Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سو فیصد نفع بخش تجارت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ تعالیٰ کو کونسا ہے؟ اس پر اللہ عزوجل نے یہ سورت نازل فرمائی ، جس میں فرما رہا ہے کہ آؤ میں تمہیں ایک سراسر نفع والی تجارت بتاؤں جس میں گھاٹے کی کوئی صورت ہی نہیں جس سے مقصود حاصل اور ڈر زائل ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاؤ اپنا جان مال اس کی راہ میں قربان کرنے پر تل جاؤ ، جان لو کہ یہ دنیا کی تجارت اور اس کے لئے کدو کاوش کرنے سے بہت ہی بہتر ہے ، اگر میری اس بتائی ہوئی تجارت کے تاجر تم بن گئے تو تمہاری ہر لغزش سے ہر گناہ سے میں درگزر کرلوں گا اور جنتوں کے پاکیزہ محلات میں اور بلند و بالا درجوں میں تمہیں پہنچاؤں گا ، تمہارے بالا خانوں اور ان ہمیشگی والے باغات کے درختوں تلے سے صاف شفاف نہریں پوری روانی سے جاری ہوں گی ، یقین مانو کہ زبردست کامیابی اور اعلیٰ مقصد وری یہی ہے ، اچھا اس سے بھی زیادہ سنو تم جو ہمیشہ دشمنوں کے مقابلہ پر میری مدد طلب کرتے رہتے ہو اور اپنی فتح چاہتے ہو میرا وعدہ ہے کہ یہ بھی تمہیں دوں گا ادھر مقابلہ ہوا ادھر فتح ہوئی ادھر سامنے آئے ادھر فتح و نصرت نے رکاب بوسی کی اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔ ( ترجمہ ) ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمیں ثابت قدمی عنایت فرمائے گا ، اور فرمان ہے ( ترجمہ ) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور غیر فانی عزت والا ہے ، یہ مدد اور یہ فتح دنیا میں اور وہ جنت اور نعمت آخرت میں ان لوگوں کے حصہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہیں اور دین اللہ کی خدمت میں جان و مال سے دریغ نہ کریں اسی لئے فرما دیا کہ اے نبی ان ایمان والوں کو میری طرف سے یہ خوش خبری پہنچا دو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے ؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا " اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ " 9 ۔ التوبہ :111) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی تمام دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے والی اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے والی اللہ کی ذات ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ اہل ایمان کو بنایا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ جو وہ ارادہ کرچکا ہے وہ پورا کرکے رہے گا اور یہ کام تمہارے ہاتھوں ہوگا۔ تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ کے وعدوں پر مکمل اعتماد کرو اللہ کے رسول کی پوری طرح اطاعت کرو۔ پھر اپنا مال، اپنا وقت، اپنی قابلیت حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں لڑا دو ۔ اور یہ تمہارے لیے ایسی پُر منفعت تجارت اور نفع کا سودا ہے جس میں کبھی خسارے کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ اس کے عوض آخرت میں تمہیں دو فائدے یقینی طور پر حاصل ہوں گے ایک یہ کہ تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بذات خود بڑی کامیابی ہے۔ دوسرا یہ کہ تمہارے گناہ اور خطائیں معاف کرکے نعمتوں والے باغات میں داخل کرے گا۔ جہاں تم ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے اور یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (اسی سے ملتا جلتا مضمون پہلے سورة توبہ کی آیت نمبر ١١١ کے تحت حاشیہ نمبر ١٢٤ میں گزر چکا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ ۔۔۔۔۔: یہی مضمون ایک اور انداز میں سورة ٔ توبہ (١١١) میں بیان ہوا ہے ، تفسیر ہاں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں ایمان و جہاد عذاب الیم سے نجات کی بشارت سنائی ہے ، جب کہ سورة ٔ توبہ (٣٨، ٣٩) میں ترک جہادپر عذاب الیم کی وعید سنائی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (آگے اول جہاد کا ثمرہ آخرت پھر ثمرہ دنیویہ کا وعدہ کر کے ترغیب دیتے ہیں کہ) اے ایمان والو کیا میں تم کو ایسی سوداگری بتلاؤں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچا لے (وہ یہ ہے کہ) تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو ( جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کرے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں (بنے) ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اور (اس ثمرہ حقیقیہ اخرویہ کے علاوہ) ایک اور ثمرہ (دنیویہ) بھی ہے کہ تم اس کو (بھی خاص طور پر) پسند