Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یہ تنبیہ کے طور پر ازواج مطہرات کو کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تم سے بھی بہتر بیویاں عطا کرسکتا ہے 5۔ 2 ثیبات۔ ثیب کی جمع ہے (لوٹ آنے والی) بیوہ عورت کو ثیب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اس طرح بےخاوند رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی ابکار بکر کی جمع ہے کنواری عورت اسے بکر اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر اس کی تخلیق ہوتی ہے فتح القدیر۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ثیب سے حضرت آسیہ فرعون کی بیوی اور بکر سے حضرت مریم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مراد ہیں یعنی جنت میں ان دونوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں بنادیا جائے گا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ان روایات کی بنیاد پر ایسا خیال رکھنا یا بیان کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سندا یہ روایات پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] سیدہ عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) پر عتاب :۔ ان دونوں ازواج مطہرات کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر توبہ کرلو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور نبی کو ستانا چھوڑ دو ۔ زوجین کے خانگی معاملات بعض دفعہ ابتدائ ً بالکل معمولی سے معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا باگ ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اس کو طبعاً اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔ سیدنا عمر (رض) عورت کی اس فطرت کو خوب سمجھتے تھے۔ چناچہ انہی دنوں سیدنا عمر (رض) اپنی بیٹی حفصہ (رض) کے پاس گئے اور کہنے لگے : بیٹی کیا بات ہے تو رسول اللہ سے سوال و جواب کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ سارا دن غصہ میں رہتے ہیں۔ سیدہ حفصہ (رض) نے کہا : واللہ ہم تو سوال و جواب کرتی رہتی ہیں۔ سیدنا عمر (رض) نے کہا : خوب سمجھ لے اور میں تجھے اللہ کی سزا اور اس کے رسول کے غصے سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی تو اس عورت کی وجہ سے دھوکا مت کھانا جو اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ کی محبت پر نازاں ہے اور اس سے ان کی مراد سیدہ عائشہ (رض) تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة تحریم) اسی لئے ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایکا کرکے اسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں تو اس سے اللہ کے رسول کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود، اس کے فرشتے جبرئیل اور نیک بخت ایماندار سب درجہ بدرجہ اس کے مددگار ہیں اور ان کے سامنے تمہاری کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔- [٨] آپ کی ازواج کا خرچ کے سلسلہ میں آپ کو پریشان کرنا :۔ پہلے دو بیویوں (سیدہ عائشہ (رض) اور سیدہ حفصہ (رض) کی بات چل رہی تھی، اس آیت میں سب بیویوں کو خطاب کرکے ان پر عتاب کیا جارہا ہے۔ ایک حلال چیز کو حرام قراردینے کے معاملہ میں تو واقعی صرف سیدہ عائشہ (رض) اور سیدہ حفصہ (رض) کا تعلق تھا۔ لیکن ایک اور معاملہ بھی تھا۔ جس کا سب بیویوں سے تعلق تھا۔ وہ یہ تھا کہ فتوحات خیبر اور اموال غنائم سے مسلمانوں کی معاشی حالت آسودہ ہوگئی۔ تو آپ کی سب ازواج مطہرات نے آپ سے گھر کا خرچ زیادہ لینے کا مطالبہ کردیا۔ اور اگر وہ آپ کی بیویاں نہ ہوتیں بلکہ عام عورتیں ہوتیں تو ایسے مطالبہ میں ان کا کچھ قصور بھی نہ تھا اور اگر آپ چاہتے تو انہیں اموال غنائم سے اپنے گھروں میں زیادہ دے بھی سکتے تھے اور اللہ نے آپ کو ایسا اختیار دے بھی رکھا تھا۔ مگر چونکہ آپ کو طبعاً فقر پسند تھا۔ لہذا بیویوں کا - یہ مطالبہ آپ پر گراں گزرا۔ پھر بیویوں نے بھی اس بات کو صرف مطالبہ کی حد تک نہ رکھا بلکہ ایکا کرکے آپ سے بحث اور جھگڑا بھی کیا کرتی تھیں۔ اور بسا اوقات ایسی باہمی شکر رنجی میں پورا پورا دن گزر جاتا تھا۔ اسی کیفیت کا حال معلوم ہونے پر سیدنا عمر (رض) اپنی بیٹی کے ہاں گئے۔ اور انہیں سمجھایا اور کہا دیکھو تم اللہ کے رسول سے جھگڑنا چھوڑ دو ۔ اور سیدہ عائشہ (رض) پر اپنے آپ کو گمان کرکے اس کی ریس نہ کرو اور نہ اس معاملہ میں دوسروں کا ساتھ دو ۔ اور اگر کوئی چیز خرچہ وغیرہ مطلوب ہو تو اس کا مطالبہ مجھ سے کرلو۔ پھر سیدنا عمر (رض) سیدہ ام سلمہ (رض) کے ہاں گئے اور انہیں بھی یہی بات سمجھائی کیونکہ وہ بھی سیدنا عمر (رض) کی رشتہ دار تھیں تو انہوں نے سیدنا عمر (رض) کو ٹکا سا جواب دیا اور کہنے لگیں تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے والے ؟ پھر جب عمر (رض) نے یہی بات رسول اللہ کو بتائی تو آپ مسکرا دیئے۔ انہیں ایام میں سیدنا عمر (رض) نے حالات کا جائزہ لے کر اس خیال کا اظہار کیا تھا جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے۔ اور یہی اس آیت کا شان نزول ہے :- سیدنا عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کی بیویاں اکٹھی مل کر آپ سے لڑنے جھگڑنے لگیں تو میں نے انہیں کہا : کچھ بعید نہیں کہ پیغمبر تم سب کو طلاق دے دے اور اس کا رب تم سے بہتر بیویاں بدل دے اس وقت (جیسا میں نے کہا تھا ویسے ہی) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - لیکن اس کے باوجود بھی جب ازواج مطہرات اپنے مطالبہ سے دستبردار نہ ہوئیں تو یہ رسول اللہ پر اس قدر شاق گزرا کہ آپ ایک ماہ کے لیے اپنی سب بیویوں سے الگ ہوگئے اور ایک بالا خانے میں جاکر مقیم ہوگئے۔ یہی واقعہ، واقعہ ایلاء کہلاتا ہے۔ جو سورة احزاب کی آیت نمبر ٢٨ اور ٢٩ کے حواشی میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔- [٩] قَانِتَاتٌ۔ قنوت ایسی اطاعت کو کہتے ہیں جو پورے خشوع و خضوع یکسر توجہ اور دل کی رضا مندی سے بجا لائی جائے۔ اور یہ اطاعت اللہ کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے رسول کی بھی (٣٣: ٣١) اور عورتوں کے لیے اپنے خاوندوں کی بھی (٤: ٣٤) اور اس آیت میں تینوں کی ہی اطاعت مراد ہے۔- [١٠] سائح اور صائم میں فرق :۔ سَائِحَاتٌ۔ ساح الماء بمعنی پانی کا آوارہ پھرنا اور ساحۃ بمعنی فراخ جگہ اور ساحۃ الدار بمعنی گھر کا آنگن اور ساح بمعنی سیروسیاحت کرنا یا کرتے پھرنا خواہ اس کا مقصد تفریح ہو یا کوئی اور ہو اور ان معنوں میں بھی قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (٩: ٢) اس لحاظ سے سائح کے معنی محض سیروسفر کرنے والا ہے۔ لیکن بعد میں یہ لفظ ایسے درویشوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو چلتے پھرتے تھے۔ روزہ بھی رکھتے تھے اور جملہ حکمی پابندیوں کو بھی ملحوظ رکھتے تھے پھر یہ الفاظ ایسے روزہ داروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو کھانے پینے کی بندش کے علاوہ اپنے جوارح یعنی آنکھ، کان اور زبان وغیرہ کو معاصی سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور صاحب منجد کے نزدیک ایسے روزہ دار کو کہتے ہیں جو زیادہ تر مسجد میں رہے۔ جبکہ صائم ہر روزہ دار کو کہہ سکتے ہیں۔- [١١] یعنی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ کہیں اس زعم میں مبتلا نہ ہوجانا کہ آخر مرد کو بیویوں کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لیے ہم اگر دباؤ ڈالیں گی تو سب باتیں منظور کرلی جائیں گی۔ یادرکھو کہ اگر اللہ چاہے تو تم سے بہتر بیویاں اپنے نبی کو مہیا کر دے اور تمہیں رخصت کردیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ازواج مطہرات میں مذکورہ صفات موجود نہ تھیں۔ بلکہ یہ ہے کہ نبی کی بیویوں میں یہ صفات بدرجہ اتم ہونا چاہئیں اور ازواج مطہرات کا یہ مطالبہ صفت قانتات میں تقصیر ہونے کی وجہ سے تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ ۔۔۔۔۔: اس آیت میں عائشہ اور حفصہ (رض) کے ساتھ دوسری بیویوں کو بھی خطاب میں شامل فرما لیا ہے ، کیونکہ بعض باتوں خصوصاً خرچے میں اضافے کے مطالبے کے ساتھ انہوں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا پریشان کیا کہ آپ نے ایک ماہ کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی ، جس کے مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ احزاب (٢٨، ٢٩) کی تفسیر۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا :( اجتمع نساء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الغیرۃ علیہ فقلت لھن عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجاً خیرا منکن فنزلت ھذہ الایۃ) (بخاری ، التفسیر ، باب (عیسیٰ ربہ ان طلقکن۔۔۔۔ ): ٤٩١٦)” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں غیرت ( رشک و رقابت) میں آپ کے خلاف اکٹھی ہوگئیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں طلاق دے دیں تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم سے بہتر بیویاں دے دے ، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی “۔