا تھا کہ ایسا کرنا تو فساد ہے اور فساد مذموم ہے، کذا فی الدرو نیز بعض مسلمانوں نے باوجود اجازت کے یہ سمجھ کر کہ ترک جائز جائز ہے اور آخر میں یہ درخت مسلمانوں ہی کے ہوجائیں گے تو ان کا رہنا ہی بہتر ہے، نہیں کاٹے اور بعض نے یہ سمجھ کر کہ یہود کا دل دکھے گا کاٹ دیئے، کذافی الدر، جواب کے ساتھ ان دونوں فعل کی بھی تصویب ہے پس ارشاد ہے کہ) جو کجھوروں کے درخت تم نے کاٹ ڈالے (اسی طرح جو جلا دیئے) یا ان کو ان کی جڑوں پر (بحالہا) کھڑا رہنے دیا سو (دونوں باتیں) خدا ہی کے حکم (اور رضا) کے موافق ہیں اور تاکہ کافروں کو ذلیل کرے (یعنی دونوں فعل میں مصلحت ہے، چناچہ ترک میں بھی مسلمانوں کی ایک کامیابی اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ یہ مسلمان اس کو برتیں گے اور قطع کرنے اور جلا دینے میں بھی مسلمانوں کی دوسری کامیابی یعنی ظہور آثار غلبہ اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ مسلمان ہماری چیزوں میں کیسے تصرفات کر رہے ہیں، پس دونوں امر جائز ہیں اور حکمت پر مبنی ہونے کے سبب ان میں کوئی قباحت نہیں۔- معارف و مسائل - سورة حشر کی خصوصیات اور قبیلہ بنو نضیر کی تاریخ :- سورة حشر پوری یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی ہے ( قالہ ابن اسحق) اور حضرت ابن عباس اس سورت کا نام ہی سورة بنی نضیر کہا کرتے تھے (ابن کثیر) بنو نضیر یہود کا ایک قبیلہ ہے جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں ہے، ان کے آباؤ اجداد تورات کے عالم تھے، جس میں حضرت خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کی خیر اور آپ کا حلیہ اور علامات مذکور تھے اور یہ کہ ان کی ہجرت یثرب (مدینہ) کی طرف ہوگی، یہ خاندان اس طمع میں کہ خاتم الانبیاء کے ساتھ رہیں شام سے مدینہ طیبہ منتقل ہوا تھا، اس کے موجودہ لوگوں میں بھی کچھ تورات کے عالم تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد علامات دیکھ کر پہچان بھی لیا تھا کہ یہ وہی خاتم الانبیاء ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ آخری نبی ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں ان کے خاندان میں ہوں گے اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں معبوث ہوئے تو اس حسد نے ان لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیا، مگر دل میں ان کے اکثر لوگ آپ کے آخر الانبیاء ہونے کو جانتے پہچانتے تھے اور غزوہ بدر میں مسلمانوں کی حیرت انگیز فتح اور مشرکین کی شکست دیکھ کر ان کا یہ یقین کچھ اور بڑھا بھی تھا اس کا اقرار ان کی زبانوں سے سنا بھی گیا، مگر اس ظاہری فتح و شکست کو حق و باطل کے پہچاننے کا معیار بنا لینا ہی ایک بودی اور کمزور بنیاد تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ غزوہ احد میں جب ابتداً مسلمانوں کو شکست ہوئی، کچھ حضرات صحابہ شہید ہوئے تو ان کا یقین متزلزل ہوگیا اور اس کے بعد سے انہوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔- اس سے پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ پہنچ کر حکیمانہ سیاست کے مقتضیٰ پر سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ مدینہ طیبہ میں اور شہر کے آس پاس کچھ یہود کے قبائل آباد تھے، ان سے معاہدہ صلح اس پر کرلیا تھا کہ یہ لوگ نہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی جنگ کرنے والے کی امداد کریں گے، اگر ان پر کوئی حملہ آور ہوا تو مسلمان ان کی امداد کریں گے، صلح نامہ میں اور بھی بہت سی دفعات تھیں جن کی تفصیل سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مذکور ہے، اسی طرح یہود کے تمام قبائل کی جن میں بنو نضیر بھی داخل تھے، مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلہ پر ان کی بستی اور مضبوط قلعے اور باغات تھے۔- غزوہ احد تک تو یہ لوگ بظاہر اس صلح نامہ کے پابند نظر آئے، مگر احد کے بعد انہوں نے غداری کی اور خفیہ خیانت شروع کردی، اس غدر و خیانت کی ابتداء اس سے ہوئی کہ بنو نضیر کا ایک سردار کعب بن اشرف غزوہ احد کے بعد اپنے یہودیوں کے چالیس آدمیوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچا اور یہاں کے کفار قریش جو غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کی نیت سے غزوہ احد پر گئے تھے اور اس میں بالآخر شکست کھا کر واپس ہوچکے تھے ان سے ملاقات کی اور ان دونوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا ایک معاہدہ ہونا قرار پایا، جس کی تکمیل اس طرح کی گئی کہ کعب بن اشرف اپنے چالیس یہودیوں کے ساتھ اور ان کے بالمقابل ابوسفیان اپنے چالیس قریشیوں کے ساتھ حرم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر یہ معاہدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے۔- کعب بن اشرف اس معاہدہ کے بعد مدینہ طیبہ واپس آیا تو جبرئیل امین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سارا واقعہ اور معاہدہ کی تفصیل بتلا دی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری فرما دیا، چناچہ محمد بن مسلمہ صحابی نے اس کو قتل کردیا۔- اس کے بعد بنو نضیر کی مختلف خیانتیں اور سازشیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوتی رہیں، جن میں ایک وہ واقعہ ہے جو اوپر شان نزول کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کی اور اگر فوری طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی اس سازش پر مطلع نہ ہوتے تو یہ لوگ اپنی سازش قتل میں کامیاب ہوجاتے، کیونکہ جس مکان کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے بٹھایا تھا اس کی چھت پر چڑھ کر ایک بڑا بھاری پتھر آپ کے سر مبارک پر چھوڑ دینے کا منصوبہ تقریباً مکمل ہوچکا تھا، جو شخص اس منصوبہ کو عملی صورت دینے والا تھا اس کا نام عمر بن حجاش تھا، حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور یہ منصوبہ فیل ہوگیا۔- ایک عبرت :- یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ بعد کے واقعہ میں سارے ہی بنو نضیر جلا وطن ہو کر مدینہ سے نکل گئے، مگر ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر محفوظ و مامون رہے، ان دو میں ایک یہی عمر بن جحاش تھے دوسرے ان کے چچا یامین بن عمرو بن کعب تھے (ابن کثیر)- عمرو بن امیہ ضمری کا واقعہ :- شان نزول کے واقعہ میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ عمر و بن امیہ ضمیری کے ہاتھ سے دو قتل ہوگئے تھے ان کا خون بہا جمع کرنے کی کوشش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے اسی خون بہا کے سلسلے میں بنو نضیر کا چندہ حاصل کرنے کے لئے آپ ان کی بستی میں تشریف لے گئے تھے، اس کا واقعہ ابن کثیر نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی سازشیں اور مظالم کی داستان تو بہت طویل ہے ان میں سے ایک واقعہ بیر معونہ کا تاریخ اسلام میں معروف و مشہور ہے کہ بعض منافقین و کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی بستی میں تبلیغ اسلام کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت بھیجنے کی درخواست کی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ستر صحابہ کرام ان کے ساتھ کئے بعد میں حقیقت یہ کھلی کہ ان لوگوں نے یہ محض سازش کی تھی، ان سب کو گھیر کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے، ان سے صرف عمرو بن امیہ ضمری کسی طرح نکل کر بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے جو بزرگ ابھی کفار کی یہ غداری اور خیانت اور اپنے انہتر بھائیوں کا بیدردی سے قتل دیکھ کر آ رہے تھے ان کا جذبہ کفار کے مقابلہ میں کیا ہوگا ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے، اتفاق یہ ہوا کہ مدینہ طیبہ واپس آنے کے وقت راستہ میں ان کو دو کافروں سے سابقہ پڑا، انہوں نے دونوں کو قتل کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں آدمی قبیلہ بنی عامر کے تھے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ صلح تھا۔- مسلمانوں کے معاہدات آج کل کے سیاسی لوگوں کے معاہدات تو ہوتے نہیں کہ پہلے ہی خلاف ورزی اور عہد شکنی کی راہیں تلاش کرلی جاتی ہیں، یہاں تو جو کچھ زبان یا قلم سے نکلتا تھا دین و مذہب اور خدا تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی پابندی لازمی تھی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس غلطی کا علم ہوا تو آپ نے اصول شرعیہ کے مطابق ان دونوں مقتولوں کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے مسلمانوں سے چندہ جمع کیا، اس میں بنو نضیر کے پاس بھی چندہ کے سلسلے میں جانا ہوا (ابن کثیر)- بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کے وقت اسلام اور مسلمانوں کی رواداری موجودہ اہل سیاست کے لئے سبق آموز معاملہ :- آج کے بڑے حکمران اور بڑی حکومتیں جو انسانی حقوق کے تحفظ پر بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں اور اس کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں اور دنیا میں تحفظ حقوق انسانیت کے چودھری کہلاتے ہیں ذرا اس واقعہ پر نظر ڈالیں کہ بنو نضیر کی مسلسل سازشیں، خیانتیں، قتل رسول کے منصوبے جو آپ کے سامنے آتے رہے اگر آج کل کے کسی حکمران اور کسی سربراہ مملکت کے سامنے آئے ہوتے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا، آج کل تو زندہ لوگوں پر پٹرول چھڑک کر میدان صاف کردینا کسی بڑے اقتدار و حکومت کا بھی محتاج نہیں، کچھ غنڈے شریر جمع ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، شاہانہ غیظ و غضب کے کرشمے کچھ اس سے آگے ہی ہوتے ہیں۔