Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ۔۔ : گزشتہ آیت : (قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ) میں مکان (جگہ) کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ بادشاہ ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں زمان اور وقت کے اعتبار سے اس کی بادشاہی عام ہونے کا ذکر ہے۔ کیونکہ آسمان و زمین کے سوا کوئی مکان ( جگہ) نہیں اور رات اور دن کے سوا کوئی زمانہ ( وقت) نہیں، گویا ہر جگہ اور ہر وقت اسی کی حکومت اور اسی کا قبضہ و اقتدار ہے۔ پھر یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمام جگہوں اور تمام اوقات اور زمانوں کا مالک ہے، فرمایا : ( وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) یعنی وہ ہر چیز کی دعا اور پکار سنتا ہے۔ ” الْعَلِيْمُ “ ہر چیز کے عمل اور اس کی ضرورت سے آگاہ ہے تو پھر کسی اور کو پکارنے کی ضرورت کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں ” مَا سَكَنَ “ میں سکون سے مراد حلول، یعنی رہنا ہے اور سکون جو حرکت کی ضد ہے وہ مراد نہیں۔ اس لیے ٹھہرا ہوا ہے کا معنی بھی یہی ہے کہ جو بھی رات اور دن میں بس رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ، یہاں یا تو سکون سے مراد استقرار ہے، یعنی جو چیز جہاں کے لیل و نہار میں موجود ہے وہ سب اللہ ہی کی ملک ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد سکون و حرکت کا مجموعہ ہو، یعنی ماسکن وما تحرک اور ذکر صرف سکون کا کیا گیا حرکت جو اس کے بالمقابل ہے وہ خودبخود سمجھ میں آسکتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَہٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّہَار۝ ٠ۭ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ١٣- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) اور کفار نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ ہم تمہیں مالا مال کردیں گے اور تمہاری بہترین جگہ پر شادی بھی کرا دیں گے اور تمہیں عزت دیں گے اور اپنا رہبر بنائیں گے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں، آپ کے وطن میں رات دن میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کی ملک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَلَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّہَارِط وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) - یہاں سَکَنَ کے مقابل لفظ تَحَرَّکَ محذوف ہے۔ ایسے مقابل کے الفاظ کو عام طور پر قرآن مجید میں حذف کردیا جاتا ہے تاکہ آدمی خودس مجھے۔ جیسے یہاں رات کے ساتھ سکون کا لفظ آیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دن کا ذکر کردیا گیا ہے ‘ جبکہ دِن کا وقت سکون کے لیے نہیں ہے۔ لہٰذا بات اس طرح واضح ہوجاتی ہے : وَلَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیْلِ وَمَا تَحَرَّ کَ فِی النَّھَار اور اسی کا ہے جو کچھ رات کے وقت سکون پکڑتا ہے اور دن کے وقت متحرک ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: غالباً اشارہ اس طرف ہے کہ رات اور دن کے اوقات میں جب لوگ سوتے ہیں تو دوبارہ بیدار بھی ہوجاتے ہیں، حالانکہ نیند بھی ایک چھوٹی موت ہے جس میں اِنسان دُنیا سے بے خبر اور بالکل بے اختیار ہوجاتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ اﷲ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہوتا ہے، اس لئے جب وہ چاہتا ہے اسے بیداری کی دُنیا میں واپس لے آتا ہے۔ اسی طرح جب بڑی موت آئے گی تب بھی اِنسان اﷲ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہوگا، اور وہ جب چاہے گا اسے دوبارہ زندگی دے کر قیامت کے یومِ حساب کی طرف لے جائے گا۔