9۔ 1 قیامت کو یوم الجمع اس لیے کہا کہ اس دن اول وآخر سب ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے فرشتے کی آواز سب سنیں گے ہر ایک کی نگاہ آخر تک پہنچے گی کیونکہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔ 9۔ 2 یعنی ایک گروہ جیت جائے گا اور ایک ہار جائے گا، اہل حق اہل باطن پر، ایمان والے اہل کفر پر اور اہل طاعت اہل معصیت پر جیت جائیں گے، سب سے بڑی جیت اہل ایمان کو یہ حاصل ہوگی کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور سب سے بڑی ہار جہنمیوں کے حصے آئے گی جو جہنم میں داخل ہونگے۔
[١٧] تغابن کی لغوی تشریح اور مفہوم :۔ تغابن۔ غبن معروف لفظ ہے بمعنی چوری چھپے کسی دوسرے کا حق مار لینا، اور تغابن بمعنی چوری چھپے ایک دوسرے کے حقوق، خواہ ان کا تعلق مال و دولت سے ہو یا دوسرے حقوق سے مارنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دنیا میں جو تغابن ہوتا ہے اور ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ یہ حقیقی نہیں بلکہ اس کے نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً زید نے بکر کا حق غصب کیا تو یہاں دنیا میں اس کی ظاہری صورت یہ ہے کہ زید فائدہ میں رہا اور بکر خسارے میں رہا۔ لیکن قیامت کے دن جب زید سے بکر کا غبن کیا ہوا حق زید کو واپس دلایا جائے گا تو بکر فائدے میں رہے گا اور زید خسارے میں رہے گا۔ گویا آخرت میں فائدے اور خسارے کے نتائج دنیا کے نتائج کے برعکس ہوں گے۔ اس لحاظ سے زید ہار گیا اور بکر جیت گیا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ نے صحابہ (رض) سے پوچھا : جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہ ہو آپ نے فرمایا : حقیقتاً مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سی نیکیاں لے کر آئے گا تو اس سے حق وصول کرنے والے اللہ کے دربار میں اپنے اپنے حق کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اس کی نیکیاں حقداروں کو دے دی جائیں گی حتیٰ کہ اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) اب انفرادیت سے آگے اجتماعیت کی طرف آئیے۔ ایک فریق وہ ہے جس نے مسلمانوں پر مظالم ڈھا کر ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ اور وہ سمجھتا یہ ہے کہ ہم ہی غالب اور کامیاب ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قابلیتیں، وقت اور مال و دولت اس کام پر لگا رکھے ہیں کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کردیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ان ظالموں کے مظالم کی چکی میں پس رہا ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ مغلوب و مقہور ہیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب قیامت کو ان سب لوگوں کے اعمال کے نتائج سامنے آئیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ کون خسارے میں رہا اور کون فائدے میں اور کون ہارا اور کون جیتا ؟
١۔ یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ : یہ ” لتبعثن ثم لتنبون “ کا ظرف ہے ، قیامت کے دن ” یوم الجمع “ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن تمام پہلے اور پچھلے ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے۔ ( دیکھئے ہود : ١٠٣۔ صافات : ٤٩، ٥٠۔ شوریٰ : ٧۔ مرسلات : ٣٨)” یوم الجمع “ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن انسان کے جسم کی ہر ہڈی اور ہر ذرہ جو منتشر ہوچکا ہوگا جمع کردیا جائے گا ، جیسا کہ فرمایا :( اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ ) ( القیامہ : ٣)” کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے “۔- ٢۔ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ :” غبن “ (ن) ” فلانا فی البیع “ بیع میں دوسرے کو نقصان پہنچا کر خود فائدہ حاصل کرلینا ۔ طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے ، انہوں نے ” ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ “ کے متعلق فرمایا :( ھو اسم من اسماء یوم القیامۃ و ذلک ان اھل الجنۃ یغبنون اھل النار)” یعنی یوم التغابن قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ نام اس لیے ہے کہ اس دن جنتی جہنمیوں کو نقصان میں رکھ کر خود فائدہ حاصل کریں گے “۔ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اس نفع نقصان کی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے آگے بیان فرما دی ہے کہ ایمان اور عمل صالح والوں کو کیا حاصل ہوگا اور کفر و تکذیب والوں کے حصے میں کیا آئے گا ۔- ٣۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا ۔۔۔: یہ اس دن کی ہار جیت میں سے جیت والوں کے حصے کا بیان ہے۔
قیامت کو یوم تغابن کہنے کی وجہ :- (آیت) يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ” جس روز تم کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا جمع کرنے کے دن میں، یہ دن ہوگا تغابن کا یعنی خسارہ کا “ یوم الجمع اور یوم التغابن دونوں قیامت کے نام ہیں، یوم الجمع ہونا اس دن کا تو ظاہر ہے کہ تمام مخلوق اولین و آخرین کو اس روز حساب کتاب اور جزاء و سزا کے لئے جمع کیا جائے گا اور یوم التغابن اس لئے کہ تغابن غبن سے مشتق ہے جس کے معنی خسارے اور نقصان کے ہیں، مالی نقصان اور خسارہ کو بھی غبن کہا جاتا ہے اور رائے اور عقل کے نقصان کو بھی، امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ مالی خسارے کے لئے یہ لفظ بصیغہ مجہول غبن فلان فہومغبون استعمال کیا جاتا ہے اور عقل و رائے کے نقصان کے لئے باب سمع سے غبن استعمال کیا جاتا ہے، لفظ تغابن اصل کے اعتبار سے دو طرفہ کام کے لئے بولا جاتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو اور دوسرا اس کو نقصان پہنچائے یا اس کے نقصان و خسارہ کو ظاہر کرے، یہاں مراد یک طرفہ اظہار غبن ہے، جیسا کہ یک طرفہ استعمال بھی اس لفظ کا معروف و مشہور ہے، قیامت کو یوم تغابن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے آخرت میں دو گھر پیدا کئے ہیں، ایک جہنم میں دوسرا جنت میں، اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان کا وہ مقام بھی دکھلایا جائے گا جو ایمان اور عمل نہ ہونے کی صورت میں اس کے لئے مقرر تھا تاکہ اس کو دیکھنے کے بعد جنت کے مقام کی اور زیادہ قدر اس کے دل میں پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کو مزید شکر گزار ہو، اسی طرح اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرنے سے پہلے ان کا جنت کا وہ مقام دکھلایا جائے گا جو ایمان اور عمل صالح کی صورت میں ان کے لئے مقرر تھا تاکہ ان کو اور زیادہ حسرت ہو، ان روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر جنت میں جو مقامات اہل جہنم کے تھے وہ بھی اہل جنت کو مل جائیں گے اور جہنم میں جو مقامات اہل جنت کے تھے وہ بھی اہل جہنم کے حصہ میں آجائیں گے، یہ روایات حدیث صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں مختلف الفاظ سے مفصل آئی ہیں، اس وقت جبکہ کفار فجار اور اشقیاء کے جنتی مقامات بھی اہل جنت کے قبضہ میں آئیں گے تو ان کو اپنے غبن اور خسارے کا احساس ہوگا کہ کیا چھوڑ اور کیا پایا۔- صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے سوال فرمایا کہ تم جانتے ہو مفلس کون شخص ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس مال متاع نہ ہو، اس کو مفلس سمجھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت میں اپنے اعمال صالحہ نماز، روزہ، زکوٰة وغیرہ کا ذخیرہ لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ دنیا میں کسی کو گالی دی، کسی پر بہتان باندھا، کسی کو مارا یا قتل کیا، کسی کا مال ناحق لے لیا (تو یہ سب جمع ہوں گے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے) کوئی اس کی نماز لے جائے گا، کوئی روزہ، کوئی زکوٰة اور دوسری حسنات اور جب حسنات ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کے گناہ اس ظالم پر ڈال کر بدلہ چکایا جائے گا جس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔- اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا کوئی حق ہو اس کو چاہئے کہ دنیا ہی میں اس کو ادا یا معاف کرا کر سبکدوش ہوجائے، ورنہ قیامت کے دن درہم و دینار تو ہوں گے نہیں جس کا مطالبہ ہوگا اس کو اس شخص کے اعمال صالحہ دے کر بدلہ چکایا جائے گا، اعمال صالحہ ختم ہو جائینگے تو بقدر اس کے حق کے مظلوم کا گناہ اس پر ڈال دیا جائے گا (مظہری) - حضرت ابن عباس اور دوسرے ائمہ تفسیر نے قیامت کو یوم التغابن کہنے کی یہی وجہ بیان کی ہے اور بہت سے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس دن غبن اور خسارے کا احساس صرف کفار فجار اور اشقیاء ہی کو نہیں بلکہ صالحین مومنین کو بھی اس طرح ہوگا کہ کاش ہم عمل اور زیادہ کرتے تاکہ جنت کے مزید درجات حاصل کرتے، اس روز ہر شخص کو اپنی عمر کے اوقات پر حسرت ہوگی، جو فضول ضائع کئے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔- من جلس مجلسالم یذ کر اللہ فیہ کان علیہ ترة یوم القیامة- ” جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور پوری مجلس میں اللہ کا ذکر نہ کیا تو یہ مجلس قیامت کے روز اس کے لئے حسرت بنے گی “- قرطبی میں ہے کہ ہر مومن اس روز احسان عمل میں اپنی کوتاہی پر اپنے غبن و خسارہ کا احساس کرے گا قیامت کا نام یوم تغابن رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سورة مریم میں اس کا نام یوم الحسرة آیا ہے۔- (آیت) و انذر ھم یوم الحرة اذقضی الامر، روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ اس روز ظالم اور بدعمل لوگ اپنی تقصیرات پر حسرت کریں گے اور مومنین صالحین نے بھی جو احسان عمل میں کوتاہی کی ہے اس پر ان کو حسرت ہوگی اس طرح قیامت کے روز سبھی اپنی اپنی کوتاہی پر نادم اور عمل کی کمی پر غبن و خسارہ کا احساس کریں گے، اس لئے اس کو یوم التغابن کہا گیا۔