- عبد اللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا :” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی تو میں مسجد میں داخل ہوا ، دیکھا کہ لوگ ( متفکر بیٹھے ہوئے) کنکریوں کے ساتھ زمین پر نکتے بنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ہے اور یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے ، تو میں نے کہا ، میں آج یہ بات ضرور معلوم کرکے رہوں گا “۔ خیر عمر (رض) نے اپنے عائشہ اور حفصہ (رض) کے پاس جانے اور انہیں نصیحت کا ذکر فرمایا ۔ اس کے بعد فرمایا :” میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام رباح (رض) بالا خانے کی دہلیز پر موجود ہے، ( جس بالا خانے میں آپ نے ایک ماہ بیویوں سے علیحدہ رہ کر گزارا) میں نے اسے آواز دی اور کہا اے رباح میرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے پاس جانے کی اجازت مانگو۔ “ مختصر یہ کہ عمر (رض) اجازت ملنے پر اندر گئے اور آپ کو مانوس کرنے کے لیے کچھ باتیں کہیں ۔ فرماتے ہیں :” میں نے کہا ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر عورتوں کے معاملے میں کیا مشکل پیش آئے گی ؟ سو اگر آپ نے انہیں طلاق دے دی ہے تو اللہ آپ کے ساتھ ہے اور اس کے فرشتے اور جبریل اور میں اور ابوبکر اور تمام مومن آپ کے ساتھ ہیں ۔ اور میں نے کم ہی کبھی کوئی بات کی اور میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں ، مگر یہ امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کو سچا کردے گا ، تو یہ آیت یعنی آیت تخیر اتری :(عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ ) ( التحریم : ٥)” اس کا رب قریب ہے ، اگر وہ تمہیں طلاق دے دے کہ تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے “۔ اور یہ آیت اتری (اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللہ ِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَاج وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللہ ہُوَ مَوْلٰـہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ) (التحریم : ٤)” اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مد کرو تو یقینا اللہ خود اس کا مد د گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مدد گار ہیں “۔ ( مسلم ، الطلاق ، باب فی الایلاء و اعتزل النساء و تخییر ھن۔۔۔۔ ١٤٧٩)- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’ صالح المومنین “ سے مراد سب سے پہلے ابوبکر و عمر (رض) ہیں ، پھر ان کے ساتھ تمام مومن شامل ہیں اور یہ آیت بھی موافقت عمر (رض) میں سے ہے ، یعنی وہ آیات جو ان باتوں کے موافق اتریں جو عمر (رض) نے کہی تھیں ۔ ان میں بدر کے قیدیوں کا معاملہ ، حجاب کا معاملہ ، حجاب کا معاملہ ، مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا معاملہ اور دوسری کئی باتیں شامل ہیں۔- ٢۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیویوں کو تنبیہ ہے کہ تم اس خیال میں نہ رہنا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم سے بہتر بیویاں نہیں مل سکتیں ، اس لیے تم جس طرح چاہو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دباؤ ڈالتی رہو، بلکہ اگر آپ نے تمہیں طلاق دے دی تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ کو تم سے کہیں بہتر بیویاں عطاء فرما دے ۔- ٣۔ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ : ان صفات کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ ( دیکھئے احزاب : ٣٥)” تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (١١٢) ۔- ٤۔ ثٰـیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا :” ثینتٍ “ ثیب “ کی جمع ہے ، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت ۔ یہ ” ثاب یثوث ثوبا “ (ن) سے مشتق ہے ، اسے ” ثیب “ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اسی طرح خاوند کے بغیر رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔ ” ابکارا “ ” بکر “ کی جمع ہے، کنواری ۔ اسے ” بکر “ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر پیدا ہوئی تھی اور ہر جنس میں سب سے پہلی چیز کو بکر کہتے ہیں ۔ پہلی صفات کے درمیان واؤ عطف نہیں لائی گئی ، کیونکہ وہ سب ایک وقت میں جمع ہوسکتی ہیں ، مگر کسی عورت میں ان دونوں میں سے ایک وقت میں ایک ہی صفت ہوسکتی ہے ، اس لیے واؤ عطف لائی گئی ہے۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنواری عورتوں کے ساتھ نکاح کی ترغیب دلائی مگر بعض اوقات ثیبات میں علم و عقل اور تجربے وغیرہ کی ایسی صفات ہوتی ہیں جو انہیں ابکار پر ترجیح دینے کا باعث ہوتی ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوں طرح کی بیویاں عطاء فرمائیں۔