یعنی انسانوں کو پیدا کرکے زمین میں پھیلانے والا بھی وہی ہے اور قیامت والے دن سب جمع بھی اس کے پاس ہوں گے کسی اور کے پاس نہیں۔
[٢٧] یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کرکے ایک جگہ سے تمام روئے زمین پر پھیلا دیا ہے۔ اگر اس میں یہ قدرت ہے تو وہ تمہیں ایک جگہ پر پھر سے اکٹھا بھی کرسکتا ہے۔ اور یہ کام وہ عالم آخرت میں کرے گا۔
قُلْ ھُوَ الَّذِیْ ذَرَاَکُمْ فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۔: جو تمہیں روئے زمین پر پھیلا سکتا ہے وہ تمہیں دوبارہ اکٹھا بھی کرسکتا اور کرے گا ۔
قُلْ ہُوَالَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ ٢٤- ذرأ - الذَّرْءُ : إظهار اللہ تعالیٰ ما أبداه، يقال : ذَرَأَ اللہ الخلق، أي : أوجد أشخاصهم . قال تعالی:- وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] ، وقال : وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] ، وقال : وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] ، وقرئ : ( تذرؤه الرّياح) «3» ، والذُّرْأَة : بياض الشّيب والملح .- فيقال : ملح ذُرْآنيّ ، ورجل أَذْرَأُ ، وامرأة ذَرْآءُ ، وقد ذَرِئَ شعره .- ( ذ ر ء ) الذرء - کے معنی ہیں اللہ نے جس چیز کا ارادہ کیا اسے ظاہر کردیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ یعنی ان کے اشخاص کو موجود کیا قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ كَثِيراً مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ [ الأعراف 179] اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعامِ نَصِيباً [ الأنعام 136] اور یہ لوگ ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں ( یعنی ) کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں وَمِنَ الْأَنْعامِ أَزْواجاً يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ [ الشوری 11] اور چار پایوں کے بھی جوڑے بنادے اور اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] میں ایک قراءت بھی ہے ۔ الذرؤۃ ۔ بڑھاپے یا نمک کی سفیدی ۔ کہاجاتا ہے ملح ذرانی نہایت سفید نمک اور جس کے بال سفید ہوجائیں اسے رجل اذرء کہاجاتا ہے اس کی مونث ذرآء ہے ۔ ذری شعرہ روذرء کفرح ومنع) اس کے بال سفید ہوگئے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] ، وقال تعالی: وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وقال عزّ وجلّ : وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] ، وقال : لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ما ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا [ الحشر 2] ، وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] ، وقال في صفة القیامة : وَإِذا حُشِرَ النَّاسُ كانُوا لَهُمْ أَعْداءً [ الأحقاف 6] ، سَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعاً [ النساء 172] ، وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جمع رہتے تھے ۔ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ [ التکوير 5] اور جب وحشی جانور اکٹھے ہوجائیں گے ۔ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ما ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا [ الحشر 2] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنوں اور انسانون اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور قسم وار کئے جاتے تھے ۔ اور قیامت کے متعلق فرمایا :۔ وَإِذا حُشِرَ النَّاسُ كانُوا لَهُمْ أَعْداءً [ الأحقاف 6] اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے ۔ سَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعاً [ النساء 172] تو خدا سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا ۔ وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] اور ان ( لوگوں ) کو ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
وہی ہے جس نے تمہیں آدم سے اور آدم کو مٹی سے اور مٹی کو زمین سے پیدا کیا اور آخرت میں تم اسی کے پاس اکٹھے کیے جاؤ گے وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے دے گا۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :34 یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے ہر گوشہ زمین سے گھیر لائے جاؤ گے اور اس کے سامنے حاضر کر دیے جاؤ گے ۔