کرتے ہو (یعنی) اللہ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی ہے (اس کا خاص طور پر محبوب ہونا اس لئے ہے کہ انسان طبعاً ثمرہ عاجلہ بھی چاہتا ہے) اور (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ( ان تمام امور کی) مومنین کو بشارت دے دیجئے (چنانچہ فتح و نصرت کی پیشین گوئی کا ظہور اسلامی فتوحات سے ظاہر ہے آگے اصحاب عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ یاد دلا کر نصرت دین کی ترغیب دیتے ہیں کہ) اے ایمان والو تم اللہ کے (دین کے) مددگار ہوجاؤ ( اس طریقہ سے جو تمہارے لئے مشروع ہے یعنی جہاد) جیسا کہ (حواربین اپنی شریعت کے طریقے کے موافق ناصر دین ہوئے تھے جبکہ لوگ کثرت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن اور مخالفت تھے اور جبکہ) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے (ان) حواریین سے فرمایا کہ اللہ کے واسطے میرا کون مددگار ہوتا ہے، وہ حواری بولے ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں (چنانچہ ان حواریین نے دین کی یہ مدد کی کہ اس کی اشاعت میں کوشش کی) سو (اس کوشش کے بعد) بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے (پھر ان میں باہم اختلاف مذہبی سے عداوت اور خانہ جنگیاں ہوئیں یا مذہبی گفتگو ہوئی) سو ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں تائید کی سو وہ غالب ہوگئے (اسی طرح تم دین محمدی کے لئے کوشش اور جہاد کرو اور اگر ابتداء ان خانہ جنگیوں کی کفار کی طرف سے ہو تو اس سے دین عیسوی میں جہاد کا ہونا لازم نہیں آتا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ١٠- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔- تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم، میں بتائوں تمہیں وہ تجارت جو تم کو عذاب الیم سے بچا دے) تا قول باری (نصر من اللہ وفتح قریب، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح) اس کا شمار بھی دلائل نبوت میں ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت اور فتح کا وعدہ فرمایا تھا اور ایمان لانے والوں کے حق میں یہ وعدہ پورا ہوگیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتا دوں جو تمہیں آخرت میں دردناک عذاب سے بطالے۔ ایمان میں سچے رہو اور اپنی جان و مال سے جہاد کرو یہ جہاد تمہارے اموال سے بہتر ہے اگر تم ثواب خداوندی کی تصدیق کرنے والے ہو۔- شان نزول : تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ (الخ)- ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن میدان جنگ سے بھاگنے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اور نیز سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتلاؤں الخ تو اس پر مسلمان بولے کاش ہمیں اس تجارت کا علم ہوجاتا کہ وہ کیا ہے تو ہم اس میں اپنے مالوں اور گھر والوں کو دے دیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :13 مشرکین کو ناگوار ہو ، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں ، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں ۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو ۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے ، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے ۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین ، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے ۔ یہ کام اسے بہرحال کر کے رہنا ہے ۔ کافر اور مشرک مان لیں تو ، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو ، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا ۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہو چکا ہے ۔ ایک ، سورہ توبہ آیت 33 میں ۔ دوسرے ، سورہ فتح آیت 28 میں ۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 32 ۔ جلد پنجم ، الفتح ، حاشیہ 51 ) ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :14 تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال ، وقت ، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ( ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 106 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: تجارت میں کوئی چیز کسی کو دے کر اُس کی قیمت حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح ایک مسلمان اپنی جان و مال اﷲ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے صلے میں جنت اور عذاب سے رہائی عطا فرماتے ہیں۔ دیکھئے سورۃ توبہ (۹:۱۱۱)