- مگر یہ حکومت خدا کی اور اس کے رسول کی ہے جب خیانتیں اور غداریاں انتہاء کو پہنچ گئیں تو اس وقت بھی ان کے قتل عام کا ارادہ نہیں فرمایا، ان کے مال و اسباب چھین لینے کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ (1) اپنا سب سامان لے کر صرف شہر خالی کردینے کا فیصلہ کیا۔ (2) اور اس کے لئے بھی دس روز کی مہلت دی کہ آسانی سے اپنا سامان ساتھ لے کر اطمینان سے کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجائیں جب اس کی بھی خلاف ورزی کی تو قومی اقدام کی ضرورت پیش آئی۔ (3) اس لئے کچھ درخت تو جلائے گئے، کچھ کاٹے گئے کہ ان پر اثر پڑے، مگر قلعہ کو آگ لگا دینے کا یا ان کے قتل عام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا گیا۔- (4) پھر جب مجبور ہو کر ان لوگوں نے شہر خالی کردینا منظور کرلیا تو اس فوجی اقدام کے باوجود ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ ایک اونٹ پر جس قدر سامان ایک آدمی لے جاسکتا ہے لے جائے، اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے مکانوں کی کڑیاں، تختے، دروازے، کواڑ تک اتار کر لاد لئے۔- (5) اس سازو سامان کے ساتھ منتقل ہونے والوں کو کسی مسلمان نے ترچھی نظر سے نہیں دیکھا، امن و عافیت اور پورے اطمینان کے ساتھ سامان لے کر رخصت ہوئے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ معاملات اس وقت کے ہیں جبکہ آپ کو اپنے دشمن سے انتقام پورا پورا لے لینے کی مکمل قدرت و طاقت حاصل تھی، ان غدار، خائن، سازشی دشمنوں کے ساتھ اس وقت آپ کا یہ معاملہ اسی کی نظیر ہے جو فتح مکہ کے بعد اپنے قدیمی دشمنوں کے ساتھ آپ نے فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ١- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔- ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جتنی بھی آسمانوں اور زمین میں مخلوقات ہیں وہ سب اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اور اس کا ذکر کرتی ہیں۔ اور وہ اپنی بادشاہت اور سلطنت میں زبردست اور اپنے فیصلہ میں حکمت والا ہے کیا ہی خوب حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی پرستش نہ کی جائے۔- شان نزول : سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ (الخ)- امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سورة انفال غزوہ بدر کے بارے میں اور سورة حشر بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ واقعہ بنی نضیر غزوہ بدر کے چھ ماہ بعد ہوا ہے اور یہ یہودیوں کی ایک جماعت تھی ان کے مکانات اور نخلستان مدینہ منورہ کے ایک کونے پر تھے رسول اکرم نے ان کا محاصرہ کیا تو یہ جلا وطنی پر راضی ہو کر قلعوں سے اتر گئے اور یہ کہ ان کو ہتھیاروں کے علاوہ جتنا سامان اور مال اونٹ اٹھا سکے اتنا لے جانے کی اجازت دی ان ہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج ” تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمان میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے۔ “- المُسَبِّحات کے سلسلے کی پہلی سورة یعنی سورة الحدید کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے : سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج ۔ یہاں ” مَا فِی “ کا اضافہ ہے ‘ جس سے گویا مفہوم میں مزید زور ( ) پیدا ہوگیا ہے۔ باقی ساری آیت کے الفاظ وہی ہیں۔- وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ ” اور وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔ “- اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘ لیکن وہ اپنے اختیارات کا استعمال بہت حکمت سے کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :1 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ الحدید ، حاشیہ ۔ 1 ، و 2 ، بنی نضیر کے اخراج پر تبصرہ شروع کرنے سے پہلے یہ تمہیدی فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود ذہن کو یہ حقیقت سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہے کہ اس طاقتور یہودی قبیلے کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani