انسانوں میں سے ہی رسول اللہ کا عظیم احسان کفار کی ضد اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ بالفرض یہ کتاب اللہ کو آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں دیکھ لیتے اور اپنے ہاتھ لگا کر اسے اچھی طرح معلوم کر لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ، محسوسات کا انکار بھی ان سے بعید نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ ) 15 ۔ الحجر:14 ) یعنی اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول دیتے اور یہ خود اوپر چڑھ جاتے ، جب یہ بھی یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے اور ایک آیت میں ہے آیت ( وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ ) 52 ۔ الطور:44 ) غرض کہ جن باتوں کے ماننے کے عادی نہیں انہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہونے کا ، یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور سچے رسول ہیں تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی؟ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ ان کی اس بے ایمانی پر اگر فرشتے آ جاتے تو پھر تو کام ہی ختم کر دیا جاتا ، چنانچہ اور آیت میں ہے آیت ( مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ) 15 ۔ الحجر:8 ) یعنی فرشتوں کو ہم حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔ اگر یہ آ جائیں تو پھر مہلت و تاخیر ناممکن ہے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:22 ) جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن گہنگار کو کوئی بشارت نہیں ہو گی ، پھر فرماتا ہے بالفرض رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ ہم اتارتے یا خود فرشتے ہی کو اپنا رسول بنا کر انسانوں میں بھیجتے تو لا محالہ اسے بصورت انسانی ہی بھیجتے تاکہ یہ لوگ اس کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں ، بات چیت کر سکیں اس سے حکم احکام سیکھ سکیں ۔ یکجہتی کی وجہ سے طبیت مانوس ہو جائے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر انہیں اسی شک کا موقعہ ملتا کہ نہ جانیں یہ سچ مچ فرشتہ ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ وہ بھی انسان جیسا ہے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا ) 17 ۔ الاسراء:95 ) یعنی اگر زمین میں فرشتوں کی آبادی ہوتی تو ہم ان کی طرف فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل فرماتے ، پس درحقیقت اس رب محسن کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ انسانوں کی طرف انہی کی جنس میں سے انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ اس کے پاس اٹھ بیٹھ سکیں اس سے پوچھ گچھ لیں اور ہم جنسی کی وجہ سے خلط ملط ہو کر فائدہ اٹھا سکیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ) 3 ۔ آل عمران:164 ) یعنی یقینا اللہ تعالیٰ محسن حقیقی کا ایک زبردست احسان مسلمانوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو آیات الہیہ ان کے سامنے تلاوت کرتا رہتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر فرشتہ ہی اترتا تو چونکہ اس نور محض کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے اس لئے اے انسانی صورت میں ہی بھیجتے تو پھر بھی ان پر شبہ ہی رہتا ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دیتا ہے کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں آپ سے پہلے بھی جتنے انبیاء آئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا لیکن بالاخر مذاق اڑانے والے تو برباد ہو گئے اسی طرح آپ کے ساتھ بھی جو لوگ بے ادبی سے پیش آتے ہیں ایک رو پیس دیئے جائیں گے ، لوگو ادھر ادھر پھر پھرا کر عبرت کی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھو جنہوں نے تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بد سلوکی کی ، ان کی نہ مانی اور ان پر پھبتیاں کسیں دنیا میں بھی وہ خراب و خستہ ہوئے اور آخرت کی مار ابھی باقی ہے ، رسولوں کو اور ان کے ماننے والوں کو ہم نے یہاں بھی ترقی دی اور وہاں بھی انہیں بلند درجے عطا فرمائے ۔
7۔ 1 یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ) 052:044 اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کوئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کوئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔
[٧] کفار کے اعراضات اور ان کے جواب :۔ یہ کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ ہم تو تب ہی ایمان لائیں گے جب ہمارے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل ہو اور ساتھ چار فرشتے بھی ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہ کافر اس قدر ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ہم ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیں، وہ کتاب کو چھو کر دیکھ بھی لیں کہ یہ محض نظر بندی کا چکر نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے تب بھی وہ یہ کہہ دیں گے کہ یہ سب کچھ جادو ہے اور تم جادوگر ہو۔
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا۔۔ : اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو انبیاء کے معجزات کی کوئی الٹی سیدھی تاویل کر کے انھیں جھٹلا دیتے تھے۔ ( رازی) اس آیت میں کفار مکہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کے لیے پیش کردہ فرمائشوں میں سے ایک فرمائش (بنی اسرائیل : ٩٣) کا جواب ہے کہ ہم اس وقت تک تمہارے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل نہیں کرتے جسے ہم خود پڑھیں۔ یہ لوگ اپنی سرکشی اور کفر کی روش میں اس قدر پختہ ہیں کہ اگر ہم ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے، جسے یہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر صاف معلوم کرلیتے کہ یہ کوئی خیالی اور نظر بندی جیسی چیز نہیں، بلکہ حقیقت ہے، تب بھی یہ لوگ اسے کھلا جادو قرار دیتے، پھر اگر یہ بدبخت قرآن کو جادو قرار دیتے ہیں تو کیا تعجب ہے ؟ (قرطبی) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس کی قسمت میں ہدایت نہیں اس کا شبہ نہیں مٹتا۔ “ (موضح) مزید دیکھیے سورة حجر (١٤، ١٥) اور طور (٤٤) ۔
دوسری آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی، کہ عبداللہ بن ابی امیہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک معاندانہ مطالبہ پیش کیا اور کہا کہ میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت تک ایمان نہیں لاسکتا جب تک کہ میں یہ واقعہ نہ دیکھ لوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان میں چڑھ جائیں، اور وہاں سے ہمارے سامنے ایک کتاب لے کر آئیں، جس میں میرا نام لے کر یہ ہو کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کروں، اور یہ سب کہہ کر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب کچھ کر بھی دکھائیں میں تو جب بھی مسلمان ہوتا نظر نہیں آتا۔- اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ پھر یہی صاحب مسلمان ہوئے اور ایسے ہوئے کہ اسلام کے غازی بن کر غزوہ طائف میں شہید ہوئے۔- قوم کے ایسے بیجا معاندانہ مطالبات اور استہزاء کے رنگ میں مکالمات نے ماں باپ سے زیادہ شفیق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر کیا اثر کیا ہوگا، اس کا صحیح اندازہ ہم نہیں کرسکتے، صرف وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جس کو قوم کی صلاح و فلاح کی فکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح لگی ہو۔ - اسی لئے اس آیت میں آپ کو تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے یہ مطالبات کسی غرض اور مقصد کے لئے نہیں، نہ ان کو عمل کرنا مقصود ہے، ان کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ یہ طلب کر رہے ہیں اگر اس سے بھی زیادہ واضح صورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کی ان کے سامنے آجائیں، جب بھی قبول نہ کریں، مثلاً ہم ان کی فرمائش کے مطابق آسمان سے کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب اتاردیں اور صرف یہی نہیں کہ وہ آنکھوں سے دیکھ لیں جس میں نظر بندی یا جادو وغیرہ کا احتمال نہ رہے، بلکہ وہ اس کتاب کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیں کہ محض خیال نہیں، حقیقت ہے، مگر چونکہ ان کی ساری باتیں محض عناد کی وجہ سے ہیں تو پھر بھی یہی کہیں گے کہ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ ” یعنی یہ تو کھلا ہوا جادو ہے “۔
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَيْدِيْہِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ ٧- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قرطس - القِرْطَاسُ : ما يكتب فيه . قال اللہ تعالی: وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام 7] ، قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام 91] .- ( ق ر ط س ) القرطاس ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام 7] اور اگر ہم تم پر کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب نازل کرتے قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام 91] کہو کہ جو کتاب موسیٰ لیکر آئے تھے اسے کسی نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحہ ہ علیحہ ہ اوراق ( میں نقل ) کر رکھا ہے ۔- لمس - اللَّمْسُ : إدراک بظاهر البشرة، کالمسّ ، ويعبّر به عن الطّلب، کقول الشاعر :- وأَلْمِسُهُ فلا أجده وقال تعالی: وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً- [ الجن 8] ، ويكنّى به وبِالْمِلَامَسَةِ عن الجماع، وقرئ : لامَسْتُمُ [ المائدة 6] ولَمَسْتُمُ النّساء حملا علی المسّ ، وعلی الجماع، «ونهى عليه الصلاة والسلام عن بيع الملامسة»وهو أن يقول : إذا لَمَسْتَ ثوبي، أو لَمَسْتُ ثوبک فقد وجب البیع بيننا، واللُّمَاسَةُ : الحاجة المقاربة .- ( ل م س ) اللمس ( ن ) مس کی طرح اس کے معنی بھی اعضاٰ کی بلائی کھال کے ساتھ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مطلق کسی چیز کی طلب کرنے کے معنی میں آتا ہے شاعر نے کہا ہے ( مجزوالوافر ) ( 400) المسہ فلا اجدہ میں اسے تلاش کرتا ہوں مگر وہ ملتا نہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّماءَ فَوَجَدْناها مُلِئَتْ حَرَساً شَدِيداً وَشُهُباً [ الجن 8] اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا۔ اور لمساور ملامسۃ کے معنی کنایتۃ جماع کے بھی آتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : لامَسْتُمُ [ المائدة 6] یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو ۔ میں ایک قراءت لمستم النساء بھی ہے اس لئے مجامعت کرنا مراد لیا ہے اور حدیث میں ہے (112) انہ نھی عن الملامسۃ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع ملامسۃ سے منع فرمایا : اور بیع ملامسۃ کی صورت یہ ہے کہ بائع یا مشتری دوسری سے کہہ کہ جب ہم سے کوئی دوسرے کپڑا چھوٹے گا تو بیع واجب ہوجائے گی ۔ اللماسۃ ۔ معمولی حاجت ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔
(٧) اگر ہم جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سارا قرآن کریم کا غذ پر لکھا ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردیتے جیسا کہ عبد اللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں نے کہا تھا اور پھر یہ اپنے ہاتھوں میں اسے لے کر پڑھ بھی لیتے مگر پھر بھی یہ عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھ اپنی ہٹ دھرمی کے سبب یہی کہتے کہ یہ صریح جادو ہے۔
آیت ٧ (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِاَیْدِیْہِمْ ) (لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔ ) - وہ ایسے معجزات کو دیکھ کر بھی یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر جادو کا اثر ہوگیا ہے ‘ ہماری نظر بند کردی گئی ہے۔ جس نے نہیں ماننا اس نے صریح معجزات دیکھ کر بھی نہیں ماننا۔ البتہ اگر ہم ایسا معجزہ دکھا دیں گے تو ان کی مہلت ختم ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد فوراً عذاب آجائے گا۔ ابھی ہماری رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں مزیدمہلت دی جائے۔ ابھی اس دودھ کو مزید بلویا جانا مقصود ہے کہ شاید اس میں سے کچھ مزید مکھن نکل آئے۔ اس لیے حسی معجزہ نہیں دکھایا جا رہا۔