25۔ 1 یہ کافر بطور مذاق قیامت کو دور دراز کی باتیں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔
[٢٨] کافر جب بھی یہ بات پوچھتے ہیں از راہ تمسخر اور مذاق ہی پوچھتے تھے۔ اور اس سوال سے ان کا اصل مقصد اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول اور قیامت سب کی تکذیب ہوتی تھی۔
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ ۔۔۔۔۔: ان کا یہ پوچھنا معلوم کرنے کے لیے نہیں تھا، وہ تو ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ ایساہو سکتا ہے ۔ مسلمانوں سے ان کا یہ پوچھنا صرف طنز و استہزاء کے لیے تھا۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٥- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- متی - مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] ، - ( م ت ی ) متی - ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا )- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
اور کفار مکہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ جس کا آپ ہم سے وعدہ کرتے ہیں کب ہوگا اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :35 یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں اس کی آمد کا سال ، مہینہ ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں گے ۔ بلکہ دراصل وہ اس کے آنے کو غیر ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اسے جھٹلانے کا ایک بہانہ ان کے ہاتھ آئے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر و نشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں سنا رہے ہو آخر کب ظہور میں آئے گا ؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمیں اس کا یقین آ جائے؟ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے ، اور قرآن مجید میں جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں ، رہی اس کی تاریخ ، تو قیامت کی بحث میں اس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آ جائے گی تو مان لوں گا ، آج آخر میں کیسے یقین کر لوں کہ وہ اس روز ضرور آ جائے گی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 63 ، الاحزاب ، حاشیہ 116 ۔ سبا ، حواشی 5 ۔ 48 ۔ یسین ، حاشیہ 45 ) ۔
6: کافر لوگ بار بار آخرت کا مذاق اُڑاتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ اگر آخرت کا عذاب برحق ہے تو اس میں دیر کیوں ہورہی ہے، ابھبی کیوں نہیں آجاتا؟