صرف اللہ تعالیٰ کے نام کا ذبیحہ حلال باقی سب حرام حکم بیان ہو رہا ہے کہ جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اسے کھا لیا کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا مباح نہیں ، جیسے مشرکین از خود مر گیا ہو اور مردار جانور ، بتوں اور تھالوں پر ذبح کیا ہوا جانور کھا لیا کرتے تھے ، کوئی وجہ نہیں کہ جن حلال جانوروں کو شریعت کے حکم کے مطابق ذبح کیا جائے اس کے کھانے میں حرج سمجھا جائے بالخصوص اس وقت کہ ہر حرام جانور کا بیان کھول کھول کر دیا گیا ہے فصل کی دوسری قرأت فصل ہے وہ ہرام جانور کھانے ممنوع ہیں سوائے مجبوری اور سخت بےبسی کے کہ اس وقت جو مل جائے اس کے کھا لینے کی اجازت ہے ۔ پھر کافروں کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ مردار جانور کو اور ان جانوروں کو جن پر اللہ کے سوا دوسروں کے نام لئے گئے ہوں حلال جانتے تھے ۔ یہ لوگ بلا علم صرف خواہش پرستی کر کے دوسروں کو بھی راہ حق سے ہٹا رہے ہیں ۔ ایسوں کی افتراء پردازی دروغ بافی اور زیادتی کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔
118۔ 1 یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو جن کا کھانا حلال ہے۔ اس کا مظلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستشنٰی ہے جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے کر اسے کھالو البتہ شبہ کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
[١٢٢] حلال جانور کو کھانے کی شرائط :۔ کسی حلال جانور کو کھانے کے لیے شریعت نے دو شرائط عائد کی ہیں۔ ایک یہ کہ ذبح کیا جائے اور اس کا خون نکال دیا جائے دوسرے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو یہ شرارت سمجھائی کہ مسلمانوں سے پوچھو کہ جو چیز اللہ نے ماری ہو اسے تو تم حرام قرار دیتے ہو اور جو چیز تم خود مارو اسے حلال سمجھتے ہو۔ - خ ایمان لانے کے بعد وحی کی اتباع ضروری ہے خواہ اس حکم کی سمجھ آئے یا نہ آئے :۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب تم نے بنیادی طور پر دلائل صحیحہ کی بنا پر رسول اللہ کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم کرلیا ہے تو اب فروع و جزئیات کی صحت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہر اصل اور فرع کو قبول کرنا ہمارے ہی عقلی قیاسات پر موقوف ہو تو پھر وحی اور نبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟ بالفاظ دیگر ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کی حد تک تو خود مختار ہے۔ چاہے ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جب ایمان لا چکا تو پھر اسے وحی کے تابع رہ کر چلنا ہوگا خواہ اسے شرعی احکام کی علت یا مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے تاہم علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اللہ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا کھانا انسان کی جسمانی یا روحانی صحت کے لئے مضر ہو۔ ذبح کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ خون جسے اللہ نے حرام کردیا ہے جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور جانور پاک ہوجاتا ہے۔ اگر یہ خون جسم میں رہ جائے تو جسمانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور اللہ کا نام لینے کا حکم کھانے میں برکت اور روحانی تربیت کے لیے دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔- خ ذبح پر مشرکوں کا اعتراض اور مردار کھالینا : کافروں کا دستور یہ تھا کہ وہ مرا ہوا جانور تو کھالیتے ہیں لیکن خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے نہیں کھاتے تھے۔ مرے ہوئے کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ اسے اللہ نے مارا ہے لہذا اس کا کھانا جائز ہے اور خود ذبح کرنے کو کسی جانور کا خون کرنے کے مترادف سمجھتے تھے خواہ اس پر اللہ کا نام ہی لیا جائے۔ اسی بنا پر یہود نے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا تھا حالانکہ یہود تو اصل حقیقت سے واقف تھے۔ مگر اسلام دشمنی نے ان دونوں کو ہم نوا بنادیا تھا۔ یہود کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی گمراہ کن چال سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے یعنی حلال طریقہ پر ذبح کیا جائے۔ اس کے کھانے میں تمہیں کسی قسم کا تامل نہ ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے اس پروپیگنڈہ کا کچھ اثر قبول نہ کرنا چاہیے اس لیے کہ جو اشیاء فی الواقع حرام ہیں ان کے متعلق احکام تمہیں پہلے بتلائے جا چکے ہیں۔
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۔۔ : یعنی وہ حلال جانور جسے ذبح یا شکار کرتے وقت اللہ کا نام یعنی ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ “ لیا جائے اسے کھاؤ، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو، یعنی صرف ایسا ذبیحہ کھانا ایمان کا تقاضا ہے۔
ربط آیات - اوپر وَاِن تَطِع کے الفاظ میں اہل اضلال کے اتباع سے مطلقاً منع فرمایا تھا آگے باقتضائے ایک واقعہ کے ایک خاص امر میں اتباع کرنے سے منع فرماتے ہیں، وہ خاص واقعہ مذبوح وغیر مذبوح کی حلت کا ہے، واقعہ یہ ہے کہ کفار نے مسلمانوں کو شبہ ڈالنا چاہا کہ اللہ کے مارے ہوئے جانور کو تو کھاتے نہیں ہو اور اپنے مارے ہوئے یعنی ذبیحہ کو کھاتے ہو، اخرجہ ابو داود والحکم عن ابن عباس (رض) ( بعض مسلمانوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ شبہ نقل کیا، اس پر یہ آیتیں لَمُشرِکُونَ تک نازل ہوئیں، رواہ ابو داؤد والترمذی عن ابن عباس (رض) کذا فی اللباب۔- حاصل جواب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اللہ کے احکام کا التزام کئے ہوئے ہو، اور اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کی تفصیل بتلا دی ہے، پس اس پر چلتے رہو، حلال و حرام ہونے کا اور حرام پر حلال ہونے کا شبہ مت کرو، اور مشرکین کے وساوس کی طرف التفات نہ کرو۔ - اور تحقیق اس جواب کی یہ ہے کہ اصول کے اثبات کے لئے دلائل عقلیہ درکار ہیں اور بعد ثابت ہوجانے اصول کے اعمال و فروع میں صرف دلائل نقلیہ کافی ہیں، عقلیات کی ضرورت نہیں، بلکہ بعض اوقات مضر ہے کہ اس سے شبہات کے دروازے کھلتے ہیں کیوں کہ روبرو واقناعیات و خطابیات کا تبرعاً پیش کردینا مضائقہ نہیں، لیکن جب یہ بھی نہ ہو بلکہ مجادلہ ہو تو اپنے کام میں لگنا چاہئے، اور معترض کی طرف التفات نہ کرنا چاہئے، ہاں اگر معترض کسی فرع کا عقلی قطعی دلیل کے مخالف ہونا ثابت کرنا چاہئے تو اس کا جواب بذمہ مدعی حق ہوگا، مگر مشرکین کے شبہ میں اس کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس جواب میں صرف مسلمانوں کو بقاعدہ مذکورہ بالا خطاب ہے، کہ ایسی خرافات پر نظر مت کرو، حق کے معتقد اور عامل رہو، اس بناء پر اس مقام میں مشرکین کے شبہ کا جواب صراحةً مذکور نہ ہونا محل شبہ نہیں ہوسکتا، مگر اس پر بھی اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے، جہاں کُلُوا میں ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ اور لَا تَاْكُلُوْا میں لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ مذکور ہے، اور یہ عادت سے اور دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ ذبح کے وقت ہوگا اور لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ کے تحقیق کی دو صورتیں ہوں گی، عدم ذبح جو نجس خون کو نکال کر نجات سے پاک کردیتا ہے، اور وہ نجاست ہی سبب ممانعت تھی، دوسرے اللہ کا نام لینا کہ مفید برکت ہے جو کہ حیوانات دمویہ میں شرط حلت ہے، اور کسی چیز کے وجود کے لئے مانع کا دور کرنا شرط کا وجود دونوں امر ضروری ہیں، پس اس مجموعہ سے حلّت ثابت ہوگی۔