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ٠ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْہُ سَـيِّاٰتِہٖ وَيُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا ٠ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٩- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - غبن - الغَبْنُ : أن تبخس صاحبک في معاملة بينک وبینه بضرب من الإخفاء، فإن کان ذلک في مال يقال : غَبَنَ فلانٌ ، وإن کان في رأي يقال : غَبِنَ وغَبِنْتُ كذا غَبَناً : إذا غفلت عنه فعددت ذلک غَبَناً ، ويوم التَّغَابُنِ : يوم القیامة لظهور الغَبْنِ في المبایعة المشار إليها بقوله : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ [ البقرة 207] ، وبقوله : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ... الآية [ التوبة 111] ، وبقوله : الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ، فعلموا أنّهم غُبِنُوا فيما ترکوا من المبایعة، وفیما تعاطوه من ذلک جمیعا، وسئل بعضهم عن يوم التَّغَابُنِ ؟ فقال : تبدوا الأشياء لهم بخلاف مقادیرهم في الدّنيا، قال بعض المفسرین : أصل الْغُبْنِ : إخفاء الشیء، والْغَبَنُ بالفتح : الموضع الذي يخفی فيه الشیء، وأنشد : ولم أر مثل الفتیان في غَبَنِ ال ... أيام ينسون ما عواقبهاوسمّي كلّ منثن من الأعضاء كأصول الفخذین والمرافق مَغَابِنَ لاستتاره، ويقال للمرأة : إنها طيّبة المَغَابِنِ.- ( غ ب ن ) الغبن ( ض ) کے معنی باہمی معاملہ میں پوشیدہ طور پر اپنے ساتھی کا حق مارنے کے ہیں اگر یہ کمی مال وغیرہ میں ہو تو غبن فلان کہاجاتا ہے اور اگر رائے وغیرہ میں ہو تو غبن کہتے ہیں اور غبنت کذا غبنا کے معنی کسی چیز سے غلفت برتنے کو خسارا خیال کرنے کے ہیں اور قرآن پاک میں ويوم التَّغَابُنِ نقصان اٹھانے کا دن ۔ سے یوم القیامۃ مراد ہے کیونکہ قیامت کے روز اس مبادیعت ( معاملہ ) میں جسکی طرف کو آیت : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ [ البقرة 207] اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ... الآية [ التوبة 111] آلایۃ خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں ۔ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] جو لوگ خدا کے اقراروں اور اپنی قسمون کو بیچ ڈالتے ہیں اور ان کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں ۔ میں ارشاد ہ فرمایا ہے نقصان ظاہر ہوگا اور انہیں معلوم ہوجائیگا کہ دنیا می اس معاملہ کو جو انہوں نے اپنے خدا کے ساتھ کیا تھا چھوڑ کر اس کی بجائے متاع دینا حاصل کر کے انہوں نے کس قدر نقصان اٹھایا ہے کسی سے دریافت کیا گیا کہ قرآن میں قیامت کو یوم التغابن کیوں کہا گیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کیونکہ وہاں ان مقادیر ( پیمانوں ) کے خلاف اشیاء کا ظہور ہوگا جن کے مطابق وہ دنیا میں اندازہ لگایا کرتے تھے ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اصل میں غبن کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور الغبن ( بفتح البار ) اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز چھپائی جائے اور دلیل میں یہ شعر پیش کیا ہے ۔ ( المسرح ) ( 327) الم ارمغل الفتیان فی غبن الرای ینسیٰ عواقبھا اس رائے کے چھپانے میں نو جوانوں جیسا کوئی نہیں دیکھا جس کے نتائج کو بھلا دیا جائے ۔ چناچہ مڑنے والے اعضا جیسے بغل کے یہ حصے اور کنج ران وغیرہ کو مغابن کہا جاتا ہے کیونکہ اعضاء کے یہ حصے بھی پوشیدہ رہتے ہیں اور ( نفاست پسند ) عورت کو طیبتہ المغابن - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] .- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ - میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- ابد - قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا .- وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل :- آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء .- وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد .- وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد :- الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب .- اب د ( الابد)- :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ تمام اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا اسی روز کافر اپنی جان و مال و اولاد اور جنت سے گھاٹے میں رہے گا اور مومن وارث ہوجائے گا یا یہ کہ مومن کافر کو اس کے اہل و عیال کے بارے میں نقصان پہنچائے گا یا یہ کہ کافر اپنی جان کو جنت نہ ملنے سے نقصان پہنچائے گا اور مومن اس کا وارث ہوگا اور مظلوم ظالم کی نیکیاں لے کر اور اپنی برائیاں اس پر ڈال کر ظالم کو نقصان پہنچائے گا اور جو شخص اللہ پر اور رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہو اور نیک اعمال کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو توحید کے ذریعے سے معاف کردے گا اور ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے چاروں طرف نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے کہ جنت ہاتھ آئی اور دوزخ سے بچے۔
آیت ٩ یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ ” جس دن کہ وہ تمہیں جمع کرے گا جمع ہونے کے دن کے لیے ‘ وہی ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا دن۔ “- اصل جیت بھی اس دن کی جیت ہے اور اصل ہار بھی اس دن کی ہار ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی ہار یا جیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دنیا کی ہار جیت تو کسی ڈرامے کے کرداروں کی ہار جیت کی طرح ہے ‘ جس کا متعلقہ کردار کی حقیقی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔۔ اب آگے وضاحت کی جا رہی ہے کہ قیامت کے دن کی جیت کس کے حصے میں آئے گی اور اس دن کی ہار کس کے گلے کا ہار بنے گی۔- وَمَنْ یُّـؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا ” اور جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور نیک اعمال کرے “- ان اعمال کی تفصیل آگے آئے گی۔ - یُّــکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہِ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط ” وہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی ‘ وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔ “- ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ ” یہ ہے بہت بڑی کامیابی۔ “- یہ جیت کی شرح ہوگئی ‘ یعنی جنت میں داخلہ اور ہمیشہ کا خلود گویا یہ ہے مستقل ‘ واقعی اور حقیقی جیت اس کے برعکس ہار کیا ہے ؟ اسے اگلی آیت میں واضح فرما دیا گیا :
سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :19 اجتماع کے دن سے مراد قیامت ، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہوں ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ ، وہ ایک ایسا دن ہو گا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا ( آیت 103 ) ۔ اور سورہ واقعہ میں فرمایا : قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلیٰ مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ، ان سے کہو کہ تمام پہلے گزرے ہوئے اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں ( آیت 50 ) ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :20 اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا ، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آئے ہیں ، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے ۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے ۔ تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی ۔ غَبُن زیادہ تر خرید و فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن رائے کے معاملہ میں ۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے ۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں : غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ ، ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی ۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ ، اس نے فلاں شخص کو خرید و فروخت میں دھوکا دے دیا ۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا ۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ ، فلاں شخص سے اپنا حق وصول کرنے میں مجھ سے بھول ہو گئی غَبِیْن ، وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی رائے کمزور ہو مَغْبُوْن ، وہ شخص جو دھوکا کھا جائے ۔ لاغبن ، الغفلۃ ، النسیان ، فوت الحظ ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء ، غبن کے معنی ہیں غفلت ، بھول ، اپنے حصے سے محروم رہ جانا ، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کارو بار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا ۔ امام حسن بصری نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے ۔ اس سے جب لفظ تغابُن بنایا جائے تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ تَغَابَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا ۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا ۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جانا ۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا ۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الرائے ثابت ہونا ۔ اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ ، وہ دن ہو گا تغابن کا ۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے ، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے ، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے ۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہو گا ۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا ۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا ۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا ۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا ، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا ۔ مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے ۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرِقاق میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دیا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ بُرا عمل کرتا ، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو ۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا ، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں ، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہو گا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہرجانہ یا تاوان دے سکے ۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے ۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کر سکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے ، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے ۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے ۔ بخاری ، کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے ، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہونگے ہی نہیں ۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی ، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے ۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن اُنیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو ، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہو گا ۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہو گا ۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا ، جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو ۔ فرمایا میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو ، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا ۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں ۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جا سکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے گئے ، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا ۔ ایک اور حدیث میں ، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بُریدہ سے نقل کیا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا پھر تمہارا کیا خیال ہے ؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا ؟ بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے ۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں ، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان ، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے ۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نافرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے ۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا ۔ دنیا میں یہ ہو سکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے ۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ ، آیات 16 ۔ 175 ۔ 207 ۔ آل عمران 77 ۔ 177 ۔ النساء 74 ۔ التوبہ 111 ۔ النحل 95 ۔ فاطر 29 ۔ الصف 10 ۔ ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے ۔ بد کردار خاندانوں کے افراد ، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو ، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے ، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ ، بے ایمان تاجروں ، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں ، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے ۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے ۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی ، بیوی ، شوہر ، اولاد ، دوست ، رفیق ، لیڈر ، پیر ، مرید ، یا حامی و مدد گار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا ۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت ، عداوت میں تبدیل ہو جائے گی ۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے ، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے ۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جا سکتی ہیں : البقرہ 167 ۔ الاعراف 37 تا 39 ۔ ابراہیم 21 ۔ 22 ۔ المومنون 101 ۔ العنکبوت 12 ۔ 13 ۔ 25 ۔ لقمٰن 33 ۔ الاحزاب 67 ۔ 68 ۔ سبا 31 تا 33 ۔ فاطر 18 ۔ الصّٰفّٰت 27 تا 33 ۔ صٓ59 تا 61 ۔ حٰم السجدہ 29 ۔ الذخرف 67 ۔ الدخان 41 ۔ المعارج 10تا 14 ۔ عبس 34 تا 37 ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :21 اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے ، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے ۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے ۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کر لیا ہو ، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق ہو ۔ لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں ۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں ۔
1: قرآنِ کریم نے یہاں ’تغابن‘‘ کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ایک دُوسرے کو نقصان یا حسرت میں مبتلا کریں۔ قیامت کے دن کوتغابن کا دن اس لئے کہا گیا ہے کہ اُس دن جو لوگ جنت میں جائیں گے، دوزخی لوگ انہیں دیکھ کر یہ حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے دُنیا میں ان جنتیوں جیسے عمل کئے ہوتے تو آج ہم بھی جنت کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھاتے، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کا ترجمہ ہار جیت کا دن کیا ہے۔ جو مفہوم کو اِختصار کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