Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] رسول اللہ کی ذات سے اللہ کی نافرمانی ہونا ناممکنات سے ہے دراصل یہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ و تہدید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ اگر رسول بھی اللہ کی نافرمانی کرے تو قیامت کے دن اس سے بھی باز پرس ہوسکتی ہے پھر دوسرے لوگ اپنا انجام خود سوچ لیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ اعلان کروا کر دوسرے سب لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اگر بفرض محال ہمارے معصوم اور سب سے زیادہ نیک بندے سے بھی نافرمانی کا ارتکاب ہوجائے تو وہ بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکتا، پھر دوسروں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ انبیاء کو جھٹلانے جیسے جرائم کرنے کے باوجود ہمارے عذاب سے بےفکر ہو کر بیٹھ رہیں۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٨١ تا ٨٨ اور سورة زمر (٦٤، ٦٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں اپنے رب کا کہنا نہ مانوں (کہ اسلام و ایمان کے حکم کی تعمیل نہ کروں یا شرک میں مبتلا ہوجاؤ ں) تو میں ایک بڑے دن (یعنی قیامت) کے عذاب سے ڈرتا ہوں (یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، اسلام و ایمان کے خلاف شرک و معصیت کا صادر ہونا آپ سے ممکن نہیں، مگر یہاں سنانا عام امت کو ہے، کہ نبی معصوم بھی اللہ کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں، پھر فرمایا کہ وہ عذاب ایسا ہے کہ) جس شخص سے اس روز کا عذاب ہٹا دیا گیا اس پر اللہ تعالیٰ نے بڑا رحم کیا اور یہ (عذاب کا ہٹ جانا اور اللہ کی رحمت کا متوجہ ہوجانا) صریح کامیابی ہے (اس میں اس رحمت کا بیان بھی ہوگیا جس کا ذکر اس سے پہلے كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ میں آیا ہے) اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو یہ بھی سنا دیجئے کہ اے انسان) اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف (دنیا یا آخرت میں) پہنچا دیں تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں (وہی چاہیں تو دور کریں یا نہ کریں اور جلد کریں یا دیر میں کریں) اور اگر تجھ کو (اسی طرح) کوئی نفع پہنچا دیں (تو اس کا بھی کوئی ہٹانے والا نہیں، جیسا دوسری جگہ ہے (آیت) لا رآد لفضلہ کیونکہ) وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں (اور مضمون مذکور کی تاکید کے لئے یہ بھی فرما دیجئے کہ) وہی اللہ تعالیٰ (قدرت کے اعتبار سے) اپنے بندوں پر غالب اور برتر ہیں اور (علم کے اعتبار سے) وہی بڑی حکمت والے اور پوری خبر رکھنے والے ہیں (پس وہ علم سے سب کا حال جانتے ہیں اور قدرت سے سب کو جمع کرلیں گے اور حکمت سے مناسب جزاء و سزا دیں گے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان منکرین توحید و رسالت سے) کہئے کہ (اچھا یہ تو بتلاؤ کہ) سب سے بڑھ کر چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے (جس کی گواہی دینے پر سب کا اختلاف رفع ہوجاوے، اس کا جواب ظاہر ہے یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر ہیں پھر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان (جس مسئلہ میں اختلاف ہے اس میں وہی) اللہ تعالیٰ گواہ ہے (جس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے) اور (ان کی گواہی یہ ہے کہ) میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے (منجانب اللہ) بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو (ان وعیدوں سے) ڈراؤں (جو توحید و رسالت کے انکار پر اس میں مذکور ہیں کیونکہ قرآن مجید کے اعجاز اور اس کی مثل بنانے سے ساری دنیا کا عاجز ہونا اللہ تعالیٰ کی تکوینی شہادت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی پر ہوگئی اور مضامین قرآن سے اس کی تشریعی شہادت ہوگئی) کیا تم (اس شہادت کبریٰ کے بعد بھی جو کہ توحید کو شامل ہے) توحید کے بارے میں سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ (استحقاق عبادت میں) کچھ اور معبود بھی (شریک) ہیں (اور اگر وہ ہٹ دھرمی سے اس پر بھی کہہ دیں کہ ہاں ہم تو یہی گواہی دیں گے تو اس وقت ان سے بحث کرنا فضول ہے، بلکہ صرف) آپ (اپنے عقیدہ کو ظاہر کرنے کے لئے) کہہ دیجئے کہ میں تو اس کی گواہی نہیں دیتا اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے یہود و نصاریٰ سے پوچھ کر دیکھ لیا تو اس معاملہ کی تحقیق یہ ہے کہ) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات و انجیل) دی ہے وہ سب لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (ایسا) پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (لیکن جب شہادت کبریٰ کے ہوتے ہوئے اہل کتاب کی شہادت پر مدار ہی نہیں تو اس کے نہ ہونے سے بھی کوئی استدلال نہیں کیا جاسکتا، اور ایسی شہادت کبریٰ کے ہوتے ہوئے بھی) جن لوگوں نے اپنے کو ضائع کرلیا ہے وہ ایمان نہ لاویں گے (عقل کو ضائع کرنے سے مطلب یہ ہے کہ اس کو معطل کردیا عقل سے کام نہیں لیا) اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے، یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتاوے، ایسے بےانصافوں کا (حال یہ ہوگا کہ) ان کو (قیامت کے دن) خلاصی نہ ہوگی (بلکہ دائمی عذاب میں گرفتار رہیں گے) ۔ - معارف و مسائل - پچھلی آیتوں میں اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کا ذکر کرکے اس پر ایمان لانے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا گیا، آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کا عذاب ایک خاص انداز سے بیان فرمایا گیا ہے، کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر بالفرض میں بھی اپنے رب کے حکم کی مخالفت کروں تو مجھے بھی قیامت کے عذاب کا خوف ہے، یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر گناہ سے معصوم ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا صدور ہو ہی نہیں سکتا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کرکے امت کو یہ بتلایا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی پر جب نبی الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاف نہیں کیا جاسکتا تو اور کسی کی کیا مجال ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ١٥- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) آپ فرما دیجیے کہ اگر بالفرض میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کروں اور تمہارے دین کی طرف لوٹ آؤں تو مجھے آنے والے دن کے بڑے عذاب کا ڈر ہے یا یہ کہ بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ ) - میں بھی اللہ کی عبادت سے مستثنیٰ نہیں ہوں ‘ میں بھی اللہ کا بندہ ہوں۔ جیسے میں آپ لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ ویسے ہی مجھے بھی حکم ہے ‘ مجھے بھی اللہ کی بندگی کرنی ہے۔ جیسے میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی فرمانبرداری کرو ‘ ویسے ہی مجھے بھی اس کی فرمانبرداری کرنی ہے۔ اور جیسے میں تمہیں بتارہا ہوں کہ اگر اللہ کی نافرمانی گرو گے تو پکڑے جاؤ گے ‘ ایسے ہی میں بھی اگر بالفرض نافرمانی کروں گا تو مجھے بھی اللہ کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ یہ بہت اہم آیات ہیں ‘ ان پر بہت غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani