Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 حضرت مریم (علیہا السلام) کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا و آخرت میں شرف و کرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ 12۔ 2 کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔ 12۔ 3 یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں (رض) عنھن۔ (مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (رض) عنھن ہیں اور عائشہ (رض) کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی ان کا کوئی شوہر بھی نہیں تھا۔ گویا سیدہ مریم نے حلال اور حرام دونوں صورتوں سے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا اور پاکدامن رہیں۔- [٢٥] یعنی فرشتہ کے ذریعہ ایک روح پھونک دی۔ سیدنا جبرئیل نے آپ کے گریبان میں پھونک ماری جس کا نتیجہ استقرار حمل ہوا۔ اسی حمل سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ سورة مریم کے دوسرے رکوع میں یہ قصہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے۔- [٢٦] اس سے مراد وہ کلمات ہیں، جو فرشتوں نے سیدہ مریم سے کہے تھے۔ فرشتوں اور سیدہ مریم میں ہم کلامی کی یہ تفصیل پہلے سورة آل عمران کے پانچویں رکوع میں گزر چکی ہے۔ گویا اللہ نے انہیں جس کڑی آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا اس کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔ اور اسی وجہ سے انہیں یہ عظیم مرتبہ ملا تھا۔ اور اللہ کی کتابوں سے مراد تورات بھی ہوسکتی ہے اور انجیل بھی اور سابقہ صحیفے بھی۔ گویا سیدہ مریم نے ان سب کتابوں کی تصدیق کی تھی۔- [٢٧] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ سیدہ مریم اللہ کی اطاعت و عبادت پورے خشوع و خضوع، کامل توجہ اور دل کی رضامندی کے ساتھ بجا لاتی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کا سارا خاندان ہی ایسا تھا جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ۔۔۔۔: یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیو ی آسیہ اور مریم بنت عمران کا بیان فرمایا ہے کہ دونوں اعلیٰ درجے کے ایمان والی تھیں۔ قرآن مجید میں مریم بنت عمران کا نام صرف اس مقام پر نہیں بلکہ کئی جگہ آیا ہے اور یہ واحد قانون ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نام لیا ہے ۔ آیت کے اکثر الفاظ کی تشریح سورة ٔ انبیائ (٩١) میں اور دوسرے الفاظ کی تشریح مختلف آیات کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ ، کلمات رب سے مراد اللہ کے نزدل کردہ صحیفے ہیں جو انبیاء پر اترتے ہیں۔ اور کتب سے مراد معروف آسمانی کتابیں انجیل، زبور، تورات ہیں وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ قانت کی جمع ہے جس کے معنی عابد کے ہیں جو اپنی عبادت اور طاقت پر مداومت کرتا ہے۔ یہ حضرت مریم کی صفت ہے۔ حضرت ابوموسیٰ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مردوں میں سے بہت لوگ کامل ومکمل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف آسیہ فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران کامل ہوئیں (بخاری ومسلم، از مظہری) ظاہر یہ ہے کہ مراد کمالات نبوت ہیں کہ باوجود عورت ہونے کے ان کو حاصل ہوئے ( مظہری) واللہ اعلم - تمت سورة التحریم بعون اللہ وحمدہ فی غرة رجب ١٩٣١ یوم الثلثائ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِہٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ۝ ١٢ ۧ- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔- اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔- فرج - الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ- [ المؤمنون 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ- [ ق 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ- [ المرسلات 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ :- القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله .- ( ف ر ج ) الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- روح - الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر 53]- ( رو ح )- الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً- [ النحل 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ- [ الأحزاب 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] .- ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور دوسری حضرت مریم (علیہا السلام) ہیں جنہوں نے اپنی ناموس کو حلال و حرام سے محفوظ رکھا تو ہم نے بواسطہ جبریل امین ان کے گریبان میں اپنی روح پھونک دی جس سے وہ حاملہ ہوگئیں اور جبریل امین نے ان سے جو فرمایا تھا انما انا رسول ربک الخ۔ انہوں نے اس کی اور تمام آسمانی کتب مثلا توریت و انجیل کی تصدیق کی یا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کی تصدیق کی کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کن فرمانے سے وہ پیدا ہوگئے اور انجیل کی تصدیق کی اور وہ خوش حال اطاعت والوں میں سے تھیں۔- یا یہ کہ وہ اس ذات کی جو کہ عظمت و بزرگیوں والا ہے اطاعت گزاروں میں سے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا ” اور عمران کی بیٹی مریم (علیہ السلام) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی “- یہ تیسری مثال ایسی خاتون کی ہے جو خود بھی نیک تھیں اور ان کی تربیت بھی انتہائی پاکیزہ ماحول میں ہوئی : وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا (آل عمران : ٣٧) ۔ یعنی انہوں نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت زکریا (علیہ السلام) کی آغوش محبت میں پرورش پائی اور یوں ان کی سیرت نورٌ علیٰ نور کی مثال بن گئی۔- فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ” تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا “- وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ ” اور اس نے تصدیق کی اپنے رب کی تمام باتوں کی اور اس کی کتابوں کی “- حضرت مریم (سلامٌ علیہا) کو وحی کے ذریعے فرشتے جو کچھ بتاتے رہے انہوں نے وہ سب باتیں دل و جان سے تسلیم کیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے تمہیں دنیا بھر کی عورتوں میں سے ُ چن لیا ہے اور یہ کہ اللہ کے حکم سے تمہارے ہاں بیٹا ہوگا۔ اسی طرح حضرت مریم نے زبور ‘ تورات اور عہد نامہ قدیم سمیت تمام الہامی کتب اور صحائف کی تصدیق بھی کی۔- وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ ۔ ” اور وہ بہت ہی فرمانبرداروں میں سے تھیں۔ “- ان تین مثالوں کے ذریعے خواتین کے حوالے سے تین ممکنہ صورتیں بیان کی گئی ہیں ‘ یعنی بہترین شوہر کے ہاں بدترین بیوی ‘ بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی ‘ اور بہترین ماحول میں بہترین خاتون۔ چوتھی ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شوہر بھی بدطینت ہو اور اس کی بیوی بھی بدطینت ہو۔ یعنی میاں بیوی دونوں کا ظاہر و باطن ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط (النور : ٤٠) کا نقشہ پیش کرتا ہو اور فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے کہ ان دونوں میں کون زیادہ بدطینت اور بدسرشت ہے۔ اس ممکنہ صورت کی مثال سورة اللہب میں ابولہب اور اس کی بیوی (اُمّ جمیل) کی بیان ہوئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :26 ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم کے والد ہی کا نام عمران ہو ، یا ان کو عمران کی بیٹی اس لیے کہا گیا ہو کہ وہ آل عمران سے تھیں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :28 یعنی بغیر اس کے کہ ان کا کسی مرد سے تعلق ہوتا ، ان کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی ۔ ( تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، النساء ، حواشی212-213 ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ89 ) ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :29 جس مقصد کے لیے ان تین قسم کی عورتوں کو مثال میں پیش کیا گیا ہے اس کی تشریح ہم اس سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں ، اس لیے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اسی رُوح سے حضرت عیسی (علیہ السلام) پیدا ہوئے، اسی لئے ان کو روح اللہ کہا جاتا ہے۔