13۔ 1 یہ پھر کافروں سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں چھپ کر باتیں کرو یا اعلان یہ سب اللہ کے علم میں ہے، اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ تو سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے تمہاری باتیں کس طرح اس سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔
وَ اَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْھَرُوْابِہٖ ۔۔۔۔: شروع سورت سے اللہ تعالیٰ کی ان قدرتوں کا بیان ہو رہا تھا جو مخلوق کی استطاعت سے باہر ہیں ، درمیان کی سات آسات میں ان سے کفر کرنے والوں اور ان پر ایمان رکھنے والوں کا انجام ذکر فرمایا ، اب دوبارہ اللہ کی قدرتوں کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ فرمایا تم اپنی بات چھپا کر کرو یا بلند آواز سے کرو اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے ، بلکہ وہ اس سے بڑھ کر دلوں کے ارادے اور نیتیں جو زبان پر آکر قول بننے کی منزل تک نہیں پہنچیں ، انہیں بھی جانتا ہے۔ مخلوق بےچاری نہ چھپی بات کو جانتی ہے اور نہ ایک وقت میں بہت سے لوگوں کی اونچی آواز سے کی ہوئی باتوں کو جا ن سکتی ہے دلوں کی بات جاننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ اعلیٰ (٧) کی تفسیر۔
وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْہَرُوْا بِہٖ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١٣- سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔
اور تم لوگ رسول اکرم کے ساتھ مکر و خیانت کی خواہ خفیہ طور پر بات کرو یا علی الاعلان لڑائی کی وہ تمہارے دلوں میں جو نیکی یا برائی ہے اس سے بخوبی واقف ہے۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :20 یہ بات تمام انسانوں کو خطاب کر کے فرمائی گئی ہے ، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر ۔ مومن کے لیے اس میں یہ تلقین ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہر وقت یہ احساس اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ اس کے کھلے اور چھپے اقوال و اعمال ہی نہیں ، اس کی نیتیں اور اس کے خیالات تک اللہ سے مخفی نہیں ہیں ۔ اور کافر کے لیے اس میں تنبیہ ہے کہ وہ اپنی جگہ خدا سے بے خوف ہو کر جو کچھ چاہے کرتا رہے ، اس کی کوئی بات اللہ کی گرفت سے چھوٹی نہیں رہ سکتی ۔