Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن حکیم کا باغی جہنم کا ایندھن اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک وہی ہے اپنی مخلوق میں جیسی وہ چاہے تبدیلیاں کرتا ہے اس کے احکام کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس کے فیصلوں کو کوئی رد نہیں کر سکتا اسی آیت جیسی آیت ( مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 35 ۔ فاطر:2 ) ہے یعنی اللہ مقتدر اعلی جسے جو رحمت دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ، اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، اس آیت میں خاص اپنے نبی کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اے اللہ جسے تو دے اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، اس کے بعد فرماتا ہے وہ اپنے بندوں پر قاہر و غالب ہے ، سب کی گردنین اس کے سامنے پست ہیں ، سب بڑے اس کے سامنے چھوٹے ہیں ، ہر چیز اس کے قبضے اور قدرت میں ہے تمام مخلوق اس کی تابعدار ہے اس کے جلال اسکی کبریائی اس کی عظمت اسکی بلندی اس کی قدرت تمام چیزوں پر غالب ہے ہر ایک کا مالک وہی ہے ، حکم اسی کا چلتا ہے ، حقیقی شہنشاہ اور کامل قدرت والا وہی ہے ، اپنے تمام کاموں میں وہ باحکمت ہے ، وہ ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز سے با خبر ہے ، وہ جسے جو دے وہ بھی حکمت سے اور جس سے جو روک لے وہ بھی حکمت سے ، پھر فرماتا ہے پوچھو تو سب سے بڑا اور زبردست اور بالکل سچا گواہ کون ہے؟ جواب دے کر مجھ میں تم میں اللہ ہی گواہ ہے ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں اور جو تم مجھ سے کر رہے ہو اسے وہ خوب دیکھ بھال رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے ، میری جانب اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں تم سب حاضرین کو بھی اس سے آگاہ کر دوں اور جسے بھی یہ پہنچی اس تک میرا پیغام پہنچ جائے ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ) 11 ۔ ہود:17 ) یعنی دنیا کے تمام لوگوں میں سے جو بھی اس قرآن سے انکار کرے اس کا ٹھکانا جہم ہی ہے ۔ حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں جسے قرآن پہنچ گیا اس نے گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا بلکہ گویا آپ سے باتیں کرلیں اور اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دین پیش کر دیا ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے اللہ کا پیغام اس کے بندوں کو پہنچاؤ جسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا ۔ حضرت ربیع بن انس کا قول ہے اللہ کے نبی کے تمام تابعی لوگوں پر حق ہے کہ وہ مثل دعوت رسول کے لوگوں کو دعوت خیر دیں اور جن چیزوں اور کاموں سے آپ نے ڈرا دیا ہے یہ بھی اس سے ڈراتے رہیں مشرکو تم چاہے اللہ کے ساتھ اور معبود بھی بتاؤ لیکن میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:150 ) یہ گو شہادت دیں لیکن تو ان کا ہمنوا نہ بن ۔ یہاں فرمایا تم صاف کہدو کہ اللہ تو ایک ہی ہے اور تمہارے تمام معبودان باطل سے میں الگ تھلگ ہوں ۔ میں ان سب سے بیزار ہوں کسی کا بھی روادار نہیں پھر فرماتا ہے یہ اہل کتاب اس قرآن کو اور اس نبی کو خوب جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولاد سے واقف ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ آپ سے اور آپ کے دین سے واقف اور با خبر ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں یہ سب خبریں موجود ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی آپ کی نبوت کی خبریں ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں آپ کی صفتیں ، آپ کا وطن ، آپ کی ہجرت ، آپ کی امت کی صفت ، ان تمام چیزوں سے یہ لوگ آگاہ ہیں اور ایسے صاف طور پر کہ جس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ، پھر ایسے ظاہر باہر صاف شفاف کھلم کھلا امر سے بے ایمانی کرنا انہی کا حصہ ہے جو خود اپنا برا چاہنے والے ہوں اور اپنی جانوں کو ہلاک کرنے والے ہوں ، حضور کی آمد سے پہلے ہی نشان ظاہر ہو چکے جو نبی آپ سے پہلے آپ کی بشارتیں دیتا ہوا آیا ، پھر انکار کرنا سورج چاند کے وجود سے انکار کرنا ہے ، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھ لے ؟ اور فی الواقع اس سے بھی زیادہ ظالم کوئی نہیں جو سچ کو جھوٹ کہے اور اپنے رب کی باتوں اور اس کی اٹل حجتوں اور روشن دلیلوں سے انکار کرے ، ایسے لوگ فلاح سے ، کامیابی سے ، اپنا مقصد پانے سے اور نجات و آرام سے محروم محض ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (صحیح بخاری، مسلم) جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ درد کو دور کرنے والا اور فائدہ پہنچانے والا صرف اللہ ہی ہے تو وہ کسی دوسرے کو کیوں پکارے گا یا اس کی نذر و نیاز کیوں دے گا ؟ یا اس کے آگے سر تسلیم خم کیوں کرے گا ؟ کیونکہ انسان جب بھی شرک کرتا ہے تو انہی دو باتوں کی خاطر کرتا ہے ایک فائدہ کے حصول کی خاطر دوسرے دفع مضرت۔ اگر ان دونوں باتوں کا مالک و مختار اللہ کو ہی سمجھ لے گا تو اسے شرک کی ضرورت پیش آ ہی نہیں سکتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ ۔۔ : اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی۔ کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ اور تکلیف کو دور کرنے والا اور ہر قسم کی خیر کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر وہ دوسروں کے آگے سجدے کرنا اور ان کی قبروں پر نذرانے چڑھانا اور سمجھنا کہ وہ حاجتیں پوری کرسکتے ہیں، بہت بڑی حماقت سمجھے گا۔ قرآن نے اس بات پر خصوصی زور دیا ہے کہ ہر قسم کا نفع و ضرر اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس پر عقیدہ پختہ ہوجائے تو انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٨٨) ، یونس (١٠٤ تا ١٠٧) ، فاطر (٢) ، سورة زمر (٣٨) اور سورة جن (٢١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر نفع اور نقصان کا مالک در حقیقت صرف اللہ جل شانہ ہے، کوئی شخص کسی کو حقیقت کے اعتبار سے نہ ادنیٰ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ادنیٰ نقصان، اور ظاہر میں جو کسی کو کسی کے ہاتھ سے نفع یا نقصان پہنچتا نظر آتا ہے وہ صرف ایک ظاہری صورت اور حقیقت کے سامنے ایک نقاب سے زائد کوئی حقیقت نہیں رکھتا - کار زلف تست مشک اثسائی امّا عاشقاں - مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند ؛- یہ عقیدہ بھی اسلام کے ان انقلابی عقائد میں سے ہے جس نے مسلمانوں کو ساری مخلوق سے بےنیاز اور صرف خالق کا نیاز مند بنا کر ان کی ایک ایسی بےمثال البیلی جماعت تیار کردی جو فقر و فاقہ اور تنگدستی میں بھی سارے جہان پر بھاری ہے، کسی کے سامنے سر جھکانا نہیں جانتی - فقر میں بھی میں سربسر فخر و غرور و ناز ہوں - کسی کا نیاز مند ہوں سب سے جو بےنیاز ہوں - قرآن مجید میں جا بجا یہ مضمون مختلف عنوانات کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، ایک آیت میں ارشاد ہے :- (آیت) ما یفتح اللہ للناس - ” یعنی اللہ تعالیٰ نے جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دی اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک دے اس کو کوئی کھولنے والا نہیں “۔- صحیح احادیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعاؤں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے :- اللہم لا مانع لما اعطیت۔ الخ۔- (ترجمہ) ” یعنی اے اللہ جو آپ نے دیا اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ نے روک دیا اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی “۔- امام بغوی رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سواری پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے ردیف بنا لیا، کچھ دور چلنے کے بعد میری طرف منوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لڑکے میں نے عرض کیا حاضر ہوں، کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اللہ کو یاد رکھو اللہ تم کو یاد رکھے گا، تم اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو ہر حال میں اپنے سامنے پاؤ گے، تم امن و عافیت اور خوش عیشی کے وقت اللہ تعالیٰ کو پہچانو تو تمہاری مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ تم کر پہچانے گا، جب تم کو سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے سوال کرو، اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو، جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے قلم تقدیر کا اس کو لکھ چکا ہے، اگر ساری مخلوقات مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نفع پہنچا دیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں نہیں رکھا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے، اور اگر وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نقصان پہنچاویں جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے تو ہرگز اس پر قدرت نہ پائیں گے، اگر تم کرسکتے ہو کہ یقین کے ساتھ صبر پر عمل کرو تو ایسا ضرور کرلو، اگر اس پر قدرت نہیں تو صبر کرو، کیونکہ اپنی خلاف طبع چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیروبرکت ہے، اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کے ساتھ ہے، اور مصیبت کے ساتھ راحت اور تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ (یہ حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی بسند صحیح مذکور ہے) ۔- افسوس ہے کہ قرآن کے اس واضح اعلان اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر بھر کی تعلیمات کے باوجود یہ امت پھر اس معاملہ میں بھٹکنے لگی، سارے خدائی اختیارات مخلوقات کو بانٹ دیئے، آج ایسے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو مصیبت کے وقت بجائے خدا تعالیٰ کے پکارنے کے اور اس سے دعا مانگنے کے مختلف ناموں کی دہائی دیتے اور انہی سے مانگتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف دھیان تک نہیں ہوتا، انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنا دوسری بات ہے وہ جائز ہے، اور خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات میں اس کے شواہد موجود ہیں، لیکن براہ راست کسی مخلوق کو حاجت روائی کے لئے پکارنا، اس سے اپنی حاجتیں مانگنا، اس قرآنی حکم کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٧- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) اور اے لوگو تمہیں اگر اللہ تعالیٰ کسی سختی یا تنگی میں مبتلا کردیں تو ان کے علاوہ کوئی اور اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ کوئی نعمت عطا کریں تو وہ سختی اور تنگی نعمت ومالداری پر قدرت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہیں اور ان کے امور وقضا میں بڑی حکمت والے اور مخلوق اور ان کے اعمال سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ الاَّ ہُوَ ط) - اب یہ توحید کا بیان ہے۔ تکلیف میں پکارو تو اسی کو پکارو ‘ کسی اور کو نہ پکارو۔ (وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ) (القصص : ٨٨) ۔ وہی مشکل کشا ہے ‘ وہی حاجت روا ہے اور وہی تمہاری تکلیفوں کو رفع کرنے والا ہے۔- (وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ۔- کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ اسے اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کرنے کے لیے کسی اور سے منظوری لینے کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ تو عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani