78۔ 1 شمس سورج عربی میں مونث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بےحیثیتی کو واضح فرمایا۔ 78۔ 2 یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں ؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ ہٰذَآ اَكْبَرُ ٠ۚ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ٧٨- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(٧٨) جب سورج کی روشنی نے آب وتاب دکھائی تو بولے یہ تو پہلے دونوں سے بڑا ہے تمہارے خیال میں کیا یہ اللہ بن سکتا ہے جب اس میں بھی تبدیلی شروع ہوئی اور وہ بھی غروب ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں ایسے غروب ہونے والوں سے محبت نہیں رکھتا اور جس کو خود ہی ایک حالت پر بقاء نہ اللہ کیسے ہوسکتی ہے اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی تم لوگوں کی طرح بےراہ ہوجاتا۔ (یہ اپنی بت پرست ومظاہر پرست قوم کو سمجھانے کا ایک تمثیلی انداز تھا کہ کس طرح آپ بتدریج ایک چھوٹے مظہر سے بڑے مظہر (سورج) تک ایک استفہامی طرح سے آئے اور بالآخر توحید حقیقی کا سبق دیا، کہ اصل حقیقت یہ ہے اور اے میری قوم، تم کن گمراہیوں میں گرفتار ہو، توحید کا یہ اصلی سبق دینا ہی آپ کا مقصود تھا اور یہ اس کو سمجھانے کا خاص انداز تھا وگرنہ پیغمبر شروع ہی سے حق اور توحید کا مل کا مومن اور داعی ہوتا ہے، اس کی توحید ہر ہر پہلو سے مکمل ہوتی ہے، اسے توحید میں کسی ” تدریجی ارتقا “ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (مترجم)- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا یہ میرا رب ہے بطور مذاق فرمایا کیوں کہ ان کی قوم چاند، سورج اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی تو اپنی قوم کی تردید کی اور بطور مذاق کے ان سے پوچھا کہ کیا یہ چیزیں تمہارے رب ہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :53 ”یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ابتدائی تفکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدماغ اور سلیم النظر انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امر حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اوپر قوم ابراہیم علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے ، رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبور کیا ہے ۔ اس قصہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر سورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا ، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر تو انہوں نے سن رشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا ۔ پھر یہ قصہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا ؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انہیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا ، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے ۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابل حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمولی قصہ تصنیف کریں ۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سن رشد کو پہنچنے تک وہ چاند ، تاروں اور سورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے ۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجہ ہوگیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانون جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہوگی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی خاص تاریخ کو سیب گرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روز مرہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور وفکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی ، مگر ایک وقت اسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں ۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن الجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روز مرہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا وہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں ۔ سورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے ۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحید الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے ۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظام زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے ، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آکر کشود کار کے لیے کلید بن گیا ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو ۔ اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیم ہی نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے ، اور جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے ، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلہ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے“ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”ایسا ہے“؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا ۔