2۔ 1 یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر پوچھنے کی جرت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (مسند احمد)
[٢] قول وفعل کا تضاد بہت بری خصلت ہے :۔ دوسری اور تیسری آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ انسان دوسروں کو ایسی باتوں کی نصیحت کرے جن پر وہ خود عمل نہ کرتا ہو۔ مثلاً دوسروں کو اور بالخصوص اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرے کہ سچ بولنا بہت اچھی عادت ہے لہذا ہمیشہ سچ بولا کرو۔ لیکن خود ان سے ایسی باتیں کہے جن سے اس کا جھوٹ واضح ہوجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسی لاف زنی مت کرو یا ایسی شیخیاں مت بگھارو جن پر تم عمل پیرا ہو ہی نہیں سکتے، انسان کے قول اور فعل کا تضاد بہت بری خصلت ہے۔ جس سے انسان لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اللہ تو ایسی بات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے لیکن اس کو نباہنا آسان نہیں ہوتا لہذا جو بات کرو سوچ سمجھ کر کرو۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ : ان آیات میں ان لوگوں پر تعجب اور شدید ناراضی کا اظہار ہے جو وہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔ اس میں کئی طرح کے لوگ شامل ہیں ، عبد اللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں :’ ’ ہم نے آپس میں یہ ذکر کیا کہ کون ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے اور آپ سے پوچھے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب ہے ، مگر ہم میں سے کوئی بھی نہ اٹھا ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری طرف ایک آدمی بھیجا اور ہمیں جمع کرنے کے بعد یہ سورت یعنی سورة ٔ صف پوری پڑھ کر سنائی “۔ ( مسند احمد : ٥، ٤٥٢، ح : ٢٣٧٨٨) مسند احمد کے محققین نے فرمایا :“ امناق صحیح علی شرط الشیخین “ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے ان آیات کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :( کان ناس من المومنین قبل ان یفرض الجھاد یقولون لوددنا ان اللہ دل علی احب الاعمال الیہ فنعمل بہ ، فاخبر اللہ نبیہ ان احب الاعمال الیہ ایمان باللہ لا شک فیہ ، وجھاد اھل معصیتہ الذین خالفوا الایمان ولم یقروا بہ فلما نزل الجھاد ، کرہ ذلک اناس من المومنین وشق علیھم امرہ، فقال اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ) (یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ) ( الصف : ٢) (طبری : ٢٢، ٦، ح : ٣٤٣٥٩)” مومنوں میں سے کچھ لوگ جہاد فرض ہونے سے پہلے کہتے تھے “۔ ” ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہاں سب اعمال سے زیادہ محبوب عمل بتائے تو ہم وہ کریں “۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا کہ تمام اعمال میں سے محبوب وہ ایمان باللہ ہے جس میں کوئی شک نہ ہو اور اس کی نافرمانی کرنے والوں سے جہاد ہے جنہوں نے ایمان کی مخالفت کی اور اس کا اقرار نہیں کیا ۔ پھر جب جہاد ( کا حکم) نازل ہوا تو مومنوں میں سے کچھ لوگوں نے اسے ناپسند لوگو جو ایمان لائے ہو کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے “۔ (یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ )” اے لوگو جو ایمان لائے ہو کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے “۔- اس سے معلوم ہوا کہ ان آیات سے مراد وہ لوگ ہیں جو جہاد فرض ہونے سے پہلے اس کی تمنا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ سب سے محبوب عمل کون سا ہے تو ہم وہ کریں گے ، مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اس سے گریز کیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَج فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہ ِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃًج وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَج لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَآاِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍط قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌج وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰیقف وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ) (النسائ : ٧٧، ٧٨)” کیا تو نے ان لوگوں دیکھا جس نے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ ، لوگوں سے ڈرنے لگے ، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انہوں نے کہا اے ہمارے رب تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا ، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی ۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں پالے گی ، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو “۔ اور فرمایا :(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌج فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْھَا الْقِتَالُلا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ) ( محمد : ٢٠)” اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی ؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے ، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو “۔ اسی طرح وہ لوگ بھی مراد ہیں جنہوں نے تمہیں کا تھا کہ ہم جنگ میں پیٹھ نہیں دکھائیں گے ، مگر اس عہد پر قائم نہ رہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُوا اللہ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَط وَکَانَ عَھْدُ اللہ ِ مَسْئُوْلا ) ( الاحزاب : ١٥)” حالانکہ بلا شبہ یقینا اس سے پہلے انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد ، ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے “۔- ٢۔” لم تقولون مالا تفعلون “ کے الفاظ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایسے کاموں کا دعویٰ کرتے ہیں جو انہوں نے نہ کیے ہیں نہ کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ ہم نے جہاد کیا ، ہم نے دشمن کا منہ موڑ دیا ، ہم نے یہ کیا اور وہ کیا ، حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہوتا ، ان کی خواہش ان کارناموں پر اپنی تعریف کی ہوتی ہے جو انہوں نے نہیں کیے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَـلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِج وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ )” ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان ( کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انہوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان ( کاموں) پر کی جائے جو انہوں نے نہیں کیے ، پس تو انہیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہرگز خیال نہ کر اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے “۔- ٣۔ لم تقولون مالا تفعلون “ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی سے کوئی بھی ایسا وعدہ کرتے ہیں جسے پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عبد اللہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میری امی نے مجھے بلایا ، جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے ، کہنے لگی :” آؤ، میں تمہیں کچھ دو “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا :( وما اردت ان تعطیہ ؟ ) ” تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ “ اس نے کہا :” میں اسے کھجوریں دوں گی “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اما انک لو لم تعطیہ شیئا کتبت علیک کذبۃ) ( ابو داؤد الادب ، باب التشدید فی الکذب :(٤٩٩، وقال الالبانی حسن)” یاد رکھو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا “۔- ٤۔ بعض حضرات اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ آدمی جو عمل خود نہ کرتا ہو کسی دوسرے کو بھی اس کی دعوت نہ دے ، حالانکہ یہاں اس کام کے وعدے یا دعوے پر سر زنش ہے جو انسان نہ کرتاہو ، ایسے کام کی دعوت پر سرزش نہیں ۔ فرائض پر عمل اور ان کی دعوت تو ہر ایک پر لازم ہے ، اگر ان کی دعوت دے مگر خود عمل نہ کرے تو اس پر واقعی گرفت ہے ، مگر وہ ترک عمل پر ہے دعوت پر نہیں ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ کی آیت (٤٤) (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ “ کی تفسیر ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر خود عمل نہ کرو تو دوسروں کو کہنا چھوڑ دو ، بلکہ اپنی کوتاہی پر ندامت اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دعوت و تبلیغ جاری رکھنی چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کوتاہی دور کرنے کی توفیق بھی عطاء فرمائے گا ۔ علاوہ ازیں ہر مسلمان پر دین کی ہر بات آگے پہنچانا فرض ہے۔ فرائض کے بارے میں خود عمل اور دوسروں تک پہنچانا دو کام فرض ہیں ، جب کہ مستحباب و فضائل کو آگے پہنچانا فرض ہے ، خود عمل کرے تو اجر ہے ، نہ کرسکے تو مؤاخذہ نہیں ، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( بلغوا عنی ولو آیۃ) (بخاری ، احادیث الانبیاء ، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل : ٣٤٦١، عن عبد اللہ بن عمرو (رض) ” مجھ سے آگے پہنچا دو ، خواہ ایک آیت ہو “۔ اور فرمایا :( فلیبلغ الشاھد الغائب قرب مبلغ او عی من سامع) (بخاری ، الحج ، باب الخطبۃ ایام منی : ١٧٤١، عن ابی بکرۃ (رض) )” تو جو موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ، کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں پہنچایا جائے ، سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں “۔ امر بالمعروف اور نہ عن المنکر کی تاکید کے لئے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (١٠٤، ١١٠) ۔- ٥۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہ ِ ۔۔۔:” مت یمقت مقتا ‘ ‘(ن)” ابغضہ بغضا شدیدا “ ان آیات میں اس وعدے یا دعوے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کئی طرح سے فرمایا ہے جس پر عمل نہ کیا جائے ۔ سب سے پہلے ڈانٹ اور ملامت کے لیے استفہام انکاری کے ساتھ فرمایا کہ ایمان لانے کے باوجود تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ، پھر اس کام کی شناعت کے اظہار کے لیے اس کی ضمیر لانے کے بجائے دوسری آیت میں انہی الفاظ کو دہرایا ہے ، چناچہ پہلے فرمایا :(لم تقولون مالا تفعلون) پھر فرمایا :(ان تقولو مالا تفعلون) پھر ناراضی کی شدت کے اظہار کے لیے ” مقتا “ کا لفظ استعمال فرمایا، جس کا معنی شدید بغض ہے اور اس کے ساتھ ” کبر “ فرمایا کہ یہ شدید بغض ” کبیر “ بھی ہے۔ پھر ” عند اللہ “ کا لفظ ہے کہ یہ شدید بغض کسی عام شخص کا نہیں بلکہ اس عمل سے تم اللہ جل جلالہ کی شدید ناراضی کا نشانہ بن رہے ہو۔
اس سورة نے یہ بھی بتلا دیا کہ احب الاعمال جس کی تلاش میں یہ حضرات تھے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ساتھ ہی ان حضرات نے جو ایسے کلمات کہے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے تو ہم اس پر عمل کرنے میں ایسی ایسی جانبازی دکھائیں وغیرہ جن میں ایک قسم کا دعویٰ ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں، اس پر ان حضرات کو تنبیہ کی گئی کہ کسی مومن کے لئے ایسے دعوے کرنا درست نہیں، اسے کیا معلوم ہے کہ وقت پر وہ اپنے ارادے کو پورا کر بھی سکے گا یا نہیں، اس کے اسباب کا جمع ہونا اور موانع کا زائل ہونا اس کے اختیار میں نہیں، پھر خود اس کے دست وبازو اور اعضاء وجوارح بلکہ قلبی عزم و ارادہ ان میں سے کوئی چیز بھی بالکلیہ اس کے قبضہ میں نہیں اسی لئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قرآن کریم میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو کام آپ کو آئندہ کل میں کرنا ہو اگر اس کو بیان کرنا ہے تو انشاء اللہ کی قید کے ساتھ بیان کرو کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں کل فلاں کام کروں گا (آیت) (لاتقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الاان یشآء اللہ) صحابہ کرام کی نیت و قصد خواہ دعوے کا نہ ہو مگر صورت دعویٰ کی تھی وہ اللہ کے نزدیک پسند نہیں کہ کوئی شخص کسی کام کے کرنے کا دعویٰ کرے بجز اس کے کہ اس کو اللہ کی مشیت کے حوالہ کرے اور انشاء اللہ ساتھ کہے، اس تنبیہ کیلئے یہ آیات نازل ہوئیں۔- يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْن۔ مالا تفعلون کے ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ جو کام تمہیں کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو، جس سے ایسے کام کے دعوے کی ممانعت تو واضح ہو ہی گئی جس کو کرنے کا عزم و ارادہ ہی انسان کے دل میں نہ ہو کیونکہ یہ تو محض ایک جھوٹا دعویٰ ہے نام و نمود وغیرہ کے لئے ہوسکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ شان نزول کے واقعہ میں جن صحابہ نے مذاکرہ کیا وہ ایسے نہ تھے کہ دل میں کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور دعویٰ کریں، اس لئے اس کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ اگرچہ دل میں عزم و ارادہ کام کرنے کا ہو پھر بھی اپنے نفس پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا کہ ہم فلاں کام کریں گے شان عبدیت کے خلاف ہے، اول تو اس کے کہنے ہی کی کیا ضرورت ہے جب موقع ملے کر گزرنا چاہئے اور کسی مصلحت سے کہنا بھی پڑے تو اس کو انشاء اللہ کے ساتھ مقید کر دے تو پھر وہ دعویٰ نہیں رہے گا۔- مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ایسے کام کا دعویٰ کرنا جس کے کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور اس کو کرنا ہی نہ ہو یہ تو گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا سبب ہے، کبر مقتا عند اللہ کا مصداق یہی ہے اور جہاں یہ صورت نہ ہو بلکہ ارادہ کرنے کا ہو وہاں بھی اپنی قوت وقدرت پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔- دعویٰ اور دعوت میں فرق :- مذکورہ تفسیر سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان آیات کا تعلق دعوے سے ہے کہ جو کام آدمی کو کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، رہا معاملہ دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے اور اس کی طرف دوسرے مسلمانوں کو دعوت دے، وہ اس آیت کے مفہوم میں تو شامل نہیں، اس کے احکام دوسری آیات اور احادیث میں مذکور ہیں، مثلاً قرآن کریم نے فرمایا (آیت) اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم، یعنی تم لوگوں کو تو نیک کام کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو کہ خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتے۔- اس آیت نے امر بالمعروف اور وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کیا ہے کہ لوگوں کو ایک نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پر عمل نہ کرو اور مقصد یہ ہے کہ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہو تو خود اپنے آپ کو نصیحت کرنا اس سے مقدم ہے جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پر عمل کرو۔ - لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسروں کو کہنا بھی چھوڑ دو ، اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کے خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے اس کی طرف دوسروں کو بلانے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے، امید ہے کہ اس وعظ و نصیحت کی برکت سے کسی وقت اس کو بھی عمل کی توفیق ہوجاوے، جیسا کہ بکثرت تجربہ و مشاہدہ میں آیا ہے، البتہ اگر وہ عمل واجب یا سنت مؤ کدہ کے درجہ میں ہو تو آیات مذکورہ پر نظر کر کے اپنے نفس میں نادم و شرمندہ ہونے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی واجب ہے اور اگر مستحبات کے متعلق ہے تو یہ سلسلہ ندامت بھی مستحب ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
جائز نذر کا پورا کرنا ضروری ہے ، ناجائز کا نہیں - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لم تقلون ما لا تفعلون۔ کبرمقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں۔ )- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی عبادت یا تقرب الٰہی کی کوئی صورت یا عقد لازم کرلے تو اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسے پورا نہ کرنے کی صورت میں وہ شخص ایسی بات کا قائل گردانا جاتا ہے جسے وہ کرتا نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمی کی مذمت کی ہے۔- تاہم یہ حکم ایسی بات کے بارے میں ہے جو اللہ کی معصیت نہ ہو۔ کیونکہ کوئی شخص اگر اپنے اوپر اللہ کی معصیت لازم کرلے تو اسے پورا کرنا اس پر لازم نہیں ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لانذرفی معصیۃ وکفارتہ کفارۃ یمین ، اللہ کی معصیت کی کوئی نذر نہیں ہوتی، اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے)- درج بالا حکم صرف ایسی چیزوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جن کے ذریعے تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہو اور کسی نے انہیں اپنے اوپر لازم کرلیا ہو۔ مثلاً نذر کی تمام صورتیں اسی طرح انسانوں کے حقوق کے سلسلے میں ایسے عقود جنہیں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باندھتے ہیں اسی طرح مستقبل میں کسی کام کا سرانجام دینے کا وعدہ وغیرہ۔ یہ مباح ہوتا ہے اور بہتر بات یہ ہوتی ہے کہ حتی الامکان اس وعدے کو نبھایا جائے۔- اگر کوئی شخص یہ کہے ” انشاء اللہ میں فلاں کام کروں گا۔ “ سو ات کا اس طرح کہنا مباح ہے بشرطیکہ اس میں اللہ کی مشیت کا استثناء کیا گیا ہو اور اپنے دل میں اس نے اسے پورا کرنے کی گرہ باندھ رکھی ہو۔ اس کے لئے ایسا وعدہ کرنا جائز نہیں جسے پورا نہ کرنے کی اپنے دل میں گرہ باندھ رکھی ہو۔ کیونکہ یہی وہ صورت ہے جس سے اللہ نے روکا ہے اور اس کے مرتکب سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔- اگر اس نے اپنے دل میں اسے پورا کرنے کی گرہ باندھ رکھی ہو لیکن اپنے اس قول کو اللہ کی مشیت کے ساتھ استثناء کی صورت نہ دی ہو تو اس کی یہ بات مکروہ ہوگی کیونکہ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنے وعدے کو پورا بھی کرسکے گا یا نہیں۔ اس لئے اپنے وعدے کو مطلق رکھنا اور اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط نہ کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا جبکہ اسے وعدہ خلافی کا بھی خطرہ ہو۔- یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے جو شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں کام کرلوں تو میں حج کروں گا یا روزے رکھوں گا یا قربانی کے لئے جانور حرم لے جائوں گا۔ “ اس کے اس قول کی حیثیت اپنے اوپر نذر واجب کرنے کی طرح ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا اس کام کو نہ کرنا اس امر کو مستلزم ہوگا کہ اس نے جو بات کہی تھی اسے کرکے نہیں دکھایا۔- حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ آیت کا نزول ایسے لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ اگر ہمیں اس عمل کا علم ہوجائے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے تو ہم اسے بروئے کار لانے میں پوری چستی کا مظاہرہ کریں۔ پھر جب جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو لوگ ڈھیلے پڑگئے اور جہاد پر جانے میں سستی کا مظاہر کیا۔- قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا نزول ایسے لوگوں ایسے لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جو کہا کرتے تھے کہ ہم جہاد پر گئے اور ہم نے جہاد میں بڑی کارکردگی دکھائی، حالانکہوہ سرے سے جہاد پر گئے نہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مومنین اس لئے کہا کہ وہ ایمان کا اظہار کرتے تھے۔
(٢۔ ٣) اے ایمان والو ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔- اور وجہ یہ پیش آئی کہ بعض صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے تو ہم اسے کرتے تو اس عمل کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ (الخ) اچنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد جتنا اللہ کو منظور ہوا صحابہ کرام ٹھہرے رہے اور ان سے اس کامیابی والی تجارت کی تفصیل نہیں بیان کی گئی، چناچہ انہوں نے پھر عرض کیا کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ وہ کیا ہے تاکہ ہم اس میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے گھروں کو خرچ کرتے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے تفصیل بیان کردی کہ تو منون باللہ و رسولہ (الخ) کہ ایمان میں ثابت قدم رہو اور اطاعت خداوندی میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو، چناچہ اس چیز میں احد کے دن ان کی آزمائش کرلی گئی کہ جن میں بعض جہاد سے بھاگ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اور ایسا وعدہ کیوں کرتے ہو جو پورا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ناراضی کی بات ہے کہ ایسی بات کہو جو تم نہیں کرتے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الخ)- امام ترمذی اور حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے بیٹھے تو ہم نے کہا کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے تو ہم اس پر عمل کرتے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سبح للہ ما سے مالا تفعلون تک یہ آیات نازل فرمائیں، پھر حضور اکرم نے ان آیتوں کو ہمارے سامنے پڑھ کر سنایا۔ اور ابن جریر نے ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور نیز ابو صالح سے روایت کیا ہے کہ ہم نے کہا کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور افضل ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ (الخ) تو پھر جہاد سے گھبرانے لگے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور ابن ابی حاتم نے علیل عن ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور نیز عکرمہ کے واسطہ سے ابن عباس سے اور ابن جریر نے ضحاک سے نقل کیا ہے کہ آیت کریمہ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو قتال کا دعوے کرتا ہے اور ابھی تک اس نے ضرب طعن اور قتال سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
آیت ٢ یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ۔ ” اے مسلمانو تم کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو ؟ “- اس آیت میں زجر و توبیخ اور جھنجھوڑنے کا وہی انداز پایا جاتا ہے جو اس سے قبل ہم سورة الحدید میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ بلکہ یہ اسلوب زیر مطالعہ مدنی سورتوں میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ قبل ازیں سورة الحدید کے تمہیدی کلمات میں اس اسلوب کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان سورتوں کے زمانہ نزول (٥ ہجری کے بعد) تک پرانے مسلمانوں کی نسبت نومسلموں کی تعداد زیادہ ہوچکی تھی ۔ ایمان کی گہرائی اور جذبہ ایثار و قربانی کے حوالے سے نووارد مسلمانوں کی کیفیت چونکہ ” السابقون الاولون “ اور ابتدائی دور کے اہل ایمان کی سی نہیں تھی ‘ اس لیے مسلمانوں کے ایمان و عمل کے اجتماعی معیار کے اوسط میں قدرے کمی واقع ہوئی تھی اور اسی وجہ سے انہیں اس انداز میں جھنجھوڑاجا رہا ہے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے ‘ اس لیے اس آیت کو پڑھتے ہوئے یوں سمجھیں کہ آج یہ ہم سے سوال کر رہی ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو تم کیسے مسلمان ہو ؟ تمہارے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے ؟ تم اللہ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہو اور دن رات اس کے احکام کو پائوں تلے روندتے بھی رہتے ہو تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے عشق و محبت کے دعوے بھی کرتے ہو لیکن جب عمل کے میدان میں آتے ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہو ذرا تصور کیجیے آج اگر اللہ کا کلام نازل ہو تو ہمارے ایمان ‘ ہمارے کردار اور ہمارے عمل پر کیا کیا تبصرہ کرے اور اگر آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تشریف لاکر اپنی امت کی حالت دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں
2: اِمام احمدؒ اور اِمام بغویؒ نے روایت نقل کی ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ نے آپس میں اس قسم کی باتیں کی تھیں کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ تعالیٰ کو کونسا عمل سب سے زیادہ پسند ہے تو ہم اس کے لئے جان تک قربان کردیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بلایا، اور یہ سورت اُنہیں پڑھ کر سنائی، (تفسیر مظہری اور ابن کثیر) اس میں پہلے تو انہیں یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہئے جس میں دعوے کا کوئی پہلو نکلتا ہو کہ میں فلاں کام ضرور کروں گا، کیونکہ عین ممکن ہے کہ کسی وجہ سے وہ کام ہو نہ سکے اور دعوی جھوٹا ہوجائے، اور اِنسان جو کچھ کہہ رہا ہے، وہ کر نہ سکے۔ ہاں اپنے اوپر بھروسہ کرنے کے بجائے عاجزی کے ساتھ کوئی ارادہ ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی خواہش کے مطابق بتا دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ کو جہاد کا عمل بہت پسند ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ قرآن و حدیث میں بہت سے اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ مختلف حالات اور مختلف اِنسانوں کے لحاظ سے مختلف اعمال کو سب سے زیادہ محبوب قرار دیا گیا ہے، مثلا کسی وقت جہاد ہو رہا ہو تو اس وقت وہی عمل سب سے زیادہ محبوب ہوگا، کسی وقت کسی کے والدین کو خدمت کی ضرورت ہے تو اس وقت ان کی خدمت ہی سب سے بہتر عمل قرار پائے گا۔