Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے ہیں اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں پس اس آزمائش میں تم اسی وقت سرخرو ہوسکتے ہو جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مال واولاد جہاں اللہ کی نعمت ہیں وہاں انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں اس طرح اللہ دیکھتا ہے کہ کون میرا فرمانبردار ہے اور کون نافرمان۔ 15۔ 2 یعنی اس شخص کے لئے جو مال و اولاد کی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] مال اور اولاد ہر انسان کی آزمائش ہے :۔ یہاں آزمائش کے لئے فتنۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فتنۃ میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے اور یہ آزمائش اس طرح آہستہ آہستہ ہوتی ہے کہ دوسرے تو کیا بسا اوقات خودمفتون کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی آزمائش میں پڑچکا ہے۔ یہاں بتایا یہ گیا ہے کہ بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ لیکن مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جو ساری کی ساری اور سب انسانوں کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اور ان چیزوں سے اللہ آزمائش اس طرح کرتا ہے کہ کون ان فانی اور زائل ہونے والی چیزوں میں پھنس کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے اور کون انہی چیزوں کو اپنے لئے آخرت میں ذخیرہ کا ذریعہ بناتا ہے اور وہاں کے اجر عظیم کو دنیا کی دلفریبیوں پر ترجیح دیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔۔۔۔۔: اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (١٤) ، انفال (٢٨) ، کہف (٤٦) اور سورة ٔ منافقون (٩)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ، فتنہ کے معنی ابتلاء اور امتحان کے ہیں، مراد آیت کی یہ ہے کہ مال واولاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کرتا ہے کہ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر احکام و فرائض سے غفلت کرتا ہے یا محبت کو اپنی حد میں رکھ کر اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتا۔- مال و اولاد انسان کے لئے بڑا فتنہ ہیں :- اکثر گناہوں میں خصوصاً حرام کمائی میں انہیں کی محبت کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز بعض اشخاص کو لایا جائے گا اس کو دیکھ کر لوگ کہیں گے :۔ اکل عیالہ حسناتہ ” یعنی اس کی نیکیوں کو اس کے عیال نے کھالیا “ (روح) ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولاد کے بارے میں فرمایا مبخلتہ مجبنة ” یعنی یہ بخل اور جبن یعنی نامردی اور کمزوری کے اسباب ہیں “ کہ ان کی محبت کی وجہ سے آدمی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے رکتا ہے، انہیں کی محبت کی وجہ سے جہاد میں شرکت سے رہ جاتا ہے، بعض سلف صالحین کا قول ہے الحیال سوس الطاعات ” یعنی عیال انسان کی نیکیوں کے لئے گھن ہے “ جیسا گھن غلہ کو کھا جاتا ہے یہ اس کی نیکیوں کو کھا جاتے ہیں “۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝ ١٥- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ تمہارے اموال و اولاد جو کہ مکہ مکرمہ میں ہیں تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہے جبکہ ہجرت اور جہاد سے تمہیں روکیں اور جو شخص ان چیزوں کے باوجود ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کرے تو اس کے لیے بڑا اجر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ اِنَّمَآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔ “- تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مال و دولت دنیا ‘ یہ رشتہ و پیوند تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں : زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط (آل عمران : ١٤) ” مزین کردی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے اور نشان زدہ گھوڑے اور مال مویشی اور کھیتی “۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں یہ محبتیں پیدا ہی ان کو آزمانے کے لیے کی ہیں۔ اس کا تو اعلان ہے کہ میرے جس بندے کے دل میں مجھ تک پہنچنے کی تڑپ ہے ‘ اسے ان تمام رکاوٹوں اور آزمائشوں کو عبور کر کے آنا ہوگا : ؎- انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو - مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :- (حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ ) (١)- ” جہنم کو نفس کی مرغوب چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ “- ان ناپسندیدہ چیزوں میں مال و اولاد کی محبتوں کی قربانی سرفہرست ہے۔ آج اگر کسی شخص کے بارے میں آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس کے دل میں کتنا ایمان ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر ایک شخص اگر بہت بڑا عالم دین ‘ صوفی ‘ مسند نشین اور پیر طریقت ہے لیکن اپنی اولاد کو وہ ایمان وآخرت کے راستے پر ڈالنے کے بجائے پیسے بنانے والی مشین بنانے کی کوشش میں ہے تو جان لیجیے کہ اس کے باطن میں دین اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب اس سلسلے کی تیسری بات سنیے :- وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ ” اور اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے۔ “- تمہارے اعمال کا اصل اجر اور بدلہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملے گا ‘ لہٰذا کسی اور سے کسی اجر کی توقع نہ رکھنا۔ اولاد کے بارے میں بھی مت امید رکھنا کہ وہ تمہارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ ہوسکتا ہے یہی اولاد جس کے لیے آج تم اپنا ایمان تک دائو پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہو ‘ بڑھاپے میں تمہیں ٹھوکریں مارے اور بعض اوقات اولاد کی زبان کی ٹھوکریں والدین کے لیے ان کی پائوں کی ٹھوکروں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اس تکلیف کی کیفیت اس باپ سے پوچھیں جس کا بیٹا اس کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے : ابا جان آپ ہمیشہ بےموقع بات کرتے ہیں ‘ اس معاملے میں آپ خاموش رہیں ‘ آپ کو کیا معلوم کہ زمانہ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الانفال ، حاشیہ 23 ۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جسے طبرانی نے حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے کہ تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کر دے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے ، بلکہ تیرا اصل دشمن ، ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صُلب سے پیدا ہوا ہے ، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اور سورہ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب رہو ۔ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: آزمائش یہ ہے کہ اِنسان مال ودولت اور اولاد کی محبت میں منہمک ہو کر اﷲ تعالیٰ کے احکام سے غافل تو نہیں ہوتا، اور جو شخص ایسی غفلت سے اپنے آپ کو بچالے، اُس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے پاس بڑا اَجر وثواب ہے۔