1۔ 1 کفار مکہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر لڑائی کی تیاری کا حکم دے دیا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) ایک مہاجر بدری صحابی تھے جن کی قریش کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن ان کے بیوی بچے مکہ میں ہی تھے انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ کی تیاری کی اطلاع کردوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے بال بچوں کا خیال رکھیں چناچہ انہوں نے ایک عورت کے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مکہ کی طرف روانہ کردیا جس کی اطلاع بذریعہ وحی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردی گئی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی حضرت مقداد اور حضرت زبیر (رض) کو فرمایا کہ جاؤ روضہ خاخ پر ایک عورت ہوگی جو مکہ جا رہی ہوگی اس کے پاس ایک رقعہ ہے وہ لے آؤ چناچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپارکھا تھا آپ نے حضرت حاطب (رض) سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ کام کفر وارتداد کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتے دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کردوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں آپ نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں تاکہ آئندہ کوئی مومن کسی کافر کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے صحیح بخاری۔ 1۔ 2 مطلب ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبریں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہو ؟ 1۔ 3 جب ان کا تمہارے ساتھ اور حق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو تمہارے لئے کیا یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو ؟ 1۔ 4 یہ جواب شرط، جو محذوف ہے، کا ترجمہ ہے۔ 1۔ 5 یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت کا تعلق جوڑنا اور انہیں خفیہ نام و پیام بھیجنا، یہ گمراہی کا راستہ ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
[١] غزوہ مکہ کا فوری سبب :۔ معاہدہ حدیبیہ، جسے اللہ نے فتح مبین قرار دیا ہے، کی دوسری شرط کے مطابق بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنوبکر قریش کے حلیف بن چکے تھے۔ اس صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی تو قریش مکہ نے معاہدہ کے برخلاف کھلم کھلا بنوبکر کی بھرپور مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ اس واقعہ کے بعد بنوخزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لیے مدینہ پہنچے۔ آپ کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت افسوس اور صدمہ ہوا۔ لہذا آپ نے قریش کے لیے مندرجہ ذیل تین شرطیں پیش کیں :- ١۔ بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے، (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں، (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔- قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک جوشیلے نوجوان فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور سخت فکر دامنگیر ہوگئی۔ چناچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ اس نے آپ سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابوبکر (رض) سیدنا عمر حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ (رض) تک سے سفارش کے لیے التجا کی لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ ہم اس معاملہ میں دخل نہیں دے سکتے۔ لاچار اس نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔- غزوہ مکہ کی مہم میں رازداری :۔ قریش کی بدعہدی ہی حقیقتاً اعلان جنگ کے مترادف تھی۔ پھر ان کے صرف تیسری شرط منظور کرنے سے مزید تاخیر کی گنجائش بھی ختم ہوچکی تھی۔ چناچہ آپ نے نہایت رازداری سے مکہ پر چڑھائی کی مہم کا آغاز کیا۔ حلیف قبائل کو جو پیغامات بھیجے گئے ان میں بھی یہ راز داری ملحوظ رکھی گئی تھی اور جس وقت ابو سفیان مدینہ پہنچا اس وقت آپ اس مہم کا آغاز فرما چکے تھے۔ لہذا اب تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ اسی لیے آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جس قدر رازداری سے آپ نے اس موقع پر کام لیا۔ پہلے کبھی نہ لیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مکہ حرم تھا اور وہاں لڑائی کرنا مکہ کے احترام کے خلاف تھا۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ کفار مکہ کو خبر تک نہ ہو اور آپ ایک عظیم لشکر لے کر وہاں پہنچ جائیں۔ جس سے کفار مرعوب ہو کر مقابلہ کی جرأت ہی نہ کرسکیں۔ گویا آپ اس راز داری سے دو فائدے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ مکہ فتح ہوجائے دوسرا یہ کہ وہاں کشت و خون بھی نہ ہو۔ - حاطب بن ابی بلتعہ کا کفار مکہ کو خط بھیجنا اور راز فاش ہونے کا خطرہ :۔ انہی دنوں ایک نہایت سچے مسلمان حاطب ابن ابی بلتعہ سے ایک فاش غلطی ہوگئی۔ ان کے بال بچے مکہ میں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قریش مکہ کو اس راز سے مطلع کرکے ان پر ایک احسان کردیں تاکہ وہ اس دوران اس احسان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے بال بچوں کو گزند نہ پہنچائیں۔ مکہ سے سارہ نامی ایک عورت مدینہ آئی ہوئی تھی۔ حاطبص نے اس عورت کی خدمات حاصل کیں۔ ایک خط لکھ کر اس کے حوالہ کیا جو سرداران قریش کے نام تھا۔ اور اسے یہ تاکید کی کہ نہایت راز سے یہ خط کسی قریشی سردار کے حوالے کردے اور اس عورت کی اس خدمت کے عوض اسے دس دینار بھی دے دیئے۔ اس طرح اس عورت کی حیثیت سیدنا حاطبص کے قاصد کی بن گئی تھی۔ سیدنا حاطبص کا یہ خط چونکہ بنے بنائے سارے کھیل پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مدینہ سے روانگی کے فوراً بعد آپ کو بذریعہ وحی اس معاملہ سے مطلع فرما دیا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اقدام کیا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- آپ کا خط واپس لانے کے لئے وفد بھیجنا :۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے، زبیر اور مقداد تین آدمیوں کو (ایک مہم پر) روانہ کیا۔ فرمایا (مکہ کے رستہ پر) روضہ خاخ (ایک مقام کا نام) تک جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ) ملے گی جو اونٹ پر سوار ہوگی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے آؤ۔ چناچہ ہم تینوں گھوڑے دوڑاتے روضہ خاخ پہنچ گئے تو فی الواقع وہاں ایک شتر سوار عورت ملی۔ ہم نے اسے کہا : جو تمہارے پاس خط ہے وہ نکال دو وہ کہنے لگی : میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے کہا : نکال دو تو خیر ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے چناچہ اس نے اپنے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر ہمیں دے دیا اور ہم وہ خط آپ کے پاس لے آئے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا : حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام۔ اور اس میں انہیں نبی اکرم کے معاملہ (مکہ پر چڑھائی) کی خبر دی گئی تھی۔- حاطب بن بلتعہ سے باز پرس :۔ نبی اکرم نے حاطبص سے پوچھا : حاطبص یہ کیا بات ہے ؟ (تم نے جنگی راز کیوں فاش کردیا ؟ ) حاطب نے عرض کیا : یارسول اللہ میرے معاملہ میں جلدی نہ کیجئے۔ (اور میری بات سن لیجئے) میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اصل قریشی نہیں۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجر ہیں (وہ اصل قریشی ہیں) ان کے رشتہ دار قریش کے کافروں میں موجود ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھر بار اور مال و اسباب محفوظ رہتے ہیں۔ میں نے یہ چاہا کہ میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو ہے نہیں میں ان پر کچھ احسان کرکے اپنا حق قائم کروں تاکہ وہ میرے رشتہ داروں کی حمایت کریں۔- آپ کا سیدنا حاطب کی معذرت قبول کرنا :۔ میں نے یہ کام کفر یا اپنے دین سے پھرجانے کی بنا پر نہیں کیا یہ سن کر نبی اکرم نے (مسلمانوں سے) کہا : حاطب نے تم سے سچ سچ بات کہہ دی سیدنا عمر کہنے لگے : یارسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا : دیکھو یہ جنگ بدر میں شریک تھا اور تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے اہل بدر پر (عرش معلی سے) جھانکا پھر فرمایا : (ماسوائے شرک کے) تم جو بھی عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - [٢] یعنی کفار مکہ کا تم سے یہ سلوک تھا کہ انہوں نے تمہاری زندگی اس قدر اجیرن بنا رکھی تھی کہ تم ترک وطن پر مجبور ہوگئے تھے اور تمہارا ان سے یہ سلوک ہو کہ تم ان کے لیے جنگی راز تک فاش کر ڈالتے ہو۔ تاکہ وہ اپنی ٹھیک ٹھاک مدافعت کا انتظام کرسکیں۔ اور اس معاملہ میں تم مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو بھی نظرانداز کر رہے ہو ؟ علاوہ ازیں ان لوگوں نے تمہیں ہجرت پر مجبور کردیا۔ حالانکہ تم نے ان کا کچھ بھی نہ بگاڑا تھا۔ ان کی نظروں میں اگر تمہارا کچھ جرم تھا تو صرف یہ کہ تم اللہ پر ایمان لے آئے تھے ؟- [٣] اب اگر تم محض میری رضا کی خاطر اس مہم میں شریک ہو رہے ہو تو کیا یہ کام تم نے میری رضا کے مطابق کیا ہے یا اس کے خلاف ؟ اللہ تعالیٰ کے اس عتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر کو جو سیدنا حاطب ص پر غصہ آیا تھا اور رسول اللہ سے سیدنا حاطب کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ تو وہ بھی بہت حد تک حق بجانب تھے کیونکہ سیدنا عمر جنگی اسرارورموز اور ان کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے۔ مگر رسول اللہ نے سیدنا حاطب کو اس لیے معاف فرما دیا کہ ان کی نیت میں کوئی فتور نہ تھا۔ نیز سیدنا حاطبص ایسے راز کے فاش کردینے کے نتائج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ لہذا آپ نے اپنی نرمی طبع کی بنا پر خیر کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے سیدنا حاطبص کو معاف فرما دیا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ اللہ نے مسلمانوں کو سیدنا حاطبص کے اس فعل کے برے نتائج سے بچا لیا تھا۔- [٤] ان آیات سے کن کن چیزوں پر ثبوت مہیا ہوتا ہے ؟ :۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اگر تم نے نہایت رازداری سے کوئی خط قریش مکہ کو بھیجا ہے تو اللہ کو بھی اس کا علم نہ ہوگا ؟ اور تمہاری اتنی فاش غلطی کو بھی وہ چھپا ہی رہنے دے گا ؟ یہ آیات بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی، آپ کے اللہ کا رسول ہونے، قرآن کے منزل من اللہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے کے صریح ثبوت مہیا ہوتے ہیں۔- [٥] اگر کوئی مسلمان دانستہ راز فاش کردے تو وہ قابل گردن زدنی ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہوجاتا۔ مسلمان ہی رہتا ہے۔ البتہ اس کا یہ جرم قابل مواخذہ ضرور ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کرے تو وہ منافق بھی ہے کافر بھی ہوجاتا ہے اور گردن زدنی بھی اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔
١۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ :” عدو “ ” عدا یعدو عدوا وعداوۃ “ سے ” فعول “ بمعنی ” فاعل “ کے وزن پر ہے ، دشمن ۔ ” فعیل “ اور ” فعول “ دونوں صیغے واحد ، تثنیہ ، جمع اور مذکر و مؤنث کے لیے ایک ہی لفظ کے ساتھ آجاتے ہیں ، اس لیے ترجمہ ” میرے دشمنوں “ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کفار اور مشرکین کو دوست نہ بناؤ ، یہ فرمایا کہ میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ۔ پھر ” عدوی “ ( میرے دشمنوں) کا ذکر پہلے کیا اور ” عدوکم “ ( اپنے دشمنوں) کا ذکر بعد میں کیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے ، کیونکہ ان کی دشمنی کی بنیاد نہ وطن ہے نہ نسب اور نہ مال ، بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی دشمنی کی وجہ سے اختیار کر رکھی ہے۔ اللہ کی دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی توحید ، اس کے دین اور اس کے رسول کو نہیں مانتے ، اس لیے انہوں نے ان کی شدید مخالفت اور دشمنی اختیار کر رکھی ہے۔” عدوی “ کو ” عدوکم “ سے پہلے لانے کی مناسبت یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کے دشمن پہلے ہیں ، پھر اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ آیت میں کفار و مشرکین کی عداوت کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر کفار کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دوستی سے ممانعت کی کوئی نہ کوئی وجہ بیان کی گئی ہے۔ دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٢٨) ، نسائ (١٤٤) ، مائدہ (٥١، ٥٧) اور سورة ٔ توبہ ( ٢٣، ٢٤) ان تمام وجوہات میں بنیادی بات یہی ہے کہ وہ تمہارے اور تمہارے دین کے دشمن ہیں ، جب تک کافر نہ ہوجاؤ وہ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ دیکھئے سورة ٔ بقرہ (١٢٠) اور سورة ٔ نسا ( ٨٩) ۔- ٢۔ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ ” المودۃ “ ” تلقون ‘ کا مفعول بہ ہے اور اس پر ” بائ “ تاکید کے لیے آئی ہے ، اس صورت میں معنی یہ ہے کہ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو ۔ دوسرا معنی یہ کہ ” تلقون “ کا مفعول بہ محذوف ہے :” ای تلقون الیھم الاخبار بالمودۃ “ یعنی تم دوستی کی وجہ سے ان کی طرف خبریں پہنچاتے ہو ( جن کا اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کو کسی صورت علم نہیں ہونا چاہیے) “۔- ٣۔ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَِق : یعنی انہوں نے تو وہ حق ماننے ہی سے انکار کردیا ہے جو تمہارے پاس آیا ہے اور تم ہو کہ امن کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔- ٤۔ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِ اللہ ِ رَبِّکُمْ :” ان تومنوا باللہ ربکم “ سے پہلے لا محذوف ہے ، یعنی انہوں نے صر ف کفر اور معمولی دشمنی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رشتہ داری اور محبت کے تمام سلسلے قطع کر کے رسول کو اور تمہیں اتنی ایذا دی کہ تم سب کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ، صرف اس وجہ سے کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو ۔ اس جملے کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة ٔ بروج (٨) اور سورة ٔ حج (٤٠) ” یخرجون “ مضارع کا صیغہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ انہوں نے تمہیں نکالا ہے بلکہ وہ تمہیں نکالنے پر ابھی قائم ہیں اور اب بھی تمہیں تمہارے گھروں میں واپس نہیں آنے دے رہے۔ اس میں مسلمانوں کو کفار کی دشمنی کے لیے ابھارا گیا ہے کہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ وہ تمہارے رسول کو اور تمہیں نکال رہے ہیں اور تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہو۔- ٥۔ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِھَادًافِیْ سَبِیْلِیْ ۔۔۔۔۔:” جھادًا “ اور ” ابتغاء مرضاتی “ دونوں ” خرجتم “ کے مفعول لہٗ ہیں اور ” ان کنتم “ شرط کی جزا محذوف ہے جو آیت کے پہلے جملے ” لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیائ “ سے معلوم ہو رہی ہے ، یعنی اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔- ٦۔ تُسِرُّوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ۔۔۔۔: یعنی تم پر تعجب ہے کہ تم چھپ کر ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو ، حالانکہ میں ان باتوں کو جو تم نے چھپائیں اور جو ظاہر کیں تم سے اور ہر ایک سے بڑھ کر جاننے والا ہوں ۔ سو تمہیں یہ سوچ کر بھی ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے کہ تمہارا مالک تمہارے ہر کام سے پوری طرح آگاہ ہے کہ تم اپنی کوئی حرکت اس سے کسی طرح بھی نہیں چھپا سکتے۔- ٧۔ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ : یعنی یہ صرف حاطب (رض) یا کسی مہاجر کی مشرکین مکہ کے ساتھ دوستی کا معاملہ نہیں ، بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا ۔- ٨۔ اس آیت سے مخلصین پر اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت کا اظہار بھی ہورہا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرنے والوں کو ” یایھا الذین امنوا “ کے ساتھ خطاب ہو رہا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت اور گناہ کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا ، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب (رض) کی غلطی سے در گزر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے معاملات میں اس کی سابقہ زندگی کو بھی مد نظر رکھا جائے گا ۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بتاؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو ( یعنی گو دل سے دوستی نہ ہو مگر ایسا دوستانہ برتاؤ بھی مت کرو) حالانکہ تمہارے پاس جو دین حق آ چکا ہے وہ اس کے منکر ہیں ( جس سے ان کا دشمن خدا تعالیٰ ہونا معلوم ہوا جو آیت میں بلفظ عَدُوِّيْ بیان کیا گیا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم کو اس بنا پر کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لے آئے شہر بدر کرچکے ہیں ( یہ بیان ہے عدوکم کا، یعنی وہ صرف اللہ کے دشمن نہیں تمہارے بھی دشمن ہیں، غرض ایسے لوگوں سے دوستی مت کرو) اگر تم میرے راستہ میں جہاد کرنے کی غرض سے اور میری رضامندی ڈھونڈہنے کی غرض سے ( اپنے گھروں سے) نکلے ہو ( کفار کی دوستی جس کا حاصل کفار کی رضا مندی کی فکر ہے اور یہ حق تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے مناسب اعمال کے منافی ہے) تم ان سے چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو ( یعنی اول تو دوستی ہی بری چیز ہے، پھر خفیہ پیغام بھیجنا جو خصوصی ربط وتعلق کی علامت ہے یہ اور زیادہ برا ہے) حالانکہ مجھ کو سب چیزوں کا خوب علم ہے تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر کر کے کرتے ہو (یعنی مثل دوسرے موانع مذکورہ کے یہ امر بھی ان کی دوستی سے مانع ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہے) اور ( آگے اس پر وعید ہے کہ) جو شخص تم میں سے ایسا کرے گا وہ راہ راست سے بہک گیا ( اور انجام گمراہوں کا معلوم ہی ہے آگے ان کی دشمنی کا بیان ہے کہ وہ تمہارے ایسے سخت دشمن ہیں کہ) اگر ان کو تم پر دسترس ہوجاوے تو (فوراً ) اظہار عداوت کرنے لگیں اور (وہ اظہار عداوت یہ کہ) تم پر برائی (اور ضرر رسانی) کے ساتھ دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں ( یہ تو دنیوی نقصان ہے) اور (دینی اضرار یہ کہ) وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ تم کافر ( ہی) ہوجاؤ ( پس ایسے لوگ کب قابل دوستی ہیں اور اگر تم کو دوستی کے بارے میں اپنے اہل و عیال کا خیال ہو تو خوب سمجھ لو کہ) تمہارے رشتہ دار اور اولاد قیامت کے دن تمہارے (کچھ) کام نہ آویں گے خدا (ہی) تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تمہارے سب اعمال کو خوب دیکھتا ہے (پس ہر عمل کا فیصلہ ٹھیک ٹھیک کرے گا، پس اگر تمہارے اعمال موجب سزا ہوں گے تو اس سزا سے اولاد و ارحام بچا نہ سکیں گے، پھر ان کی رعایت میں خدا کے حکم کے خلاف کرنا بہت مذموم امر ہے اور اس سے اموال کا قابل رعایت نہ ہونا اور زیادہ ظاہر ہے، آگے حکم مذکور پر تحریض کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ارشاد ہے کہ) تمہارے لئے ابراہیم ( علیہ السلام) میں اور ان لوگوں میں جو کہ ( ایمان و اطاعت میں) ان کے شریک حال تھے ایک عمدہ نمونہ ہے (یعنی اس بارے میں کفار سے ایسا برتاؤ رکھنا چاہئے، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین نے کیا) جبکہ ان سب نے ( اوقات مختلفہ میں) اپنی قوم ( کے لوگوں) سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن کو تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو ان سے بیزار ہیں ( اوقات مختلفہ اس لئے کہا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جس وقت اول یہ بات اپنی قوم سے کہی تھی اس وقت وہ بالکل تنہا تھے، پھر جو جو آپ کے ساتھ ہوتے گئے کفار سے قطع تعلق قولاً و فعلاً کرتے گئے آگے اس بیزاری کا بیان ہے کہ) ہم تمہارے (یعنی کفار اور ان کے معبودین کے) منکر ہیں (یعنی تمہارے عقائد اور معبودات کی عبادت کے منکر ہیں، یہ تو تبری باعتبار عقیدہ کے ہوئی) اور (بری باعتبار معاملہ اور برتاؤ کے یہ ہے کہ) ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور بعض (زیادہ) ظاہر ہوگیا (کیونکہ بنا عداوت کے اختلاف عقائد ہے اور اب اس کا زیادہ اعلان ہوگیا تو عداوت کا بھی زیادہ اظہار ہوگیا، عداوت اور بغض متقارب ہیں اور دونوں کا جمع کرنا تاکید کے لئے ہے اور یہ عداوت ہم کو تم سے ہمیشہ رہے گی) جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ (غرض ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین نے کفار سے صاف قطع تعلق کردیا) لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی ( جس سے بظاہر ان کے ساتھ محبت و دوستی کا احتمام تھا) کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے ( استغفار سے زیادہ) مجھ کو خدا کے آگے کسی بات کا اختیار نہیں ( کہ دعا کو قبول کرا لوں یا باوجود ایمان نہ لانے کے تم کو عذاب سے بچا لوں، مطلب یہ ہے کہ اتنی بات تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہی تھی جس کا مطلب تم میں سے بعض لوگ مطلق استغفار سمجھ گئے حالانکہ یہاں استغفار کے دوسرے معنی ہیں، یعنی ان کے لئے یہ دعا کرنا کہ وہ ایمان لا کر مغفرت کے مستحق بن جائیں جس کی سب کو اجازت ہے اور واقع میں وہ قطع تعلق کے خلاف بھی نہیں مگر ظاہری صورت تعلق اور ظاہری معنی استغفار کے اعتبار سے صورةً اس کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے، یہ گفتگو تو ابراہیم کی اپنی قوم سے ہوئی، آگے ان کی دعا کا مضمون ہے، یعنی کفار سے قطع تعلق کر کے انہوں نے اس بارے میں حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ) اے ہمارے پروردگار ہم (کفار سے اعلان برات و عداوت کے معاملے میں) آپ پر توکل کرتے ہیں اور (آپ ہی ہماری تمام مہمات و مشکلات کی کفالت اور دشمنوں کی ایذاؤں سے حفاظت فرما دیں گے و نیز ایمان لانے میں) آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور (اعتقاد رکھتے ہیں کہ) آپ ہی کی طرف ( سب کو) لوٹنا ہے ( پس اس اعتقاد کی وجہ سے ہم نے جو کچھ کفار سے اعلان برات کیا ہے محض خلوص سے کیا ہے، اس میں کوئی دنیوی غرض نہیں اور اس سے مقصود تفاخر بھی نہیں بلکہ عرض حال بغرض سوال ہے اور) اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ معاف کر دیجئے بیشک آپ زبردست حکمت والے ہیں (اور ہر طرح کی آپ کو قدرت حاصل ہے) بیشک ان لوگوں میں (یعنی ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین میں) تمہارے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے عمدہ نمونہ ہے جو اللہ ( کے سامنے جانے) کا اور قیامت کے دن (کے آنے) کا اعتقاد رکھتا ہو (یعنی یہ اعتقاد مقتضی ہے اس بارے میں اتباع ابراہیمی کو) اور (آگے دوسرے طرز پر وعید ہے جیسے اس سے پہلے ومن یفعلہ میں وعید آ چکی ہے یعنی) جو شخص ( اس حکم سے) روگردانی کرے گا سو ( اسی کا ضرر ہوگا کیونکہ) اللہ تعالیٰ ( تو) بالکل بےنیاز اور (بوجہ جامع الکمالات ہونے کے) سزا وار حمد ہے۔- - معارف و مسائل - اس سورت کا ابتدائی حصہ کفار و مشرکین سے موالات اور دوستانہ تعلقات رکھنے کی حرمت و ممانعت میں آیا ہے اور اس کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے :۔- شان نزول :- تفسیر قرطبی میں قشیری اور ثعلبی کے حوالہ سے مذکور ہے کہ غزوہ بدر کے بعد فتح مکہ سے پہلے مکہ مکرمہ کی ایک مغنیہ عورت جس کا نام سارہ تھا، پہلے مدینہ طیبہ آئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ کیا تم ہجرت کر کے آئی ہو تو کہا کہ نہیں، آپ نے پوچھا کہ کیا پھر تم مسلمان ہو کر آئی ہو ؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ پھر یہاں کس غرض سے آئی ہو ؟ اس نے کہا کہ آپ لوگ مکہ مکرمہ کے اعلیٰ خاندان کے لوگ تھے، آپ ہی میں میرا گزارہ مشکل ہوگیا، میں سخت حاجت و ضرورت میں مبتلا ہو کر آپ سے مدد لینے کے لئے یہاں آئی ہوں، آپ نے فرمایا کہ تم تو مکہ مکرمہ کی پیشہ ور مغنیہ ہو وہ مکہ کے نوجوان کیا ہوئے ( جو تجھ پر روپیہ پیسے کی بارش کیا کرتے تھے) اس نے کہا کہ واقعہ بدر کے بعد ( ان کی تقریبات اور جشن طرب ختم ہوچکے ہیں) اس وقت سے کسی نے مجھے نہیں بلایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی عبدالمطلب کو اس کی امداد کرنے کی ترغیب دی، انہوں نے اس کو نقد اور پوشاک وغیرہ دے کر رخصت کیا۔- اور یہ وہ زمانہ تھا جب صلح حدیبیہ کے معاہدہ کو کفار قریش نے توڑ ڈالا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر کے اس کی خفیہ تیاری شروع کر رکھی تھی اور یہ دعا بھی کی تھی کہ ہمارا راز اہل مکہ پر قبل از وقت فاش نہ ہو، ادھر مہاجرین اولین میں ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ تھے جو اصل سے یمن کے باشندے تھے، مکہ مکرمہ میں آ کر مقیم ہوگئے تھے وہاں ان کا کوئی کنبہ قبیلہ نہ تھا وہیں مسلمان ہوگئے، پھر ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آگئے، ان کے اہل و عیال بھی مکہ ہی میں تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بہت سے صحابہ کرام کی ہجرت کے بعد مشرکین مکہ ان مسلمانوں کو جو مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے ستاتے اور پریشان کرتے تھے، جن مہاجرین کے خویش و عزیز مکہ میں موجود تھے، ان کو تو کسی درجہ میں تحفظ حاصل تھا، حاطب کو یہ فکر تھی کہ میرے اہل و عیال کو دشمنوں کی ایذاؤں سے بچانے والا وہاں کوئی نہیں، انہوں نے اپنے اہل و عیال کے تحفظ کا موقع غنیمت جانا کہ اہل مکہ پر کچھ احسان کردیا جائے تو وہ ان کے بچوں پر ظلم نہ کریں گے۔- ان کو اپنی جگہ یہ یقین تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو حق تعالیٰ فتح ہی عطا فرمائیں گے، آپ کو یا اسلام کو یہ راز فاش کردینے سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، اگر میں نے ان کو کوئی خط لکھ کر اس کی اطلاع کردی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ تم لوگوں پر حملہ کرنے کا ہے تو میرے بچوں کی حفاظت ہوجائے گی، یہ غلطی ان سے ہوگئی کہ ایک خفیہ خط اہل مکہ کے نام لکھ کر اس جانے والی عورت سارہ کے سپرد کردیا (قرطبی و مظہری) ۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس معاملہ کی اطلاع دے دی اور یہ بھی آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ عورت اس وقت روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے۔- صحیحین بخاری و مسلم میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اور ابو مرثد اور زبیر بن عوام کو حکم دیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس عورت کا تعاقب کرو وہ تمہیں روضہ خاخ میں ملے گی اور اس کے ساتھ حاطب بن ابی بلتعہ کا خط بنام مشرکین مکہ ہے اس کو پکڑ کر وہ خط واپس لے لو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حسب الحکم تیزی کے ساتھ تعاقب کیا اور ٹھیک اسی جگہ جہاں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی تھی اس عورت کو اونٹ پر سوار جاتے ہوئے پکڑ لیا اور ہم نے کہا کہ وہ خط نکالو جو تمہارے پاس ہے، اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی کسی کا خط نہیں، ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا دیا اس کی تلاشی لی مگر خط ہمیں ہاتھ نہ آیا، لیکن ہم نے دل میں کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر غلط نہیں ہو سکتی، ضرور اس نے خط کو کہیں چھپایا ہے، تو اب ہم نے اس کو کہا کہ یا تو خط نکال دو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتروائیں گے۔- جب اس نے دیکھا کہ اب ان کے ہاتھ سے نجات نہیں تو اپنے ازار میں سے یہ خط نکالا، ہم یہ خط لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے، حضرت عمر بن خطاب نے واقعہ سنتے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور سب مسلمانوں سے خیانت کی کہ ہمارا راز کفار کو لکھ دیا، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب بن ابی بلتعہ سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے اس حرکت پر آمادہ کیا ؟ حاطب ابن ابی بلتعہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ایمان میں اب بھی ذرا فرق نہیں ہے، بات یہ ہے کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں اہل مکہ پر کچھ احسان کر دوں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کو کچھ نہ کہیں، میرے سوا دوسرے حضرات مہاجرین میں کوئی ایسا نہیں جس کا کنبہ قبیلہ وہاں موجود نہ ہو جو ان کے اہل و عیال کی حفاظت کرے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب کا بیان سن کر فرمایا کہ اس نے سچ کہا ہے اس کے معاملہ میں خیر کے سوا کچھ نہ کہو، حضرت فاروق اعظم نے ( اپنی غیرت ایمانی سے) پھر اپنی بات دھرائی اور ان کے قتل کی اجازت مانگی، آپ نے فرمایا کہ کیا یہ اہل بدر (یعنی غزوہ بدر کے شرکاء) میں سے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے سب شرکاء غزوہ بدر کی مغفرت کا اور ان کے لئے وعدہ جنت کا اعلان فرما دیا ہے، یہ سن کر حضرت فاروق اعظم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی حقیقت کا علم رکھتے ہیں (یہ بخاری کی روایت کتاب المغازی غزوہ بدر میں ہے، از ابن کثیر) اور بعض روایات میں حاطب کا یہ قول بھی ہے کہ میں نے یہ کام اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے ہرگز نہیں کیا، کیونکہ میرا یقین تھا کہ آپ کو فتح ہی ہوگی، اہل مکہ کو خبر بھی ہوگئی تو آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔- اس واقعہ کی بناء پر سورة ممتحنہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئی جن میں اس واقعہ پر سرزنش اور تنبیہ اور مسلمانوں کو کفار کے ساتھ کسی قسم کے دوستانہ تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا گیا۔- (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بالْمَوَدَّةِ ” یعنی اے ایمان والو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو دوستی کے پیغام دو “ اس میں اسی واقعہ مذکورہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح کا خط کفار کو لکھنا ان کو دوستی کا پیغام دینا ہے اور آیت میں لفظ کفار کو چھوڑ کر عدوی اور عدو کم کا عنوان اختیار کرنے میں اول تو اس حکم کی علت اور دلیل کی طرف اشارہ ہوگیا کہ اپنے اور خدا کے دشمنوں سے دوستی کی توقع رکھنا سخت دھوکہ ہے اس سے بچو، دوسرے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ کافر جب تک کافر ہے وہ کسی مسلمان کا جب تک کہ وہ مسلمان ہے دوست نہیں ہوسکتا، وہ خدا کا دشمن ہے تو مسلمان جو خدا کی محبت کا دعویدار ہے اس سے اس کی دوستی کیسے ہو سکتی ہے۔- وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ حق سے مراد قرآن یا اسلام ہے، اس آیت میں ان کا کفر جو اصل سبب ہے عداوت کا اس کا بیان کرنے کے بعد ان کی ظاہری عداوت کو بھی بتلایا کہ انہوں نے تم کو اور تمہارے رسول کو ان کے وطن عزیز سے نکالا اور اس نکالنے کی وجہ کوئی دنیاوی سبب نہ تھا بلکہ صرف تمہارا ایمان اس کا سبب تھا، تو یہ بات کھل گئی کہ جب تک تم مومن ہو وہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جیسا حاطب نے خیال کیا تھا کہ ان پر کچھ احسان کر دوں گا تو وہ میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں گے، یہ خیال غلط ہے کیونکہ وہ تمہارے دشمن ایمان کی وجہ سے ہیں، جب تک خدانخواستہ تمہارا سلب نہ ہوجاوے ان سے کسی دوستی وتعلق کی توقع رکھنا دھوکہ ہے۔- (آیت) اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ ، اس میں بھی اشارہ اس طرف ہے کہ اگر تمہاری ہجرت واقعی اللہ کے لئے اور اس کی رضا جوئی کے لئے تھی تو کسی کافر دشمن خدا سے اس کی کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تمہاری کوئی رعایت کرے۔- ڰ تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بالْمَوَدَّةِ ڰ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَيْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ، اس میں یہ بھی بتلادیا کہ جو لوگ کفار سے خفیہ دوستی رکھیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی یہ حرکت پوشیدہ رہ جائے گی، اللہ تعالیٰ کو ان کے چھپے اور کھلے ہر حال اور عمل کی خبر ہے، جیسا کہ واقعہ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی خبردار کر کے سازش کو پکڑوا دیا۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ ٠ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہِ رَبِّكُمْ ٠ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ ٠ ۤ ۖ تُسِرُّوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ٠ ۤ ۖ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَيْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ٠ ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْہُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
دشمنان خدا اور رسول سے دوستی کی ممانعت - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولئک تلقون الیھم بالمودۃ، اے ایمان والو تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا کہ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگو)- ایک قول کے مطابق آیت کا نزول حاطب (رض) بن ابی بلتعہ کے بارے میں ہوا تھا۔ انہوں نے خفیہ طور پر کفار قریش کو خط لکھوا کر انہیں خیر خواہانہ مشورے دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دے دی۔- آپ نے حاطب کو طلب کرکے ان سے خط کے متعلق استفسار کیا، انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا آپ نے ان سے پوچھا کہ آخر تمہیں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ انہوں نے عرض کیا بخدا جب سے میں مسلمان ہوا ہوں مجھے اللہ کے بارے میں کبھی کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں ہوا، لیکن میں قریش کے اندر ایک اجنبی کی حیثیت سے رہتا تھا۔ یہاں مدینے آچکا ہوں لیکن مکہ میں میرے بچے اور میرا مال ہے۔- میں نے چاہا کہ انہیں نصیحت آمیز خط لکھ کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کا کوئی انتظام کرلو، حضرت عمر (رض) کو یہ سن کر طیش آگیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہوکر عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ “- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ابن خطاب ، حوصلہ کرو، حاطب معرکہ بدر میں شریک ہوئے ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے شرکاء پر اوپر سے نظر ڈال کر یہ فرمادیا ہو ” اب تم جو چاہو کرو۔ میں تمہیں بخش دوں گا۔ “- ہمیں عبداللہ بن محمد نے، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے اور انہوں نے عروہ الزبیر سے درج بالا آیت کے سلسلے میں اسی قسم کی روایت کی ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حاطب (رض) نے جو اقدام کیا تھا وہ ظاہری طور پر ارتداد کا موجب نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ اپنی اولاد اور اپنے مال کے دفاع کے لئے ان کا یہ اقدار جائز ہے جس طرح جان کے خطرے کے وقت تقیہ کرنا جائز ہوجاتا ہے اور اگر اس موقعہ پر کلمہ کفر کہہ کر کفر کے اظہار کی ضرورت بھی پیش آجائے تو اس کی بھی اباحت ہوتی ہے۔- اسی خیال کے تحت انہوں نے خط لکھا تھا اس بنا پر ان کا یہ خط انہیں کافر قرار دینے کا موجب نہیں بنا۔ اگر یہ خط اس امر کا موجب بن جاتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ضرور توبہ کا مطالبہ کرتے لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے توبہ نہیں کرائی بلکہ ان کے بیان کی تصدیق فرمائی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حاطب (رض) مرتد نہیں بن گئے تھے۔- حضرت عمر (رض) نے کی گردن اڑا دینے کی اجازت اس بنا پر مانگی تھی کہ ان کا خیال یہ تھا کہ حاطب (رض) نے یہ قدم کس تاویل کے بغیر بدنیتی کی بنا پر اٹھایا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو حاطب (رض) کے قتل سے اس لئے روک دیا تھا کہ وہ معرکہ بدر میں شریک تھے اور پھر یہ فرمایا تھا کہ (ما یدریک لعل اللہ اطلع علی اھل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم۔ تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر اوپر سے نظر ڈال کر انہیں فرما دیا ہو کہ اب تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) کے بدری ہونے کو انہیں قتل نہ کرنے کی علت قرار دی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے سمجھا ہے کیونکہ ان کا بدری ہونا اس بات کے لئے مانع بن سکتا تھا کہ اگر وہ کفر کرلیتے تو جہنم کی آگ کے مستحق قرار نہ پاتے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا مفہوم یہ کہ ” تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ کو شاید اس بات کا علم ہے کہ اہل بدر اگر گناہ کے مرتکب بھی ہوں گے تو موت سے پہلے انہیں توبہ ضرور نصیب ہوجائے گی۔- جس شخص کے بارے میں اللہ کو یہ علم ہو کہ اسے توبہ نصیب ہوجائے گی اس کے قتل کا حکم دینا جائز نہیں ہے الایہ کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے جس کی بنا پر توبہ سے اس کا سلسلہ منقطع ہوجائے اس صورت میں اس کے قتل کا حکم دیا جاسکتا ہے ۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہو کہ اللہ کے علم میں یہ بات ہے کہ معرکہ بدر کے شرکاء اگرچہ گناہ کا ارتکاب بھی کرلیں پھر بھی انہیں رجوع الی اللہ اور توبہ نصیب ہوجائے گی۔- آیت میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ اگر کسی کو اپنے بال بچوں اور اپنے مال کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو اس کے لئے کفر کے اظہار کی خاطر تقیہ کرنے کی اباحت نہیں ہوگی۔ اور اس کی حیثیت وہ نہیں ہوگی جو اپنی جان کو خطرے کے پیش نظر تقیہ کی ہوتی ہے کیونکہ حضرت حاطب (رض) نے اپنے اہل وعیال اور اپنے مال کو نقصان پہنچنے کے اندیشے کے پیش نظر جو قدم اٹھایا تھا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسے اقدام سے منع فرمایا ہے۔- ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے کہے ۔” میں تمہارے بیٹے کو قتل کر دوں گا الایہ کہ تم کفر کا اظہار کرو۔ “ تو ایسی صورت میں اس شخص کے لئے اظہار کفر کی گنجائش نہیں ہوگی۔ - بعض کا یہ قول ہے کہ اگر کسی شخص کی کسی پر کوئی رقم ہو اور وہ اس سے کہے کہ میں اس رقم کا اقرار اسی وقت کروں گا جب تم اس میں کچھ کمی کردو گے، اگر وہ رقم میں کمی کردے تو اس کا یہ اقدام درست نہیں ہوگا۔- اس قول کے قائل نے مال کے ضیاع کے خطرے کو رقم میں کمی کرنے پر اکراہ کے بمنزلہ قرار دیا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے۔ ہم نے اوپر جو کچھ بیان کیا ہے وہ ہمارے قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔- مال اور اہل وعیال کے ضیاع کا خطر تقیہ کو مباح نہیں کرتا ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر ہجرت فرض کردی تھی اور ان کے اہل وعیال اور اموال کی خاطر انہیں معذور قرار نہیں دیا تھا۔ چناچہ ارشاد باری ہے (قل ان کان اباء کم وابناء کم واخوانکم وعشیرتکم آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے آباء ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی اور تمہارا خاندان) تا آخر آیت - نیز فرمایا (قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھا جروا فیھا، انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے)
بالخصوص اے حاطب تم دین میں میرے دشمنوں میں اپنے دشمنوں یعنی کفار مکہ کو دوست مت بناؤ کہ خط بھیج کر ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو حالانکہ اے حاطب وہ کتاب و رسول کے منکر ہیں وہ رسول اکرم کو اور تمہیں محض ایمان لانے کی وجہ سے مکہ سے نکال چکے ہیں۔- اے حاطب اگر تم مکہ سے مدینہ منورہ جہاد کرنے کی غرض سے اور میری خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہو تو پھر ان سے خفیہ طور پر خط بھیج کر دوستی کی باتیں مت کرو اور اے حاطب میں تمہارے اس خفیہ خط یا یہ کہ تصدیق سے اچھی طرح واقف ہوں اور جو تم نے عذر پیش کیا یا یہ کہ تمہاری توحید سے بھی واقف ہوں اے گروہ مومنین تم میں سے حاطب کی طرح جو کرے گا وہ راہ حق کو چھوڑ دے گا۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا (الخ)- امام بخاری و مسلم نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ مجھے اور حضرت زبیر اور مقداد بن اسود کو رسول اکرم نے روانہ فرمایا اور فرمایا چلو یہاں تک کہ روضہ پر پہنچو وہاں ایک بڑھیا عورت ملے گی اس کے پاس ایک خطہ ہے وہ لے آؤ۔ چناچہ ہم چلے یہاں تک کہ روضہ پر پہنچے وہاں وہی بڑھیا تھی ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال وہ بولی میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا خط نکال ورنہ تیری تلاشی لیتے ہیں۔ چناچہ اس نے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکالا ہم اسے لے کر رسول اکرم کی خدمت میں آئے۔ چناچہ جب اسے کھولا تو وہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے کچھ مشرکین کے نام تھا کہ اس میں ان مشرکین کو رسول اکرم کی بعض باتوں سے مطلع کیا تھا آپ نے دیکھ کر فرمایا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے بارے میں جلدی نہ فرمایے میں قریش کے ساتھ لٹکا ہوا ہوں مگر ان میں سے نہیں ہوں اور جو آپ کے ساتھ مہاجرین ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار ہیں جو ان کے گھر والوں اور ان کے اموال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ چناچہ جب ان میں میری رشتہ داری کی کوئی صورت نہیں تو میں نے چاہا کہ ان پر کچھ احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں اور میں نے کفر و ارتداد کی وجہ سے ایسا نہیں کیا اور نہ میں کفر کو پسند کرتا ہوں تو رسول اکرم نے فرمایا حاطب سچ کہتے ہیں ان ہی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں کہ اے ایمان والو تم میرے دشمنوں۔ (الخ)
آیت ١ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَـآئَ ” اے اہل ِایمان تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو “- یعنی تم لوگ کفار و مشرکین کی خیر خواہی اور بھلائی کا مت سوچو۔ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے اور اچھے تعلقات بنانے کی کوشش مت کرو۔ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا جب سردارانِ قریش کے نام حضرت حاطب (رض) بن ابی بلتعہ کا خط پکڑا گیا۔- تُـلْقُوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ” تم ان کی طرف دوستی اور محبت کے پیغامات بھیجتے ہو “- وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ ” حالانکہ انہوں نے انکار کیا ہے اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے۔ “- یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ ” وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم لوگوں کو صرف اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں “- اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ” کہ تم ایمان رکھتے ہو اللہ ‘ اپنے رب پر ۔ “- اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ ” اگر تم نکلے تھے میرے راستے میں جہاد کرنے اور میری رضاجوئی کے لیے (تو تمہارا یہ طرزعمل اس کے منافی ہے) “- تُسِرُّوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ” تم انہیں خفیہ پیغامات بھیجتے ہو محبت اور دوستی کے “- وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَـآ اَعْلَنْتُمْ ” اور میں خوب جانتا ہوں جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔ “- وَمَنْ یَّـفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ ۔ ” اور جو کوئی بھی تم میں سے یہ کام کرے تو وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “- یہ طویل آیت مدنی سورتوں کے عمومی مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :1 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کر دی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو ۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا ۔ قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں ، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے ہیں ۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی ۔ اس نے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مالی مدد مانگی ۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی ۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور دس دینار روپے دیے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے ۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا ۔ آپ نے فوراً حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود ( رضی اللہ عنہم ) کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ ، روضہ خاخ کے مقام پر ( مدینہ سے 12 میل بجانب مکہ ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے ۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو ۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا ۔ نہ دے تو اس کو قتل کر دینا ۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی ۔ انہوں نے اس سے خط مانگا ۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ۔ انہوں نے تلاشی لی ۔ مگر کوئی خط نہ ملا ۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے ۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے ۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ( مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں ۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب سے پوچھا ، یہ کیا حرکت ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں ۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہو گیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں ۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں ، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا ۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو ۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑیں ۔ ( حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے ، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم ، حاطب نے تم سے سچی بات کہی ہے ، یعنی ان کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا ، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا ۔ حضرت عمر نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں ، اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے ۔ تمہیں کیا خبر ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو ، میں نے تم کو معاف کیا ۔ ( اس آخری فقرے کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں ۔ کسی میں ہے قد غفرت لکم ، میں نے تمہاری مغفرت کر دی ۔ کسی میں ہے انی غافر لکم ، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں ۔ اور کسی میں ہے ساغفر لکم ۔ میں تمہیں بخش دوں گا ) ۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری ، مسلم ، احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر طبری ، ابن ہشام ، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت وہ ہے جو خود حضرت علی کی زبان سے ان کے کاتب ( سیکرٹری ) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد میں راویوں تک پہنچائی ۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔
1: حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کے جس واقعے کے پس منظر میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ہیں۔ وہ اُوپر سورت کے تعارف میں تفصیل سے عرض کردیا گیا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کی کیا حد ہونی چاہئیں؟ اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ آل عمران (آیت ۳:۲۸) کا حاشیہ۔