- ٥۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی ازواج سے بہتر ازواج عطاء کرنے کی امید اس شرط پر دلائی تھی کہ آپ موجودہ بیویوں کو طلاق دے دیں ، مگر نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں طلاق دی اور نہ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر بیویاں آپ کو دیں ، بلکہ انہی کو بہتر ہونے کا اور دنیا اور آخرت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج رہنے کا شر ف عطاء فرمایا۔- ٦۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بیوی کے انتخاب کے وقت ان صفات کی حامل عورت کو ترجیح دینی چاہیے جو اس آیت میں مذکور ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( تنکح المراۃ لا ربع : لما لھا و لحسبھا وجمالھا ولدینھا ، فاظفر بذات الذین تربت یداک) (بخاری ، النکاح ، باب الاکفاء ، فی الدین : ٥٠٩، عن ابی ہریرہ (رض) ) ” عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ، اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب اور اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ، سو تو دین والی عورت کے ساتھ نکاح میں کامیابی حاصل کر ، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں “۔- ٧۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ” ثیب “ سے مراد آسیہ زوجہ ٔ فرعون ہیں اور ” بکر “ سے مراد مریم بنت عمران ہیں ، ان دونوں کا نکاح جنت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا جائے گا ، مگر ایک تو اس بات کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ اس میں پہلی بیویوں کو طلاق دینے کی صورت میں ان کے بدلے میں ان سے بہتر ثیبات و ابکار بیویاں عطاء کرنے کا ذکر ہے اور جب آپ نے پہلی بیویوں کو طلاق ہی نہیں دی تو ان کے بدلے میں اور بیویوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت میں ان دونوں عظیم خواتین کا نکاح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر دے تو یہ ناممکن نہیں ، مگر یہ باثت ہونا تو ضروری ہے ، جب کہ کسی صحیح دلیل سے یہ بات ثابت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ الایة، اس میں عورتوں کے اس خیال کا جواب ہے کہ اگر ہمیں طلاق دے دیتو ہم جیسی دوسری عورتیں شاید آپ کو نہ ملیں۔ حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کیا چیز باہر ہے اگر وہ تمہیں طلاق دیدیں تو وہ تم جیسی ہی نہیں بلکہ تم سے بہتر عورتیں عطا فرما دے گا، اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ ان سے بہتر عورتیں اس وقت موجود تھیں ہوسکتا ہے کہ اس وقت نہ ہوں اور جب ضرورت پڑے اللہ تعالیٰ دوسری عورتوں کو ان سے بہتر بنادیں۔ ان آیات میں جیسا کہ خاص ازواج مطہرات کے اعمال و اخلاق کی اصلاح اور ان کی تادیب و تربیت کا بیان تھا آگے عام مومنین کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عَسٰى رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا۝ ٥- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ- [ البقرة 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] ، وقیل للحلال :- طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر :- 302-- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا .- ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه . وقال تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً- [ النحل 120] ، وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] ، أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] ، اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] ، وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ- [ الأحزاب 31] ، وقال : وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] ، فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] .- ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن منصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً [ النحل 120] بت شک حضرت ابراھیم لوگوں کے امام اور خدا کے فرمابنرداری تھے ۔ اور مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَكانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ [ التحریم 12] اور فرمانبرداری میں سے تھیں ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر 9] یا وہ جو رات کے وقتقں میں زمین پریشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اقْنُتِي لِرَبِّكِ [ آل عمران 43] اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا ۔ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [ الأحزاب 31] اور جو تم میں سے خدا اور اسکے رسول کی فرمنبردار رہے گی ۔ وَالْقانِتِينَ وَالْقانِتاتِ [ الأحزاب 35] اور فرمانبرداری مرد اور فرمانبردار عورتیں ۔ فَالصَّالِحاتُ قانِتاتٌ [ النساء 34] تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - ساح - السَّاحَةُ : المکان الواسع، ومنه : سَاحَةُ الدّار، قال : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] ، والسَّائِحُ : الماء الدّائم الجرية في ساحة، وسَاحَ فلان في الأرض : مرّ مرّ السائح قال : فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، ورجل سائح في الأرض وسَيَّاحٌ ، وقوله : السَّائِحُونَ- [ التوبة 112] ، أي : الصائمون، وقال : سائِحاتٍ [ التحریم 5] ، أي : صائمات، قال بعضهم : الصّوم ضربان : حكميّ ، وهو ترک المطعم والمنکح، وصوم حقیقيّ ، وهو حفظ الجوارح عن المعاصي کالسّمع والبصر واللّسان، فَالسَّائِحُ : هو الذي يصوم هذا الصّوم دون الصّوم الأوّل، وقیل : السَّائِحُونَ هم الذین يتحرّون ما اقتضاه قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] .- ( س ی ح ) الساحتہ کے معنی فراخ جگہ کے ہیں اسی اعتبار سے مکان کے صحن کو ساحتہ الدار کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا ۔ اور وسیع مکان میں ہمیشہ جاری رہنے والے پانی کو سائح کہا جاتا ہے اور ساح فلان فی الارض کے معنی پانی کی طرح زمین میں چکر کاٹنا کے ہیں قرآن میں ہے فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو ( مشرکو تم ) زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ اور اسی سے ہمیشہ سفر کرنے والے آدمی کو سائح یا سیاح کہا جاتا ہے ۔ اور آیت السَّائِحُونَ [ التوبة 112] روزہ رکھنے والے ۔ میں سائحون بمعنی کے ہے ۔ اسی طرح السائحات روازی رکھنے واکئ عورتیں مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ روزہ دوقسم پر ہے ایک حقیقی روزہ جو کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے اور دوسرا روزہ حکمی ہے ۔ جو کہ جوارح یعنی انکھ کان ور زبان وغیرہ کو معاصی سے روکنے کا نام ہے ۔ تو سائیحون سے دوسری قسم کے روزہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سائحون سے وہ لوگ مراد ہیں جو آیت : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] . کیا ان لوگوں کے ملک میں سیر نہیں کہ تاکہ ان کے دل ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سن سکتے ۔ کے مقتضیٰ کے تحت زمین میں سفر کرتے ہیں ( یعنی قدرت الہی کے آثار وعجائبات دیکھتے اور ان پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔- ثَّيِّب - : التي تثوب عن الزوج . قال تعالی: ثَيِّباتٍ وَأَبْکاراً [ التحریم 5] ، وقال عليه السلام : «الثيّب أحقّ بنفسها» والتَّثْوِيب : تکرار النداء، ومنه : التثویب في الأذان، والثُّوبَاء التي تعتري الإنسان سمیت بذلک لتکررها، والثُّبَة : الجماعة الثائب بعضهم إلى بعض في الظاهر . قال عزّ وجلّ : فَانْفِرُوا ثُباتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعاً [ النساء 71] ، قال الشاعر - وقد أغدو علی ثبة کرام وثبة الحوض : ما يثوب إليه الماء، وقد تقدّم - ۔ الثیب ۔ بیوہ یا مطلقہ عورت کو کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی خاوند سے جدا کر ( گویا پہلی حالت کی طرف ) لوٹ آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثَيِّباتٍ وَأَبْکاراً [ التحریم 5] بن شوہر اور کنواریاں ۔ التثویب کے معنی بار بار منادی کرنے کے ہیں اسی سے تثویب فی الاذان ہے ( یعنی فجر کی اذان میں حیعلتین کے بعد الصلوۃ خیر من النوم کہنا ) ثوباء ( غنی ) کیونکہ وہ بھی دور ہ کے ساتھ بار بار طاری ہوتی ہے ۔ الثبۃ ۔ جماعت کیونکہ اس کے افراد بھی بظاہر ایک دوسرے کی طرف لوٹتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَانْفِرُوا ثُباتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعاً [ النساء 71] شاعر نے کہا ہے وقد اغدو علی ثبۃ کرام ثبۃ الحوض ۔ حوض کا وسط جس کی طرف پانی لوٹ کر آتا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے ۔- بكر - أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً.- وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر - بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب - وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل :- أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] ، قال الشاعر - يا بکر بكرين ويا خلب الکبد - «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها .- ( ب ک ر )- اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے اچھی بیبیاں دے دے گا جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، فرمانبرداری کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں ہوں گی کچھ بیوہ جیسا کہ حضرت آسیہ اور کچھ کنواریاں جیسا کہ حضرت مریم بنت عمران۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ ” بعید نہیں کہ اگر وہ تم سب کو طلاق دے دیں تو ان کا رب انہیں تم سے کہیں بہتر بیویاں عطا کردے “- مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا ۔ ” اطاعت شعار ‘ ایمان والیاں ‘ فرمانبردار ‘ توبہ کرنے والیاں ‘ عبادت گزار ‘ لذاتِ دنیوی سے بیگانہ ‘ شوہر دیدہ بھی اور کنواری بھی۔ “- ان الفاظ میں ازواجِ مطہرات (رض) کی سیرت و کردار کی ایک جھلک بھی سامنے آتی ہے کہ تمہارے اندرجو یہ اوصاف ہیں کہ تم اطاعت شعار ہو ‘ ایمان والیاں ہو ‘ فرماں بردار ہو ‘ توبہ کرنے والیاں ہو ‘ زہد و قناعت کرنے والیاں ہو ‘ ان پر تمہیں ناز اں نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان اوصاف کی حامل تم سے بہتر خواتین اپنے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ازواج کے طور پر فراہم کرسکتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کے درمیان ” و “ بطور حرف عطف نہیں آیا ‘ سوائے ایک ” و “ کے جو کہ آخر میں آیا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی اسلوب ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین ایسی شخصیات ہوں گی جن میں یہ تمام اوصاف بیک وقت موجود ہوں گے۔ سوائے آخری دواوصاف کے کہ وہ دونوں اوصاف ایک شخصیت میں بیک وقت اکٹھے نہیں ہوسکتے ‘ اس لیے ان کے درمیان میں ” و “ عطف آگئی ہے۔۔۔۔ ثَیِّبٰتٍسے مراد ایسی عورتیں ہیں جنہیں نکاح کے بعد طلاق ہوگئی ہو یا وہ بیوہ ہوگئی ہوں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ سوائے حضرت عائشہ (رض) کے باقی تمام ازواجِ مطہرات (رض) ثَـیِّباتہی کی حیثیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آئیں۔- ان ابتدائی پانچ آیات کا تعلق عائلی زندگی سے ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان روز مرہ زندگی کے معاملات کو حد اعتدال میں رہنا چاہیے ۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے اور دوسرے کے حوالے سے اپنے فرائض کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تمام معاملات پر فوقیت دی جائے۔ اگر میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوجائیں اور اصلاح کی کوئی صورت نہ رہے تو قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے شرافت کے ساتھ علیحدگی اختیار کرلی جائے ۔ لیکن اگر گھر کے ماحول میں محبت و یگانگت کا رنگ غالب ہو تو بھی محتاط رہا جائے کہ کہیں بےجامحبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود نہ ٹوٹنے پائیں اور ایسا نہ ہو کہ بیوی بچوں کی محبت انسان کو غلط راستے پر لے جائے۔ - اس کے بعد کی تین آیات کا تعلق خصوصی طور پر مردوں سے ہے اور یہ دراصل سورة الحدید ہی کے مضمون کا تسلسل ہے جو یہاں اس گروپ کی آخری سورت کے اختتام پر آگیا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :10 اس سے معلوم ہوا کہ قصور صرف حضرت عائشہ اور حفصہ ہی کا نہ تھا ، بلکہ دوسری ازواج مطہرات بھی کچھ نہ کچھ قصور وار تھیں ، اسی لیے ان کے بعد اس آیت میں باقی ازواج کو بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اس قصور کی نوعیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے البتہ احادیث میں اس کے متعلق کچھ تفصیلات آئی ہیں ۔ ان کو ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں ۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مل جل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کر دیا تھا ۔ ( اصل الفاظ ہیں اجتمع نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الغیرۃ علیہ ) ۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ بعید نہیں اگر حضور تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تم سے بہتر بیویاں آپ کو عطا فرما دے ۔ ابن ابی حاتم نے حضرت انس کے حوالہ سے حضرت عمر کا بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کچھ ناچاقی ہو گئی ہے ۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دے گا ۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا ( اور یہ بخاری کی ایک روایت کے بموجب حضرت ام سلمہ تھیں ) تو انہوں نے مجھے جواب دیا اے عمر ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو؟ اس پر میں خاموش ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی تو میں مسجد نبوی میں پہنچا ۔ دیکھا لوگ متفکر بیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھا اٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت عائشہ اور حفصہ کے ہاں ا پنے جانے اور ان کو نصیحت کرنے کا ذکر کیا ، پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا بیویوں کے معاملہ میں آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ اگر آپ ان کو طلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے ، سارے ملائکہ اور جبریل و میکائیل آپ کے ساتھ ہیں اور میں اور ابو بکر اور سب اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں ۔ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے میں نے کوئی بات کہی ہو اور اللہ سے یہ امید نہ رکھی ہو کہ وہ میرے قول کی تصدیق فرما دے گا چنانچہ اس کے بعد سورۃ تحریم کی یہ آیات نازل ہو گئیں ۔ پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ اس پر میں نے مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند اعلان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلا ق نہیں دی ہے ۔ بخاری میں حضرت انس اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایات منقول ہوئی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد فرما لیا تھا اور اپنے بالا خانے میں بیٹھ گئے تھے ۔ 29 دن گزر جانے پر جبریل علیہ السلام نے آ کر کہا آپ کی قسم پوری ہو گئی ہے ، مہینہ مکمل ہو گیا ۔ حافظ بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری میں حضرت عائشہ کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ ازواج مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں ۔ ایک میں خود حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ، حضرت سودہ اور حضرت صفیہ تھیں ، اور دوسری میں حضرت زینب ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور باقی ازواج مطہرات شامل تھیں ۔ ان تمام روایات سے کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی میں کیا حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی بنا پر یہ ضروری ہوا کہ اللہ تعالی مداخلت کر کے ازواج مطہرات کے طرز عمل کی اصلاح فرمائے ۔ یہ ازواج اگرچہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں ۔ مگر بہرحال تھیں انسان ہی ، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہ تھا ۔ کبھی ان کے لیے مسلسل عسرت کی زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا تھا اور وہ بے صبر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نفقہ کا مطالبہ کرنے لگتیں ۔ اس پر اللہ تعالی نے سورہ احزاب کی آیات 28 ۔ 29 نازل فرما کر ان کو تلقین کی اگر تمہیں دنیا کی خوشحالی مطلوب ہے تو ہمارا رسول تم کو بخیر و خوبی رخصت کر دے گا ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو تو پھر صبر و شکر کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کرو جو رسول کی رفاقت میں پیش آئیں ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب حاشیہ 41 ، اور دیباچہ سورہ احزاب صفحہ 84 ) ۔ پھر کبھی نسائی فطرت کی بنا پر ان سے ایسی باتوں کا ظہور ہوجاتا تھا جو عام انسانی زندگی میں معمول کے خلاف نہ تھیں ، مگر جس گھر میں ہونے کا شرف اللہ تعالی نے ان کو عطا فرمایا تھا ، اس کی شان اور اس کی عظیم ذمہ داریوں سے وہ مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔ ان باتوں سے جب یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کہیں تلخ نہ ہو جائے اور اس کا اثر ان کار عظیم پر مترتب نہ ہو جو اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے رہا تھا ، قرآن مجید میں یہ آیات نازل کر کے ان کی صلاح فرمائی گئی تاکہ ازواج مطہرات کے اندر اپنے اس مقام اور مرتبے کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو جو اللہ کے آخری رسول کی رفیق زندگی ہونے کی حیثیت سے ان کو نصیب ہوا تھا ، اور وہ اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح اور اپنے گھر کو عام گھروں کی طرح نہ سمجھ بیٹھیں ۔ اس آیت کا پہلا ہی فقرہ ایسا تھا کہ اس کو سن کر ازواج مطہرات کے دل لرز اٹھے ہوں گے ۔ اس ارشاد سے بڑھ کر ان کے لیے تنبیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ اگر نبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ اس کو تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے ۔ اول تو نبی سے طلاق مل جانے کا تصور ہی ان کے لیے ناقابل برداشت تھا ، اس پر یہ بات مزید کہ تم سے امہات المؤمنین ہونے کا شرف چھن جائے گا اور دوسری عورتیں جو اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں لائے گا وہ تم سے بہتر ہوں گی ۔ اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ازواج مطہرات سے پھر کبھی کسی ایسی بات کا صدور ہوتا جس پر اللہ تعالی کی طرف سے گرفت کی نوبت آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بس دو ہی مقامات ہم کو ایسے ملتے ہیں جہاں ان برگزیدہ خواتین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے ۔ ایک سورۃ احزاب دور دوسرے یہ سورہ تحریم ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :11 مسلم اور مومن کے الفاظ جب ایک ساتھ لائے جاتے ہیں تو مسلم کے معنی عملاً احکام الہی پر عمل کرنے والے کے ہوتے ہیں اور مومن سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو صدق دل سے ایمان لائے ۔ پس بہترین مسلمان بیویوں کی اولین خصوصیات یہ ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ایمان رکھتی ہوں ، اور عملاً اپنے ا خلاق ، عادات ، خصائل اور برتاؤ میں اللہ کے دین کی پیروی کرنے والی ہوں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :12 اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک ، اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان ۔ دوسرے ، اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :13 تائب کا لفظ جب آدمی کی صفت کے طور پر آؤے تو اس کے معنی بس ایک ہی دفعہ توبہ کر لینے والے کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگتا رہے ، جس کا ضمیر زندہ اور بیدار ہو ، جسے ہر وقت اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کا احساس ہوتا رہے اور وہ ان پر نادم و شرمسار ہو ۔ ایسے شخص میں کبھی غرور و تکبر اور نخوت و خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ طبعاً نرم مزاج اور حلیم ہوتا ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :14 عبادت گزار آدمی بہرحال کبھی اس شخص کی طرح خدا سے غافل نہیں ہو سکتا جس طرح عبادت نہ کرنے والا انسان ہوتا ہے ۔ ایک عورت کو بہترین بیوی بنانے میں اس چیز کا بھی بڑا دخل ہے ۔ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے وہ حدود اللہ کی پابندی کرتی ہے ، حق والوں کے حق پہنچانتی اور ادا کرتی ہے ، اس کا ایمان ہر وقت تازہ اور زندہ رہتا ہے ، اس سے اس امر کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ احکام الہی کی پیروی سے منہ نہیں موڑے گی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے ۔ متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں ۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے ، اور ان کے ساتھ کوئی زاد راہ نہیں ہوتا تھا ۔ اکثر ان کو اس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے ۔ اس بنا پر روزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے ۔ ابن جریر نے سوۃ توبہ آیت 12 کی تفسیر میں حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذا الاماۃ الصیام ، اس امت کی سیاحت ( یعنی درویشی ) روزہ ہے ۔ اس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں ان کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں ، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں ۔ ازواج مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تمہارے بدلے میں ان کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جن میں یہ اور یہ صفات ہوں گی ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواج مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت ہو رہی ہے اس کو چھوڑ دو اور اس کے بجائے اپنی ساری توجہات اس کوشش میں صرف کرو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجہ اتم پیدا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani