Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی تمام معاملات اسی کو سونپیں، اسی پر اعتماد کریں اور صرف اسی سے دعا والتجا کریں کیونکہ اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے ہی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] توکل اللہ پر ہی کیوں ؟ اس کائنات میں تصرفات کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور پورے کا پورا اختیار اسی کو ہے۔ دوسرا کوئی اس اختیار میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ لہذا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ صرف اس اللہ پر بھروسہ کیا جائے جس کے قبضہ قدرت میں جملہ اختیارات ہیں۔ ہر طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب پر اسی کا کنٹرول ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس صفت پر دل سے یقین رکھتا ہے اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اس کا در چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازے پر جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَﷲُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَط وَعَلَی اللہ ِ ۔۔۔۔: یعنی جس طرح تقدیر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی مصیبت یا راحت ہے اسی کے حکم سے آتی ہے ، اسی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ہستی ہے جو ہر عبادت کی مستحق ہے ، اسکے سوا کوئی معبود نہیں ، اس لیے رنج ہو یا راحت ہر حال میں اسی کو پکارو اور اسی پر توکل رکھو ، کیونکہ پکارنا بھی عبادت ہے اور توکل بھی عبادت ہے اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اس کے پاس اس اکیلے پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ، کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں رنج یا راحت میں سے کچھ سے ہی نہیں کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١٣- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے مومنین کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ہُوَط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ ” اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پس اہل ایمان کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ “- اے اہل ایمان اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ‘ جو کچھ بھی ہوگا وہ اللہ کی مشیت اور مرضی سے ہوگا ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ محنت کرو اور اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ اگر تم کوئی کام کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہو ‘ تمہارے پاس تمام وسائل بھی موجود ہیں اور تم حالات کو بھی کلی طور پر سازگار دیکھتے ہو تو بھی کبھی مت کہنا کہ میں یہ کام ضرور کرلوں گا۔ اگر تم ایسا دعویٰ کر بیٹھو گے تو ایمان سے دور ہوجائو گے : وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ز (الکہف) ” اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کریں کہ میں یہ کام کل ضرور کروں گا۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے “ کثرتِ وسائل کے زعم میں فتح کی امید رکھو گے تو وہی حال ہوگا جو لشکر اسلام کا وادی حنین میں ہوا تھا۔ وادی حنین میں دشمن کی تیر اندازی کی وجہ سے اہل ایمان کی صفوں میں ایسی بھگدڑ مچی تھی کہ بارہ ہزار کے لشکر میں سے سید سلیمان ندوی (رح) کی تحقیق کے مطابق تین چار سو اور ان کے استاد مولانا شبلی نعمانی (رح) کے مطابق صرف تیس چالیس لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑے رہ گئے تھے۔ سورة التوبہ کی آیت ٢٥ میں اس کا سبب بھی بتادیا گیا : اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ (التوبۃ : ٢٥) کہ اس دن اہل ِ ایمان میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں اپنی کثرت تعداد کا زعم پیدا ہوگیا تھا۔ بہرحال مومنین کو ہر طرح کے حالات میں اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے اور صادق الایمان مومنین ہر حالت میں بلاشبہ اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ یہ توکل علی اللہ بھی شجر ایمان کا وہ پھول ہے جو اہل ایمان کے دلوں اور ذہنوں کے اندر کھلتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا تیسرا ثمرہ ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تہذیب و تمدن کی گاڑی کو چلانے کے لیے ” علائق دنیوی “ کے ضمن میں بہت سی فطری محبتیں انسان کے دل میں ڈال دی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ قوی محبت بیویوں اور اولاد کی محبت ہے۔ اس طبعی محبت کی طرف اگلی آیت میں متنبہ فرمایا گیا کہ اگر اس میں حد اعتدال سے تجاوز ہوجائے تو یہی محبت انسان کے لیے دشمنی کا روپ دھار لے گی۔ لہٰذا اس کے ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :28 یعنی خدائی کے سارے اختیارات تنہا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ کوئی دوسرا سرے سے یہ اختیار رکھتا ہی نہیں ہے کہ تمہاری اچھی یا بری تقدیر بنا سکے ۔ اچھا وقت آ سکتا ہے تو اسی کے لائے آ سکتا ہے ، اور برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسی کے ٹالے ٹل سکتا ہے ۔ لہٰذا جو شخص سچے دل سے اللہ کو خدائے واحد مانتا ہو اس کے لیے اس کے سوا سرے سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھے اور دنیا میں ایک مومن کی حیثیت سے اپنا فرض اس یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے چلا جائے کہ خیر بہر حال اسی راہ میں ہے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے ۔ اس راہ میں کامیابی نصیب ہو گی تو اللہ ہی کی مدد اور تائید و توفیق سے ہو گی ، کوئی دوسری طاقت مدد کرنے والی نہیں ہے ۔ اور اس راہ میں اگر مشکلات و مصائب اور خطرات و مہالک سے سابقہ پیش آئے گا تو ان سے بھی وہی بچائے گا ، کوئی دوسرا بچانے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani