Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ گویہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر درصال دل کے کھوٹے ہیں ، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں ، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں ، لہذا یہ جھوٹے ہیں ۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں ، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لئے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے ۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں ، مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار ہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں ، یہ بد اعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں ۔ ضحاک کی قرأت میں ابمانھم الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لئے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں ۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آ گئے ہیں ، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہو چکی ہے ، بظاہر تو خوش رو خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کرلیں ، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں ، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے ، اور جگہ ہے اشحتہ علیکم الخ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں ، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے ، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گذرتے ہیں یہ بے ایمان ہیں ان کے اعمال غارت ہیں اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے ، پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آجانا ، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بےراہی پر چل رہے ہیں؟ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لئے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ان کی خوراک لوٹ مار ہے ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں وہ نمازوں کے لئے آخری وقت آتے ہیں تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں نہ خود ان کاموں کو کریں نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنیوالے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ 1۔ 2 یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ 1۔ 3 اس بات میں کہ وہ دل سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی منافق بھی یہ شہادت دیتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے بھی یہی شہادت دی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے باوجود اللہ یہ بھی شہادت دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔ کیونکہ یہ شہادت وہ دل کے یقین سے نہیں بلکہ محض فریب کاری کی غرض سے زبانی طور پر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے اعمال ان کے اس زبانی دعویٰ کی تائید نہیں کرتے تھے۔ اور قول و فعل میں دیدہ دانستہ تضاد منافقت کی دلیل ہے۔ ایمان کی نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ :” الْمُنٰـفِقُوْنَ “” النافقائ “ سے مشتق ہے جو ” یربوع “ ( چوہے سے ملتے جلتے ایک جنگلی جانور) کے بل کا ایک منہ ہوتا ہے ، وہ اسے اس طرح بناتا ہے کہ اس جگہ مٹی کی طرف اتنی تہہ رہنے دیتا ہے کہ سر مارے تو کھل جائے ، اس منہ کو وہ چھپا کر رکھتا ہے اور دوسرا منہ ظاہر کردیتا ہے۔ منافق بھی چونکہ اپنا کفر چھپاتا اور ایمان ظاہر کرتا ہے ، اس لیے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے ۔ یہ ایک خالص اسلامی اصطلاح ہے ، مراد اس سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔- ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے اوس اور خزرج کے درمیان ہونے والی جنگ بعاث میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ، ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ اپنا ایک متفقہ سردار مقرر کرلیں ، بلکہ طے کرچکے تھے کہ عبد اللہ بن ابی کی باقاعدہ تاج پوشی کر کے اسے اپنا سردار بنالیں ۔ اسی اثناء میں چند سعادت مند حج کے لیے مکہ گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر مسلمان ہوگئے۔ اگلے دو سالوں میں مزید لوگوں نے جا کر بیعت کی اور آخری بار انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت دی ۔ ان سالوں میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام پہنچ چکا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر اوس و خزرج کے بااثر لوگوں سمیت ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے حامیوں کی سردار ی کی امید ناکام ہوئی تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شدید دشمن بن گئے۔ کچھ مدت تک تو وہ کھلم کھلا عداوت کا اظہار کرتے رہے ، مگر بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد ان کے پاس مدینہ میں رہنے کے لیے مسلمان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو وہ مسلمان ہوگئے ، حتیٰ کہ عبد اللہ بن ابی بھی مسلمان ہوگیا ، مگر ان کا اسلام صرف جان بچانے کے لیے اور وہ فوائد حاصل کرنے کیل یے تھا جو مسلمانوں کو عزت و قوت اور فتح و غنیمت کی صورت میں حاصل تھے۔ یہ لوگ نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے ، زکوٰۃ دیتے اور جہاں غنیمت کی امید ہوتی جہاد میں بھی جاتے تھے ، مگر دل سے اب بھی ایمان نہیں لائے تھے بلکہ ہر موقع پر انہوں نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور نقصان پہنچایا ۔ جنگ احد میں یہ لوگ لشکر کا تیسرا حصے لے کر میدان جنگ سے واپس چلے گئے بنو نضیر بنو قریظہ اور خیبر والوں کو جنگ پر اور مسلمانوں کے خلاف ڈٹ جانے پر ابھارتے رہے ، خندق اور دوسرے مواقع پر انہوں نے کفار کے ساتھ ساز باز رکھی اور جب موقع ملتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، مسلمانوں اور اسلام کے متعلق گستاخانہ باتیں کرتے ، جیسا کہ اگلی آیات میں آرہا ہے لیکن جب ایسی باتیں سامنے آنے پر ان سے باز پرس کی جاتی تو وہ قسمیں کھا جاتے کہ ہم مسلمان ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول مانتے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گستاخیوں سے در گزر فرماتے رہے ، کیونکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوچکے تھے اور مخلص مسلمانوں کے عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔ اگر آپ انہیں قتل کرتے تو بہت سی بد گمانیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ سب کچھ برداشت کرتے رہے ، حتیٰ کہ آخر کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبر و ضبط اور عفو و حلم کی وجہ سے ان کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آگئی اور وہ مخلص مسلمانوں کی نگاہ میں بالکل بےقدر و قیمت ہو کر رہ گئے ، ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہا ۔ ان کا کچھ حال سورة ٔ بقرہ (٨ تا ٢٠) ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، توبہ ، سورة ٔ احزاب اور دوسرے مقامات پر گزر چکا ہے۔- ٣۔ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہ :” ان “ اور ” لام تاکید “ عموماً قسم کے جواب میں آتے ہیں اور قسم جیسی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں ۔ شہادت اس بات کی خبردینے کو کہتے ہیں جس کا دل سے یقین ہو ۔ منافقین کی عادت تھی کہ وہ قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے، جب کہ مخلص مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مزید دیکھئے سورة ٔ نسائ (٦٢) ، توبہ (٥٦، ٦٢، ٧٤، ٩٦) اور سورة ٔ مجادلہ (١٨) کی تفسیر۔- ٤۔ وَ اللہ ُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ ۔۔۔۔: یہ منافقین کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، اس لیے اگر وقف کرنا ہو تو ” انک لرسول اللہ “ پر کرنا چاہیے ، آیت شروع کر کے ” انک لرسولہ “ پر وقف سے وہم پڑھتا ہے کہ یہ دونوں جملے منافقین کا قول ہیں ۔ یہاں ایک سوال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں تو یہ کیوں فرمایا کہ اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں اور منافق جھوٹے کس طرح ہوئے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انکا یہ کہنا جھوٹ نہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، بلکہ یہ سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کی تصدیق فرمائی کہ ” واللہ یعلم انک لرسولہ “ یعنی اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ آپ یقینا اس کے رسول ہیں، منافقین کو جھوٹا اس لیے فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، حالانکہ وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتے بلکہ یہ بات صرف زبان سے کہہ رہے ہوتے ہیں ، دل سے وہ آپ کو اس کا رسول نہیں مانتے۔ شہادت میں سچے وہ تب ہوتے جب وہ دل اور زبان دونوں سے آپ کی رسالت کا اقرار کرتے۔- زمخشری نے فرمایا کہ اگر درمیان میں جملہ ” واللہ یعلم انک لرسولہ “ نہ ہوتا تو کلام اس طرح ہونا تھا :” اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ وللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون ‘ ‘” جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلا شبہ تو یقینا اللہ کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلا شبہ یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں “ لیکن اس سے وہم پڑ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس بات میں جھوٹا کہہ رہے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے درمیان میں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ، پھر فرمایا اور اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں ، یعنی ان کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ ہم شہادت دیتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جب آپ کے پاس یہ منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (دل سے) گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں اور یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ( اس میں تو ان کے قول کی تکذیب نہیں کی جاتی) اور (باوجود اس کے) اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین ( اس کہنے میں) جھوٹے ہیں ، (کہ ہم دل سے گواہی دیتے ہیں، کیونکہ وہ گواہی محض زبانی ہے اعتقاد قلب سے نہیں) ان لوگوں نے اپنی قسموں کو (اپنی جان و مال کو بچانے کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے (کیونکہ اظہار کفر کرتے تو ان کی حالت بھی مثل دوسرے کفار کے ہوجاتی کہ جہاد کیا جاتا اور قتل و غارت ہوتا) پھر (اس لازمی خرابی کے ساتھ متعدی خرابی بھی ہے کہ) یہ لوگ (دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں بیشک ان کے یہ اعمال بہت ہی برے ہیں (اور ہمارا) یہ (کہنا کہ ان کے اعمال بہت برے ہیں) اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ (اول ظاہر میں) ایمان لے آئے پھر (اپنے شیاطین کے پاس جا کر کلمات کفریہ انامعکم انمانحن و مستہزون کہہ کر) کافر ہوگئے (مطلب یہ کہ ان پر برے اعمال کا حکم کرنا ان کے نفاق کے سبب سے ہے کہ وہ بدترین عمل کفر ہے) سو (اس نفاق کی وجہ سے) ان کے دلوں پر مہر کردی گئی، تو یہ (حق بات کو) نہیں سمجھتے اور (ظاہر میں یہ ایسے چکنے چڑے ہیں کہ) جب آپ ان کو دیکھیں (تو شان و شوکت ظاہری کی وجہ سے) ان کے قدو قامت آپ کو خوشنما معلوم ہوں اور (باتوں میں ایسے ہیں کہ) اگر یہ باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی بات (غایت فصاحت و شیرینی کی وجہ سے) سن لیں (لیکن چونکہ اندر خاک بھی نہیں ہے اس لئے قدو قامت ظاہری کے ساتھ باطنی کمالات سے خالی ہونے کے سبب ان کی ایسی مثال ہے کہ) گویا یہ لکڑیاں ہیں جو (دیوار کے) سہارے سے لگائے ہوئی (کھڑی) ہیں (کہ حبثہ میں تو لمبی چوڑی موٹی موٹی مگر بےجان محض اور عام عادت یہ ہے کہ اکثر جو لکڑی فی الحال کام میں نہیں لگتی وہ اس طرح رکھ دی جاتی ہے، ایسی لکڑی بےنفع محض بھی ہے، اسی طرح یہ لوگ ظاہری دیکھنے میں تو شاندار ہیں لیکن اندر سے محض بیکار اور چونکہ بوجہ عدم اخلاص و عدم ایمان کے ہر وقت ان کو اندیشہ رہتا ہے کہ کبھی مسلمانوں کو ہمارے حال کی اطلاع کسی قرینہ سے یا بذریعہ وحی کے نہ ہوجاوے اور مثل دیگر کفار کے ہم پر بھی جہاد وغیرہ نہ ہونے لگے اس خیال سے ایسے غائف رہتے ہیں کہ) ہر غل پکار کو (گو کسی وجہ سے ہو) اپنے ہی اوپر (پڑنے والی) خیال کرنے لگتے ہیں (یہی جب کوئی شور و غل ہوتا ہے یہی سمجھتے ہیں کہ کہیں ہمارے اوپر بھی افتاد پڑنے والی نہ ہو حقیقت میں) یہی لوگ (تمہارے پورے) دشمن ہیں آپ ان سے ہوشیار رہئے (یعنی ان کی کسی بات پر اعتماد نہ کیجئے) خدا ان کو غارت کریں کہاں (دین حق سے) پھرے چلے جاتے ہیں (یعنی روزانہ دور ہی ہوتے جاتے ہیں) اور (ان کے تکبر اور شرارت کی یہ کیفیت ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس) آؤ تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استغفار کردیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ (اس خیر خواہی اور استغفار رسول سے) تکبر کرتے ہوئے بےرخی کرتے ہیں (جب ان کے کفر کی یہ حالت ہے تو) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا ان کے لئے استغفار نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہ بخشے گا (مطلب یہ کہ اگر وہ آپ کے پاس آتے بھی اور آپ ان کی ظاہری حالت کے اعتبار سے استغفار بھی فرماتے تب بھی ان کو کچھ نفع نہ ہوتا، یہ تو ماضی کے اعتبار سے ان کی حالت ہوئی اور آئندہ کے لئے یہ ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے نافرمان لوگوں کو (توفیق) ہدایت (کی) نہیں دیتا یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (جمع) ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو یہاں تک کہ یہ آپ ہی منتشر ہوجاویں گے اور (ان کا یہ کہنا جہل محض ہے کیونکہ) اللہ ہی کے ہیں سب خزانے آسمانوں اور زمین کے و لیکن منافق سمجھتے نہیں ہیں (کہ رزق کا مدار اہل شہر کے نفقات کو سمجھتے ہیں اور) یہ (لوگ) یوں کہتے ہیں کہ اگر ہم اب مدینہ میں لوٹ کر جاویں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو باہر نکال دے گا (یعنی ہم ان مسافر پر دیسیوں کو نکال باہر کردیں گے) اور (اس قول میں جو اپنے کو عزت والا اور مسلمانوں کو ذلت والا کہتے ہیں یہ جہل محض ہے، بلکہ) اللہ ہی کی ہے عزت (بالذات) اور اس کے رسول کی (بواسطہ تعلق باللہ کے) اور مسلمانوں کی (بواسطہ تعلق مع اللہ .... والرسول کے) و لیکن منافق جانتے نہیں (بلکہ مدار امور فانیہ کو سمجھتے ہیں ) ۔- معارف و مسائل - سورة منافقون کے نزول کا مفصل واقعہ :- یہ واقعہ محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق شعبان سن 6 ھ میں اور قتادہ و عروہ کی روایت کے مطابق شعبان سن 5 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر پیش آیا ہے (مظہری) جو محمد بن اسحاق اور اکثر علماء مغازی و سیر کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی کہ بنی المصطلق کے رئیس حارث بن ضرار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں، یہ حارث بن ضرار جویریہ کے والد ہیں جو بعد میں مسلمانہو کر ازواج مظہرات میں داخل ہوئیں اور خود حارث بن ضرار بھی بعد میں مسلمان ہوگئے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ان کی جنگی تیاری کی خبر ملی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لئے نکلے، اس جہاد کے لئے نکلنے والے مسلمانوں کے ساتھ بہت سے منافق بھی اس طمع میں نکلے کہ ہمیں بھی مال غنیمت میں حصہ ملے گا کیونکہ یہ لوگ باوجود دل میں کافرو منکر ہونے کے یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے اور آپ ہی غالب اور فاتح ہوں گے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بنی المصطلق کے مقام پر پہنچے تو حارث بن ضرار کے لشکر سے سامنا اس پانی کے چشمہ یا کنویں پر ہوا جو مریسیع کے نام سے معروف تھا، اسی لئے اس غزوہ کو غزوہ مریسیع بھی کہا جاتا ہے، جانبین سے جنگ کی صفیں مرتب ہو کر تیروں کے ساتھ مقابلہ ہوا جس میں بنی المصطلق کے بہت سے آدمی مارے گئے باقی بھاگنے لگے، حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح عطا فرمائی، ان کے کچھ اموال غنیمت اور کچھ مرد و عورت قید ہو کر مسلمان کے ہاتھ آئے اس جہاد کا قضیہ تو ختم ہوا۔- وطنی یا نسبی قومیت کی بنیاد پر تعاون و تناصر کفر و جاہلیت کا نہرہ ہے :- مگر اس کے بعد ابھی مسلمانوں کا لشکر اسی مریسیع کے پانی پر جمع تھا کہ ایک ناگوار واقعہ یہ پیش آ گیا کہ ایک مہاجر اور ایک انصاری میں اسی پانی پر باہم جھگڑا ہوگیا اور نوبت باہم قتل و قتال کی آگئی، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، دونوں کی مدد کے لئے کچھ افراد پہنچے گئے اور قریب تھا کہ مسلمانوں کے باہم ایک فتنہ کھڑا ہوجائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو فوراً موقع پر تشریف لے گئے اور سخت ناراضی کے ساتھ فرمایا ” مابال دعوی الجاھلیة “ (یعنی یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے) کہ وطنی اور نسبی قومیت کو بنیاد بنا کر امداد و دفاع کا معاملہ ہونے لگا، اور فرمایا ” دعوھا فانھا منتنة “ ( اس نعرہ کو چھوڑ دو یہ بدبو دار نعرہ ہے) اور فرمایا کہ ہر مسلمان کو اپنے ہر مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم مظلوم کی مدد کرنا تو ظاہر ہے کہ اس کو ظلم سے بچائے اور ظالم کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکے، کیونکہ اس کی حقیقی مدد یہی ہے، مراد یہ تھی کہ ہر معاملہ میں یہ دکھنا چاہئے کہ مظلوم کون ہے، ظالم کون، پھر ہر مسلمان کا خواہ وہ مہاجری ہو یا انصاری اور کسی قبیلہ و خاندان کا ہو یہ فرض ہوجاتا ہے کہ مظلوم کو ظلم سے چھڑائے اور ظالم کا ہاتھ روکے، خواہ وہ اپنا حقیقی بھائی اور باپ ہی کیوں نہ ہو، یہ نسبی اور وطنی قومیت جاہلانہ اور بد بودار نعرہ ہے جس سے گندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنتے ہی جھگڑا ختم ہوگیا، اس معاملہ میں زیادتی جہجاہ مہاجری کی ثابت ہوئی، اس کے بالمقابل سنان بن وبرہ جہنی انصاری کو زخم آ گیا تھا، حضرت عبادہ بن صامت کے سمجھانے سے سنان بن وبرہ نے اپنا حق معاف کردیا اور جھگڑنے والے ظالم و مظلوم پھر بھائی بھائی بن گئے۔- منافقین کی ایک جماعت جو مال غنیمت کی طمع میں مسلمانوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی، ان کا سردار عبداللہ بن ابی تھا جو دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتا تھا، مگر دنیوی فوائد کی خاطر اپنے کو مسلمان کہتا تھا، اس کو جب مہاجرین و انصار کے باہم تصادم کی خبر ملی تو اس نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا موقع غنیمت پایا اور اپنی مجلس میں جس میں منافقین جمع تھے اور مومنین میں سے صرف زید بن ارقم موجود تھے ........ اس نے انصار کو مہاجرین کے خلاف بھڑکایا اور کہنے لگا کہ تم نے ان کو اپنے وطن میں بلا کر اپنے سروں پر مسلط کیا، اپنے اموال و جائیداد ان کو تقسیم کر کے دے دیئے یہ تمہاری روٹیوں پر پلے ہوئے اب تمہارے ہی مقابلہ پر آئے ہیں، اگر تم نے اب بھی اپنے انجام کو نہ سمجھا تو آگے یہ تمہارا جینا مشکل کردیں گے، اس لئے تمہیں چاہئے کہ آئندہ مال سے ان کی مدد نہ کرو تو خود ہی ادھر ادھر بھاگ جائیں گے اور اب تمہیں چاہئے کہ جب مدینہ پہنچ جاؤ تو تم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے۔- اس کی مراد عزت والے سے خود اپنی جماعت اور انصار تھے اور ذلیل سے مراد معاذ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہاجرین صحابہ تھے، حضرت زید بن ارقم نے جب اس کا یہ کلام سنا تو فوراً بولے کہ واللہ تو ہی ذلیل و خوار اور مبغوض ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دی ہوئی عزت اور مسلمانوں کی دلی محبت سے کامیاب ہیں۔- عبداللہ بن ابی چونکہ اپنے نفاق پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا اسی لئے الفاظ صاف نہ بولے تھے، اس وقت زید بن ارقم کے اظہار غضب سے اس کو ہوش آیا کہ میرا کفر ظاہر ہوجائے گا، تو حضرت زید سے عذر کیا کہ میں نے تو یہ بات ہنسی میں کہہ دی تھی، میرا مطلب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کچھ کرنا نہیں تھا۔- حضرت زید بن ارقم اس مجلس سے اٹھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابن ابی کا یہ سارا واقعہ کہہ سنایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ خبر بہت شاق ہوئی، چہرہ مبارک پر تغیر کے آثار نظر آنے لگے (زید بن ارقم کم عمر صحابی تھے) آپ نے ان سے کہا کہ لڑکے تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو ؟ زید بن ارقم نے قسم کھا کر کہا کہ نہیں میں نے اپنے کانوں سے اس کے یہ کلمات سنے ہیں، آپ نے پھر فرمایا کہ تمہیں کچھ شبہ تو نہیں ہوگیا، زید بن ارقم نے پھر وہی جواب دیا اور پھر ابن ابی کی یہ بات مسلمانوں کے پورے لشکر میں پھیل گئی اور آپس میں اس بات کے سوا کوئی بات ہی نہ رہی، ادھر حضرات انصار سب زید بن ارقم کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے قوم کے سردار پر تہمت لگائی اور قطع رحمی کی، زید ابن ارقم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم پورے قبیلہ خزرج میں مجھے ابن ابی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں (مگر جب اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف یہ کلمات کہے تو میں اسے برداشت نہیں کرسکا) اور اگر میرا باپ بھی ایسی بات کہتا تو میں اس کو بھی ضرور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچاتا۔- دوسری طرف حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں اور بعض روایات میں ہے کہ فاروق اعظم نے یہ عرض کیا کہ آپ عباد بن بشر کو حکم دیدیجئے کہ اس کا سر قلم کر کے آپ کے سامنے پیش کریں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عمر اس کا کیا ہوگا کہ لوگوں میں یہ شہرت دی جائے گی کہ میں اپنے اصحاب کو قتل کردیتا ہوں، اس لئے آپ نے ان ابی کے قتل سے روک دیا، حضرت فاروق اعظم کے اس کلام کی خبر عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے کو پہنچی، ان کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے مسلمان تھے، یہ فوراً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کا ارادہ میرے باپ کو ان کی اس گفتگو کے نتیجہ میں قتل کرنے کا ہے تو آپ مجھے حکم دیجئے میں انپے بات کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں پیش کر دوں گا اور عرض کیا کہ پورا قبیلہ خزرج اس کا گواہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مجھ سے زیادہ اپنے والدین کی خدمت و اطاعت کرنے والا نہیں ہے، مگر اللہ و رسول کے خلاف ان کی بھی کوئی چیز برداشت نہیں ہو سکتی اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر آپ نے کسی اور کو میرے باپ کے قتل کا حکم دیا اور اس نے قتل کردیا تو ایسا نہ ہو کہ جب میں اپنے باپ کے قاتل کو چلتا پھرتا دیکھوں تو مجھ پر غیرت نسبی غالب آجائے اور میں اسے قتل کر بیٹھوں جو میرے لئے عذاب کا سبب بنے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ میرا ارادہ اس کے قتل کا ہے نہ میں نے کسی کو اس کا حکم دیا ہے۔- اس واقعہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام عادت کے خلاف بےوقت سفر کرنے کا اعلان عام فرما دیا اور خود ناقہ قصویٰ پر سوار ہوگئے جب عام حضرات صحابہ روانہ ہوگئے تو آپ نے عبداللہ ابن ابی کو بلایا اور دریافت کیا کہ کیا تم نے ایسا کہا ہے ؟ یہ قسمیں کھا گیا کہ میں نے ہرگز ایسا نہیں کہا یہ لڑکا (زید بن ارقم) جھوٹا ہے، عبداللہ بن ابی کی اپنی قوم میں عزت تھی سب نے یہ قرار دیا کہ شاید زید بن ارقم کو کچھ مغالطہ لگ گیا ہے، ابن ابی نے ایسا نہیں کہا۔- بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ابی کی قسم اور عذر کو قبول کرلیا اور لوگوں میں زید بن ارقم پر غصہ اور ان کی ملامت اور تیز ہوگئی اور یہ اس رسوائی کے سبب لوگوں سے چھپے رہنے لگے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے لشکر اسلام کے ساتھ پورے دن پھر پوری رات سفر کیا اور اگلے روز صبح کو بھی برابر سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ دھوپ تیز ہونے لگی اس وقت آپ نے قافلہ کو ایک جگہ ٹھہرایا، پورے ایک دن ایک رات کو مسلسل سفر سے تھکے ہوئے صحابہ کرام جب اس منزل پر اترے تو فوراً سب محو خواب ہوگئے۔- راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عام سفر کرنے کی عادت کے خلاف فوری طور پر بےوقت سفر شروع کرنے اور پھر سفر کو اتنا طویل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابن ابی کے واقعہ کا چرچا جو تمام مسلمانوں میں پھیل گیا تھا مسلمانوں کو سفر کے ایسے شغل میں لگا دے کہ یہ چرچا ختم ہوجائے۔- اس کے بعد پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر شروع کیا، اسی دوران میں جب تک ابن ابی کے بارے میں قرآن کی آیات نازل نہ ہوئی تھیں تو عبادہ بن صامت نے اس کو نصیحت کی کہ تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے استغفار فرما دیں گے، تیری نجات ہوجائے گی، ابن ابی نے ان کی نصیحت سن کر اپنا سر اس طرف سے پھیرلیا، حضرت عبادہ نے اسی وقت فرمایا کہ ضرور تیرے اس اعراض کے بارے میں قرآن .... نازل ہوگا۔- ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے اور زید بن ارقم بار بار آپ کے قریب آتے تھے کیونکہ ان کو اپنی جگہ یقین تھا کہ اس شخص منافق نے مجھے پوری قوم میں جھوٹا قرار دے کر رسوا کیا ہے ضروری میری تصدیق اور اس شخص کی نکیر میں قرآن نازل ہوگا، اچانک زید بن ارقم نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کے وقت ہوتی تھی کہ سانس پھولنے لگا اور پیشانی مبارک پر پسینہ بہنے لگا اور آپ کی سواری ناقہ بوجھ سے دبنے لگی، تو ان کو امید ہوئی کہ اب کوئی وحی اس بارے میں نازل ہوگی، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کیفیت رفع ہوئی، میری سواری چونکہ آپ کے قریب تھی آپ نے اپنی سواری ہی پر سے میرا کان پکڑا اور فرمایا : یا غلام صدق اللہ حدیثک ونزلت سورة المنفقین فی ابن ابی من اولھا ابی اخرھا ( یعنی اے لڑکے اللہ نے تیری بات کی تصدیق کردی اور پوری سورة منافقوں اسی واقعہ ابن ابی کے متعلق نازل ہوئی) ۔- اس روایت سے معلوم ہوا کہ سورة منافقون دوران سفر ہی میں نازل ہوگئی تھی مگر بغوی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ پہنچ گئے اور زید بن راقم رسوائی کے خوف سے گھر میں چھپ کر بیٹھ رہے اس وقت یہ سورت نازل ہوئی، واللہ اعلم۔- ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ کے قریب وادی عقیق میں پہنچے تو عبداللہ بن ابی منافق کے مومن صاحبزادے عبداللہ آگے بڑھے اور تمام سواریوں میں تلاش کرتے ہوئے اپنے باپ ابن ابی کی سواری کے قریب پہنچ کر باپ کی اونٹنی کو بٹھا دیا اور اس کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر باپ سے خطاب کیا کہ خدا کی قسم تم مدینہ میں داخل نہیں ہو سکو گے جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہونے کی اجازت نہ دیں اور جب تک تم یہ بات واضح نہ کرو کہ تم نے جو بات کہی ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا، اس میں عزت والا کون ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تم ؟ عبداللہ بن عبداللہ ابن ابی اپنے باپ کا راستہ روکے ہوئے کھڑے تھے اور پاس سے گزرنے والے لوگ عبداللہ کو ملامت کر رہے تھے کہ باپ کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے، آخر میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری ان کے قریب آئی تو معاملہ کے متعلق دریافت کیا، لوگوں نے بتلایا کہ عبداللہ مومن نے اپنے باپ کا راستہ اس لئے روکا ہوا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے یہ مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ ابن ابی منافق بیٹے سے مجبور ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ میں تو بچوں اور عورتوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر صاحبزادے سے کہا کہ ان کا راستہ چھوڑ دو ، مدینہ میں جانے دو ، تب بیٹے نے راستہ چھوڑا۔- سورة منافقون کے نزول کا قصہ تو اتنا ہی تھا جو اوپر لکھا گیا، قصہ کے شروع میں یہ بھی اجمالاً ذکر ہوا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کا اصل ذمہ دار ام المومنین حضرت جویریہ کا والد حارث بن ضرار ہوا تھا، بعد میں حضرت جویریہ کو اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام کے ساتھ امہات المومنین میں داخل ہونے کا شرف عطا فرمایا اور باپ بھی مسلمان ہوگیا۔- اس کا کو واقعہ مسند احمد ابو داؤد وغیرہ میں یہ منقول ہے کہ جب بنو المصطلق کو شکست ہوئی تو مال غنیمت کے ساتھ ان کے کچھ قیدی بھی ہاتھ آئے، اسلامی قانون کے مطابق سب قیدی اور مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیئے گئے، قیدیوں میں حارث بن ضرار کی بیٹی جویریہ بھی تھیں، یہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آگئیں، انہوں نے جویریہ کو بصورت کتابت آزاد کرنے کا ارادہ فرمایا جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام یا کنیز پر کچھ قرم مقرر کردی جائے اور اس کو محنت مزدوری یا تجارت کی اجازت دے دیجائے وہ مقرر رقم کما کر مالک کو ادا کر دے تو آزاد ہوجائے۔- جویریہپر جو رقم مقرر کی تھی وہ بڑی رقم تھی جس کی ادائیگی ان کے لئے آسان نہ تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں، شہادت دیتی ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں پھر اپنا واقعہ سنایا کہ ثابت بن قیس جن کے حصہ میں میں آئی ہوں انہوں نے مجھے مکاتب بنادیا ہے مگر رقم کتابت کی ادائیگی میرے بس میں نہیں، آپ اس میں میری کچھ مدد فرما دیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو درخواست قبول فرمالی اور ساتھ ہی ان کو آزاد کرکے اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا، جویریہ کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی وہ کیسے قبول نہ کرتیں، بخوشی خاطر قبول کیا اور یہ ازواج مطہرات میں داخل ہوگئیں، ام المومنین حضرت جویریہ کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے تین دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ یثرب کی طرف سے چاند چلا اور میری گود میں آ کر گرگیا ، اس وقت تو میں نے یہ خواب کسی سے ذکر نہ کیا تھا اب اس کی تعبیر آنکھوں سے دیکھ لی۔- یہ سردار قوم کی بیٹی تھیں، ان کے ازواج مظہرات میں داخل ہونے سے پورے قبیلہ پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوئے اور ایک فائدہ ان تمام عورتوں کو پہنچا جو ان کے ساتھ گفرتار ہوئی تھیں اور ان کی رشتہ دار تھیں، کیونکہ ان کا ام المومنین ہوجانا معلوم کرنے کے بعد جس جس مسلمان کے پاس ان کی رشتہ دار کوئی کنیز تھی سب نے ان کو آزاز کردیا کہ ان کی عزیز کسی عورت کو کنیز بنا کر اپنے پاس رکھنا ادب کے خلاف سمجھا، اس طرح سو کنیزیں ان کے ساتھ آزاد ہوگئیں اور پھر ان کے والد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک معجزہ دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔- واقعہ مذکورہ میں اہم ہدایات و فوائد :- سورة منافقون کے نزول کا واقعہ اس کی تفسیر کے سمجھنے میں تو معین ہے ہی، اس کے ضمن میں بہت اہم ہدایات و مسائل، اخلاق، سیاست اور معاشرت کے متعلق آگئے ہیں، اس لئے احقر نے اس واقعہ کی پوری تفصیل یہاں نقل کی ہے، وہ ہدایات یہ ہیں :۔- اسلامی سیاست کا سنگ بنیاد خالص اسلامی برادری قائم کرنا ہے جس میں رنگ و نسل اور زبان اور ملکی و غیر ملکی کے سب امتیازات بالکل ختم کردیئے جاویں :- غزوہ بنی المصطلق میں پیش آنے والا ایک انصاری اور ایک مہاجر کا جھگڑا اور دونوں طرف سے انصار مہاجرین کو اپنی اپنی مدد کے لئے پکارنا، یہ وہ جاہلیت کا بت تھا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توڑ دیا تھا اور مسلمان کہیں کا رہنے والا ہو کسی رنگ و زبان اور کسی نسل و قوم کا ہو سب کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا، انصار و مہاجرین میں باقاعدہ پھر مواخات کرا کر ان کی مشترک اسلامی برادری بنادی تھی، مگر شیطان کا یہ پرانا جال ہے جس میں لوگوں کو پھنسا کر باہمی جھگڑوں کے وقت قوم و وطن اور زبان و رنگ وغیرہ کو تعاون و تناصر کی بنیاد بنا دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعاون و تناصر کا اسلامی معیار حق و انصاف سب کے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، صرف برادری اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا اصول بن جاتا ہے، اس طرح وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بھڑا دیتا ہے، اس واقعہ میں بھی کچھ ایسی ہی صورت بن رہی تھی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً موقع پر پہنچ کر اس فتنہ کو ختم کردیا اور بتلایا کہ یہ جاہلیت و کفر کا بدبودار نعرہ ہے، اس سے بچو اور پھر سب کو قرآنی اصول تعاون پر قائم کردیا جس میں ارشاد ہے تعاونوا علے البر والتقوی ولا تعاونوا علی الا ثم و العدوان، یعنی مسلمانوں کے لئے کسی کی مدد کرنے یا مدد حاصل کرنے کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ جو شخص عدل و انصاف اور نیکی پر ہے اس کی مدد کرو، اگرچہ وہ نسب و خاندان اور زبان و وطن میں تم سے الگ ہو اور جو شخص کسی گناہ اور ظلم پر ہو اس کی ہرگز مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمہارا باپ اور بھائی ہی ہو، یہی وہ معقول اور منصفانہ بنیاد ہے جس کو اسلام نے قائم فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قدم پر اس کو خود رعایت فرمائے اور سب کو اس کے تابع رہنے کی تلقین فرمائی اور اپنے آخری خطبہ حجہ الوداع میں اعلان فرمایا کہ جاہلیت کی سب رسمیں میرے قدموں کے نیچے مسل دی گئی ہیں، اب عربی، عجمی، کالے گورے ملکی غیر ملکی کے امتیازات کے بت ٹوٹ چکے ہیں، باہمی تعاون و تناصر کی اسلامی بنیاد صرف حق و انصاف ہے، سب کو اس کے تابع چلنا ہے۔- اس واقعہ نے ہمیں یہ بھی سبق دیا ہے کہ دشمنان اسلام آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے یہی برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کرتے ہیں جب اور جس وقت موقع مل جاتا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔- افسوس ہے کہ زمانہ دراز سے پھر مسلمان اپنے اس سبق کو بھول گئے اور اغیار نے مسلمانوں کی اسلامی وحدت کے ٹکڑے کرنے میں پھر وہی شیطانی جال پھیلا دیا اور دین و اصول دین سے غفلت کی بنا پر عام دنیا کے مسلمان اس جال میں پھنس کر باہمی خانہ جنگیوں کے شکار ہوگئے اور کفر و الحاد کے مقابلہ کے لئے ان کی متحدہ قوت پاش پاش ہوگئی، صرف عربی و عجمی ہی نہیں عربوں میں مصری، شامی حجازی، یمنی ایک دوسرے سے متحد نہ رہے، ہندوستان اور پاکستان میں پنجابی، بنگالی، سندھی، ہندی، پٹھان اور بلوچی باہم آویزش کے شکار ہوگئے، فالی اللہ المثتکی، دشمنان اسلام ہماری آویزش سے کھیل رہے ہیں اس کے نتیجہ میں وہ ہر میدان میں ہم پر غالب آتے جاتے ہیں اور ہم ہر جگہ شکست خوردہ غلامانہ ذہنیت میں مبتلا انہی کی پناہ لینے پر مجبور نظر آتے ہیں، کاش آج بھی مسلمان اپنے قرآنی اصول اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات پر غور کریں، غیروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اسلامی برادری کو مضبوط بنالیں، رنگ و نسل اور زبان و وطن کے بتوں کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت و امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے۔- صحابہ کرام کی اسلامی اصول پر بینظیر ثابت قدمی اور مقام بلند :- اس واقعہ نے یہ بھی بتلایا کہ اگرچہ وقتی طور پر شیطان نے کچھ لوگوں کو نعرہ جاہلیت میں مبتلا کردیا تھا مگر درحقیقت سب کے دلوں میں ایمان رچابس ہوا تھا، ذراسی تنبیہ پر سب ان خیالات سے تائب ہوگئے اور ان کے دلوں پر اللہ اور رسول کی محبت و عظمت کا ایسا غلبہ تھا جس میں کوئی رشتہ ناطہ برادری اور قومیت حائل نہ ہوئی، اس کی شہادت خود اسی واقعہ میں اول زید بن ارقم کے بیان سے واضح ہوئی کہ وہ خود بھی قبیلہ خزرج کے آدمی ہیں، اوز ابن ابی اس قبیلہ کا سردار تھا اور زید بن ارقم بھی اس کی عزت و عظمت کے قائل تھے لیکن جس وقت اس کی زبان سے مومنین مہاجرین اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف الفاظ سنے تو برداشت نہ کرے سکے، اسی مجلس میں ابن ابی کو منہ توڑ جواب دیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے شکایت پیش کردی اگر آج کل کی برادری پرستی ہوتی تو اپنی برادری کے سردار کی یہ بات وہ کبھی حضور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہ پہنچاتے۔- اس واقعہ میں خود ابن ابی کے صاحبزادے عبداللہ کے واقعہ نے اس کو کس قدر روشن کردیا کہ ان کی محبت و عظمت کا اصل تعلق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے تھا، جب اپنے باپ سے ان کے خلاف بات سنی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر خود اپنے باپ کا سر قلم کرنے کی پیشکش کردی اور اجازت طلب کی، آپ نے اس سے روک دیا، تو مدینہ کے قریب پہنچ کر باپ کی سواری کو بٹھا دیا اور مدینہ جانے کا راستہ روک کر باپ کو مجبور کیا کہ وہ یہ اقرار کرے کہ عزت دار صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں وہ خود ذلیل و خوار ہے، پھر آپ کی اجازت ملنے سے پہلے باپ کا راستہ نہیں کھولا، جس کو دیکھ کر بےساختہ زبان پر آتا ہے۔- تو نخل خوش ثمر کیستی کہ سرو وسمن ہمہ زخویش برید ندد باتو پیو ستند - اس کے علاوہ بدر واحد اور احزاب کی جنگوں نے تو بذریعہ تلوار اس قوم پرستی اور وطن پرستی کے بت کے ٹکڑے اڑائے ہیں، جس نے ثابت کردیا کہ مسلمان کسی قوم و وطن اور کسی رنگ و زبان کا ہو وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جو اللہ و رسول کو نہ مانے وہ اگرچہ حقیقی بھائی اور باپ ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن ہے۔- ہزار خویش کہ بیگانہ خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کا شنا باشد - مسلمانوں کے مصالح عامہ کی رعایت اور ان کو غلط فہمی سے بچانے کا اہتمام :- اس واقعہ نے ہمیں ایک سبق یہ دیا کہ جو کام فی نفسہ جائز و درست ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی یہ خطرہ ہو کہ کسی مسلمان کو خود غلط فہمی پیدا ہوگی یا دشمنوں کو غلط فہمی پھیلانے کا موقع ملے گا تو یہ کام نہ کیا جائے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رئیس المنافقین ابن ابی کا نفاق کھل جانے کے بعد بھی فاروق اعظم کے اس مشورہ کو قبول نہیں فرمایا کہ اس کو قتل کیا جائے، کیونکہ اس میں خطرہ یہ تھا کہ دشمنوں کو عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کا موقع مل جائے گا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کو بھی قتل کردیتے ہیں۔- مگر دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ غلط فہمی کے خطرہ سے ایسے کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے جو مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہوں گو مستحب اور کار ثواب ہوں، کسی مقصد شرعی کو ایسے خطرہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا بلکہ خطرہ کے ازالہ کی فکر کی جائے گی اور اس کام کو کیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۝ ٠ ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۝ ١ ۚ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ- نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے - مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔- ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے - چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اشھد کا لفظ بمعنی میں قسم کھاتا ہوں - قول باری ہے (اذا جاء ک المنافقون قالواشھد انک لرسول اللہ، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں) تا قول باری (اتخذوا ایمانھم جنۃ فصدوا عن سبیل اللہ ، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنارکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خودرکتے اور دنیا کو روکتے ہیں)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اشھد (میں گواہی دیتا ہوں) کا لفظ قسم ہوتا ہے۔ کیونکہ منافقین نے لفظ ” شھد “ استعمال کیا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قسم قرار دیا۔ چناچہ ارشاد ہوا (اتخذوا ایمانھم جنۃ) اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ ” اشھد، اقسم اعزم اور احلف “ کے الفاظ سب قسم کے الفاظ ہیں۔- زفر کا قول ہے کہ اگر کوئی کہے ” اقسم لافعلن “ (میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ فلاں کام کروں گا) یہ تو قسم ہوگی اور اگر ” اشھد لا فعلن “ کا فقرہ کہے گا تو قسم نہیں ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر ” اقسم “ کے لفظ سے اس کی مراد ” اقسم باللہ “ (اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں) ہو تو یہ قسم ہوگی ورنہ یہ فقرہ بےمعنی ہوگا۔ یہی صورت ” احلف “ (میں حلف اٹھاتا ہوں) کی ہے۔- امام مالک نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ” اعزم “ (میں عزم کرتا ہوں) کہے تو یہ قسم نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ یہ کہے ” اعزم باللہ “ (میں اللہ کے نام کے ساتھ عزم کرتا ہوں) اگر کوئی کہے ” علی نذر “ (مجھ پر نذر ہے) یا کہے ” علی نذر للہ “ (مجھ پر اللہ کے لئے نذر ہے) تو اس فقرے سے جو اس کی نیت ہوگی اس کے مطابق ہوگا۔ اگر اس کی کوئی نیت نہ ہو تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہوگا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ لفظ ” اقسم “ قسم نہیں ہے البتہ ” اقسم باللہ “ قسم ہے۔ بشرطیکہ وہ قسم کا ارادہ کرے اگر وہ اس فقرے سے وعدہ کا ارادہ کرے گا تو یہ قسم نہیں ہوگی۔ اسی طرح فقرہ ” اشھد باللہ “ سے اگر قسم کی نیت ہوگی تو یہ قسم ہوگی اور اگر قسم کی نیت نہیں ہوگی تو یہ قسم نہیں ہوگی۔ اگر وہ ” اعزم باللہ “ کہہ کر قسم کا ارادہ کرے گا تو قسم ہوجائے گی۔- الربیع نے امام شافعی کی طرف سے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ” اقسم “ یا ” اشھد “ یا ” اعزم “ کہے اور اس کے ساتھ ” باللہ “ کا لفظ نہ ملائے تو یہ اس کے قول ” واللہ “ کی طرح ہوگا۔ اگر وہ ” احلف باللہ “ کہتا ہے تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا الایہ کہ وہ قسم کی نیت کرے۔- ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فقرہ ” اشھدب اللہ “ قسم کا فقرہ ہے اسی طرح لفظ ” اشھد “ بھی قسم کا فقرہ ہونا چاہیے۔ اس کے دو وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔- پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قسم قرار دیا ہے جبکہ اس فقرے کے ساتھ اللہ کے نام کا الحاق نہیں ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ، ان میں سے ایک کی گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کا نام لے کر گواہی دے) اللہ تعالیٰ نے لفظ شھادۃ سے علیٰ الاطلاق قسم کی تعبیر کی ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ فقرہ ” اشھدب اللہ “ قسم کے موقعہ پر بولا جاتا ہے اس لئے یہ واجب ہے کہ اللہ کے نام کو حذف کرنے اور اسے ذکر کرنے کی صورتوں میں اس فقرے کے حکم میں کوئی اختلاف واقع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں قسم کے لفظ کے ساتھ کبھی اللہ کے نام کا ذکر کیا ہے اور کبھی اسے حذف کردیا ہے لیکن دونوں صورتوں میں فقرے کا مفہوم یکساں ہے۔- چنانچہ ارشاد ہے (واقسموا باللہ جھدا ایمانھم اور انہوں نے اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھائی تھیں) دوسری جگہ ارشاد ہوا (اذا اقسموا لیصرمنھا مصبحین، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح اٹھ کر ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے) اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اللہ کے نام کو محذوف کردیا کیونکہ مخاطبین کو اس کا علم تھا کہ یہاں یہ لفظ پوشیدہ ہے اور ایک جگہ اسے ظاہر کردیا۔- زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک خواب کی تعبیر بیان کی جسے سن کر آپ نے فرمایا : ” ابوبکر (رض) تم نے ایک حصے کی تعبیر درست کی ہے اور ایک حصے کی تعبیر میں تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے ضرور بتادیں۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” ابوبکر قسم نہ کھائو۔ “ - ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا : ” اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے ضرور بتادیں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کے قول ” اقسمت علیک “ (میں آپ کی قسم دے کر کہتا ہوں) کو قسم قرار دیا۔- بعض لوگ قسم کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا تھا ” لا تقسم “ (ابوبکر (رض) قسم نہ کھائو) بعض لوگ قسم کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو قسم کھانے سے اس لئے منع فرمایا تھا کہ خواب کی تعبیر کی حیثیت ایک ظن اور گمان کی ہوتی ہے جس میں غلطی واقع ہوسکتی ہے۔- یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو کوئی دوسرا آدمی قسم دے اس پر اس قسم کو پورا کرنا لازم نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب کی تعبیر بتانے کی قسم دی تھی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس قسم کو پورا نہیں کیا۔ - یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو خواب کی تعبیر معلوم ہو اس پر اسے دوسرے کو بتانا لازم نہیں ہوتا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو اس خواب کی تعبیر نہیں بتائی تھی۔- ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو شام کا گورنر مقرر کردیا تھا۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ ” میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گویا اونٹ پر پالان کس رہا ہوں۔ “ جب انہوں نے شام کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے عرض کیا کہ ” آپ عمر (رض) کو شام جانے دے رہے ہیں، بخدا عمر (رض) آپ کے پاس رہ کر بھی شام کے معاملات سدھارنے میں آپ کے لئے کافی ہوں گے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا : ” میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ ٹھہر جائو۔ “- حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند متروکہ چیزوں کی ملکیت کے متعلق جب حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کے مابین تنازعہ پیدا ہوگیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عباس (رض) سے اپنی ذات پر حضرت علی (رض) کو ترجیح دینے کے لئے کہا اور فرمایا : ” میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم یہ چیزیں علی کے حوالے کردو۔ “- حضرت برا بن عازب نے روایت کی ہے کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم پوری کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات قسم کی اباحت پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ قسم کا لفظ یمین ہے یعنی اس لفظ سے قسم واقع ہوجاتی ہے۔- تاہم قسم پوری کرنے کا حکم استحباب پر محمول ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ قسم پوری نہیں کی تھی جو حضرت ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھی اور یہ کہا تھا (اقسمت علیک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قسم دیتا ہوں)- حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، علقمہ، ابراہیم نخعی، ابوالعالیہ اور حسن سے مروی ہے کہ قسم کا لفظ یمین ہوتا ہے۔ حسن اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ ” اقسمت “ اور ” اقسمت باللہ “ دونوں کا مفہوم ایک ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جب آپ کے پاس یہ مدینہ منورہ کے منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، معتب بن قشیر، جد بن قیس وغیرہ آتے ہیں۔ تو اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ تو اللہ کو معلوم ہی ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اس میں ان منافقین کی گواہی کی کوئی حاجت نہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں وہ اس چیز کو نہیں جانتے۔- شان نزول : اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ (الخ)- امام بخاری نے حضرت زید بن ارقم سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی منافق کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو لوگ رسول اکرم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو باہر نکال دے گا میں نے اس چیز کا اپنے چچا سے ذکر کیا، میرے چچا نے رسول اکرم سے ذکر کیا، حضور نے مجھے بلایا میں نے آپ سے سارا واقعہ بیان کیا تو رسول اکرم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے پاس قاصد بھیجا ان لوگوں نے اس کے بارے میں جھوٹی قسمیں کھالیں۔ غرض کہ آپ نے میری تکذیب کی اور اس کی تصدیق تو اس بات سے مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا میں گھر میں بیٹھ گیا میرے چچا کہنے لگے کہ تو نے بس یہی چاہا تھا کہ حضور تیری تکذیب کریں اور تجھ سے ناراض ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں، حضور نے میرے پاس قاصد بھیجا اور مجھے پڑھ کر یہ آیات سنائیں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیری تصدیق کردی، یہ روایت حضرت زید سے مختلف طریقوں سے مروی ہے اور بعض میں ہے کہ یہ بات غزوہ تبوک میں پیش آئی اور یہ سورت رات کو نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ ٧ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “- وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ ” اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اس کے رسول ہیں۔ “- وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَــکٰذِبُوْنَ ۔ ” اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔ “- یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے دیتے ہیں ‘ ان کے دل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ‘ اس لیے یہ لوگ جھوٹے (کٰذِبُوْنَ ) ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی کلمات میں ذکر ہوا ہے بات بات پر جھوٹ بولنا مرض منافقت کی پہلی سٹیج ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :1 یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی ، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں ، اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے ۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے ۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ ۔ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو ، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو ، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا ۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو ، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے ۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو ، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سے سچا ہے ۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی ، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے ۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani