سورة الْمُمْتَحِنَة نام : اس سورہ کی آیت نمبر 10 میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا ہے ۔ اس کا تلفظ ممتَحَنَہ بھی کیا جاتا ہے اور ممتَحِنَہ بھی ۔ پہلے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے ۔ اور دوسرے تلفظ کے لحاظ سے معنی ہیں امتحان لینے والی سورۃ ۔ زمانہ نزول : اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے ۔ پہلا معاملہ حضرت حاطب بن ابی بلْتَعَہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے لگی تھیں اور ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالہ کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے ان کے علاوہ ایک تیسرا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر سورۃ کے آخر میں آیا ہے ، اور وہ یہ کہ جب عورتیں ایمان لا کر بیعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان سے کن باتوں کا عہد لیں ۔ اس حصے کے متعلق بھی قیاس یہی ہے کہ یہ بھی فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوا ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے مردوں کی طرح ان کی عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں بیک وقت داخل اسلام ہونے والی تھیں اور اسی موقع پر یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ اجتماعی طور پر ان سے عہد لیا جائے ۔ موضوع اور مباحث : اس سورۃ کے تین حصے ہیں : پہلا حصہ آغاز سورہ سے آیت 9 تک چلتا ہے اور سورۃ کے خاتمہ پر آیت 13 بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا ، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں ، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے ، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے ، اور اتنے عظیم نقصانات صرف اس وجہ سے ہوتے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے بال بچوں کو جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ۔ اس شدید غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مومن کو کسی حال میں اور کسی غرض کے لیے بھی اسلام کے دشمن کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تعلق نہ رکھنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو کفر و اسلام کی کشمکش میں کفار کے لیے مفید ہو ۔ البتہ جو کافر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عملاً دشمنی اور ایذا رسانی کا برتاؤ نہ کر رہے ہوں ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ دوسرا حصہ آیات 10 ۔ 11 پر مشتمل ہے ۔ اس میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا ۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں ۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مرد ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے ، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے ۔ یہ فیصلہ بڑے اہم قانونی نتائج رکھتا ہے جن کی تفصیل ہم آگے اپنے حواشی میں بیان کریں گے ۔ تیسرا حصہ آیت 12 پر مشتمل ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ ان بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے ۔
تعارف سورۃ الممتحنہ یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتحِ مکہ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے، ان دونوں واقعات کی تفصیل پیچھے سورہ فتح کے تعارف میں گزرچکی ہے۔ اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک صلح حدیبیہ کی شرائط میں جو بات طے ہوئی تھی کہ اگر مکہ مکرَّمہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منوَّرہ آئے گا تو مسلمان اُسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے، اس کا اطلاق مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں پر نہیں ہوگا، اور اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر آئے گی تونبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے، یا آنے کا مقصد کچھ اور ہے۔ اگر اس جائزے سے یہ بات ثابت ہو کہ وہ واقعی مسلمان ہو کر آئی ہے تو پھر اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ اس صورت میں اگر وہ شادی شدہ ہو، اور اس کا شوہر مکہ مکرَّمہ میں رہ گیا ہو، اُس کے نکاح اور مہر وغیرہ سے متعلق کیا اَحکام ہوں گے ؟ وہ بھی اس سورت میں بیان فرمائے گئے ہیں، اور جن مسلمانوں کے نکاح میں ابھی تک بت پرست عورتیں تھیں، ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اب وہ ان کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔ چونکہ اس سورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان عورتوں کا امتحان یا جائزہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام ممتحنہ ہے، یعنی امتحان لینے والی۔ سورت کا دُوسرا موضوع جو بالکل شروع میں بیان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں سے کس قسم کے تعلقات رکھنا جائز ہے اور کس قسم کے ناجائز، چنانچہ سورت کو اس حکم سے شروع فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دُشمنوں سے خصوصی دوستی نہیں رکھنی چاہئے۔ ان آیتوں کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ سورہ فتح کے تعارف میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مکہ مکرَّمہ کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر ہی توڑدیا تھا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں پر واضح فرمادیا تھا کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ کے کفار پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری شروع فرمادی تھی، لیکن ساتھ ہی کوشش یہ تھی کہ قریش کے لوگوں کو آپ کی تیاری کا علم نہ ہو۔ اسی دوران سارہ نام کی ایک عورت جو گانا بجاکر پیسے کماتی تھی، مکہ مکرَّمہ سے مدینہ منوَّرہ آئی اور اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہو کر نہیں آئی، بلکہ وہ شدید مفلسی میں مبتلا ہے، کیونکہ جنگ بدر کے بعد قریش مکہ کی عیش وعشرت کی محفلیں ویران ہوچکی ہیں، اب کوئی اُسے گانے بجانے کے لئے نہیں بلاتا۔ اس لئے مالی اِمداد حاصل کرنے کے لئے آئی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کو اس کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اور اُس کو کچھ نقدی اور کچھ کپڑے دے کر رُخصت کیا گیا۔ دُوسری طرف مہاجرین صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ ایک ایسے بزرگ تھے جو اصل میں یمن کے باشندے تھے، اور مکہ مکرَّمہ آکر بس گئے تھے، مکہ مکرَّمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا، وہ خود تو ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ آگئے تھے، لیکن ان کے اہل وعیال مکہ مکرَّمہ ہی میں رہ گئے تھے، جن کے بارے میں اُنہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں قریش کے لوگ ان پر ظلم نہ کریں، دوسرے مہاجر صحابہ جن کے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، اُنہیں تو کسی قدر اطمینان تھا کہ ان کا پورا قبیلہ وہاں موجود ہے جو کافروں کے ظلم سے اُنہیں تحفظ دے سکتا ہے، لیکن حضرت حاطبؓ کے اہل وعیال کو یہ تحفظ حاصل نہیں تھا۔ جب سارہ نامی عورت مکہ مکرَّمہ واپس جانے لگی تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کے اگر میں قریش کے لوگوں کو خفیہ طور پر ایک خط میں یہ اِطلاع دے دُوں کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ سے مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ فرمارکھا ہے ؛ لیکن میری طرف سے قریش پر ایک احسان ہوجائے گا، اور اس احسان کی وجہ سے وہ میرے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک خط لکھ کر سارہ کے حوالے کردیا کہ وہ قریش کے سرداروں کو پہنچادے۔ اُدھر اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ سارہ ایک خفیہ خط لے کرگئی ہے، اور روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے۔ آپ نے حضرت علیؓ، حضرت مرثدؓ اور حضرت زبیرؓ کو اس مہم پر روانہ فرمایا کہ وہ اس عورت کا پیچھا کرکے اُس سے وہ خط بر آمد کریں، اور یہاں واپس لے آئیں۔ یہ حضرات گئے اور انہوں نے وہ خط برآمد کرلیا۔ حضرت حاطبؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی، اور اپنی اس غلطی کی وجہ بیان کی جو اُوپر ذکر کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی اس غلطی کو معاف فرمادیا۔ اسی واقعے پر اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