- خلاصہ تفسیر - (اور جب اوپر کفار کے اتباع کا مذموم ہونا معلوم ہوگیا) سو جس (حلال) جانور پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام (بلا شرکت) لیا جاوے اس میں سے (بےتکلّف) کھاؤ (اور اس کو مباح و حلال سمجھو) اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو (کیونکہ حلال و حرام جاننا بخلاف ایمان ہے) اور تم کو کون امر (از قبل عقیدہ) اس کا باعث ہوسکتا ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام (بلا شرکت) لیا گیا ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے (دوسری آیت میں) ان سب جانوروں کی تفصیل بتلا دی ہے، جن کو تم پر حرام کیا ہے، مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجاوے تو حلال ہیں (اور اس تفصیل میں یہ مذبوح علی اسم اللہ داخل نہیں پھر اس کے کھانے میں اعتقاداً کیوں انقباض ہو) اور ( ان لوگوں کے شبہات کی طرف اصلاً التفات نہ کرو کیونکہ) یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی (کہ ان ہی میں سے یہ بھی ہیں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی) اپنے غلط خیالات (کی بنا پر) بلا کسی سند کے گمراہ کرتے (پھرتے) ہیں (لیکن آخر کہاں تک خیر مناویں گے) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد (ایمان) سے نکل جانے والوں کو (جن میں یہ بھی ہیں) خوب جانتا ہے (پس یکبارگی سزا دے گا) اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو (مثلاً حلال و حرام اعتقاد کرنا باطنی گناہ ہے جیسا کہ اس کا عکس بھی) بلا شبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب (قیامت میں) سزا ملے گی اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر (بطریق مذکور) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو (جیسا کہ مشرکین ایسے جانوروں کو کھاتے ہیں) اور (ان لوگوں کے شبہات اس لئے قابل التفات نہیں کہ) یقینا شیاطین (جن) اپنے (ان) دوستوں (اور پیرو وں) کو (یہ شبہات) تعلیم کر رہے ہیں تاکہ یہ تم سے (بیکار) جدال کریں (یعنی اول تو یہ شبہات نص کے خلاف، دوسرے غرض محض جدال اس لئے قابل التفات نہیں) اور اگر تم (خدانخواستہ) ان لوگوں کی اطاعت (عقائد یا افعال میں) کرنے لگو تو یقینا تم مشرک ہوجاؤ (کہ خدا کی تعلیم پر دوسرے کی تعلیم کو ترجیح دو جہاں برابر سمجھنا بھی شرک ہے، یعنی ان کی اطاعت ایسی بری چیز ہے اس لئے اس کے مقدمات یعنی التفات سے بھی بچنا چاہئے) ۔- معارف و مسائل - مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ میں ذبح اختیاری اور ذبح اضطراری یعنی تیر و باز اور کتے کا شکار جب کہ اس کے چھوڑنے کے وقت بسم اللہ پڑھی جاوے، اور ذکر حقیقی و ذکر حکمی سب داخل ہے، پس امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جس پر بسم اللہ سہواً ترک کردی جائے وہ حکماً مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ میں داخل ہے، البتہ عمداً ترک کرنے سے امام صاحب کے نزدیک حرام ہوتا ہے۔
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِہٖ مُؤْمِنِيْنَ ١١٨- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔
احکام ذبیحہ - قول باری ہے ۔ فکلوا مما ذکراسم اللہ علیہ ان کنتم بایاتہ مومنین پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کا گوشت کھائو) آیت کا ظاہر تو امر کی صورت میں ہے لیکن اس کے معنی اباحت کے ہیں۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصطادوا جب تم احرام کھول دو تو پھر شکار کرو) یا ( فاذا اقضیت الصلوٰۃ فاتتشروا فی الارض جب جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے تو پھر زمین میں بکھر جائو) آیت زیر بحث میں امر کے صیغے سے اباحت اس وقت مراد ہوگی جب تلذذ اور لطف اندوزی کی خاطر گوشت خوری مقصود ہو۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اگر کوئی شخص گوشت خوری سے اللہ کی اطاعت میں مدد حاصل کرے تو اسے اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس سلسلے میں اسے اللہ کی طرف سے اجازت کی صحت پر یقین رکھنا چاہیے اس صورت میں اس کی یہ گوشت خوری اجر کا باعث بنے گی۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ ( ان کنتم بایاتہ مومنین) ایسے جانور کے گوشت کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس لیے کہ یہ فقرہ اس قسم کی گوشت خوری میں مشرکین کے خلاف چلنے کا مقتضی ہے۔- قول باری ( مما ذکر اسم اللہ علیہ) تمام اذکار کے لیے عموم ہے یعنی اس میں اللہ کے نام لینے کی تمام صورتیں آ جاتی ہیں۔ اگر غاصب غصب شدہ بکری کو ذبح کر دے یا کوئی شخص عصب شدہ چھری کے ذریعے کوئی جانور حلال کر دے تو اس قسم کے ذبیحہ کا گوشت کھا لینے کے جواب پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اس لیے کہ حکم الٰہی ہے ( فکلوا مما ذکرا اسم اللہ علیہ ) اس بناء پر بکری کے مالک کو اس کا گوشت کھا لینا جائز ہے کیونکہ اس پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہے۔
(١١٨۔ ١١٩۔ ١٢٠۔ ١٢١) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام جانوروں کی تفصیل بتلادی جن کو تم پر حرام کیا ہے جیسا کہ مردار خون اور سور کا گوشت وغیرہ مگر مردار کھانے کی بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑجائے تو یہ مشروط طور پر حلال ہے۔- اور ابوالاحوص اور اس کے ساتھی بغیر علم اور حجت کے لوگوں کو مردار کھانے کی دعوت دیتی ہیں تم ظاہری زنا اور اجنبیہ کے ساتھ خلوت کو بھی چھوڑ دو کیوں کہ زانیوں کو دنیا میں کوڑے اور آخرت میں ان کو عذاب ملے گا۔- جن جانوروں پر جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیاجائے ان کو بغیر سخت حاجت کے کھانا گناہ کا باعث ہے اور ایسے جانوروں کو حلال سمجھنا تو صریح کفر ہے۔- اور شیاطین اپنے یاروں ابوالاحوص اور اس کے ساتھیوں کو یہ شبہات تعلیم کررہے ہیں تاکہ وہاکل میتہ (مردارکھانے) اور امور شرک وغیرہ شرک وغیرہ میں بھی تم سے جھگڑا کریں، سو اگر تم نے شرک اور میتہ کو غیر اضطراری حال میں حلال سمجھ لیا تو یقیناً تم بھی مشرک ہوجاؤ گے۔- شان نزول : (آیت) ” فکلو مما ذکر سم اللہ “۔ (الخ)- امام ابوداؤد (رح) ، ترمذی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم ان جانوروں کو کھالیں جن کو کھالیں جن کو ہم خود ذبح کرتے ہیں اور ان کو نہ کھائیں جن کو اللہ تعالیٰ مار ڈالتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- شان نزول : (آیت) ” ولا تاکلوا ممالم یذکر سم اللہ علیہ “۔ (الخ)- امام طبرانی (رح) وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فارس والوں نے قریش کے پاس کہلا بھیجا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مباحثہ کرو اور کہو کہ جس جانور کو تم چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال ہے ؟ اور جس کو اللہ تعالیٰ سونے کے چاقو سے ذبح کرے یعنی مردار وہ حرام ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- شان نزول : (آیت) ” وان الشیاطین لیوحون “۔ (الخ)- ابوداؤد (رح) اور حاکم (رح) نے ابن عباس (رض) سے یہ روایت کیا ہے کہ شیاطین یہ وسوسہ پیدا کرتے تھے کہ جو اللہ تعالیٰ ذبح کردے، تم اسے نہیں کھاتے اور جو تم خود ذبح کرو اس کو کھالیتے ہو، تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١١٨ (فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ) ۔- یہاں کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کے بارے میں مشرکین عرب کے جاہلانہ نظریات اور توہمات کا رد کیا گیا ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :84 من جملہ ان غلط طریقوں کے جو اکثر اہل زمین نے بطور خود قیاس و گمان سے تجویز کر لیے اور جنھیں مذہبی حدود و قیود کی حیثیت حاصل ہو گئی ، ایک وہ پابندیاں بھی ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں میں مختلف قوموں کے درمیان پائی جاتی ہیں ۔ بعض چیزوں کو لوگوں نے آپ ہی آپ حلال قرار دے لیا ہے حالانکہ اللہ کی نظر میں وہ حرام ہیں ۔ اور بعض چیزوں کو انھوں نے خود حرام ٹھیرا لیا ہے حالانکہ اللہ نے انہیں حلال کیا ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ سب سے زیادہ جاہلانہ بات جس پر پہلے بھی بعض گروہ مصر تھے اور آج بھی دنیا کے بعض گروہ مصر ہیں ، وہ یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر جو جانور ذبح کیا جائے وہ تو ان کے نزدیک ناجائز ہے اور اللہ کے نام کے بغیر جسے ذبح کیا جائے وہ بالکل جائز ہے ۔ اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں سے فرما رہا ہے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کے احکام کو مانتے ہو تو ان تمام اوہام اور تعصبات کو چھوڑ دو جو کفار و مشرکین میں پائے جاتے ہیں ، ان سب پابندیوں کو توڑ دو جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر لوگوں نے خود عائد کر رکھی ہیں ، حرام صرف اسی چیز کو سمجھو جسے خدا نے حرام کیا ہے اور حلال اسی کو ٹھیراؤ جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ۔
52: پیچھے ان لوگوں کا ذکر تھا جو محض خیالی اندازوں پر اپنے دین کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی اس گمراہی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ جس چیز کو اﷲ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اس کو یہ حرام کہتے ہیں، اور جس چیز کو اﷲ تعالیٰ نے حرام کہا ہے اسے حلال سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ کچھ کافروں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا کہ جس جانور کو اﷲ تعالیٰ قتل کرے، یعنی وہ اپنی طبعی موت مرجائے اس کو تو تم مردار قرار دے کر حرام سمجھتے ہو، اور جس جانور کو تم خو داپنے ہاتھوں سے قتل کرتے ہو، اس کو حلال قرار دیتے ہو۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال وحرام کا فیصلہ درحقیقت اﷲ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ اس نے واضح فرمادیا ہے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لے کر اسے ذبح کیا جائے وہ حلال ہوتا ہے، اور جو ذبح کئے بغیر مرجائے یا جسے ذبح کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو، وہ حرام ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے کے بعد اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر حلال وحرام کا فیصلہ کرنا ایسے شخص کا کام نہیں جو اﷲ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہو۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کفار کے مذکورہ اعتراض کے جواب میں یہ مصلحت بھی بتائی جاسکتی تھی کہ جانور کو باقاعدہ ذبح کیا جاتا ہے اس کا خون اچھی طرح بہہ جاتا ہے، اس کے برخلاف جو جانور خو دمرجاتا ہے اس کا خون جسم ہی میں رہ جاتا ہے جس سے پورا گوشت خراب ہوجاتا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے یہ حکمت بیان فرمانے کے بجائے یہ کہنے پر اکتفا فرمایا کہ جو چیزیں حرام ہیں وہ اللہ نے خود بیان فرمادی ہیں، لہٰذا اس کے احکام کے مقابلے میں خیالی گھوڑے دوڑانا مؤمن کا کام نہیں۔ اس طرح یہ واضح فرمادیا کہ اگرچہ اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقینا مصلحتیں ہوتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اطاعت کو ان مصلحتوں کے سمجھنے پر موقوف رکھے۔ اس کا فریضہ یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا کوئی حکم آجائے تو بے چون وچرا اس کی تعمیل کرے، چاہے اس کی مصلحت اس کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو۔