Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ مذید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی انسان کو بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم اللہ کی ہستی، اس کے تصرف اور اس کے علیم و حکیم ہونے میں کچھ شک رکھتے ہو تو بتاؤ کہ اس کائنات کے نظام میں فلاں نقص باقی رہ گیا ہے۔ بار بار آسمانوں کی طرف نظر دوڑاؤ اور غور و فکر کرکے اس نظام میں کوئی عیب تلاش کرنے کی کوشش کرو تم دیکھ دیکھ کر اور غور و فکر کر کرکے عاجز رہ جاؤ گے مگر تمہیں ایسا کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ ۔۔۔۔۔:” کر تین “ کا لفظی معنی دو مرتبہ ہے ، مگر یہاں مراد صرف دو مرتبہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ ( دوبارہ غور کرنے سے بھی کوئی خلل نہ ملے تو) بار بار دیکھ جیسا کہ ” لبیک “ کا لفظ تثنیہ ہے مگر اس کا معنی یہ نہیں کہ ” میں دو دفعہ حاضر ہوں “ بلکہ یہ ہے کہ ” میں بار بار حاضر ہوں “۔” خاسئاً “ کسی چیز کو طلب کرنے والا جو اس سے دور ہٹا دیا جائے ۔” حسیر “ جو تھک کر عاجز رہ جائے ۔ بار بار دیکھنے کا حکم ان کی بےبسی واضح کرنے کے لیے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَحَسِيْرٌ۝ ٤- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ - خسأ - خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] .- ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔- حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَـیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ ۔ ” پھر لوٹائو نگاہ کو بار بار (کوئی رخنہ ڈھونڈنے کے لیے) ‘ پلٹ آئے گی نگاہ تمہاری طرف ناکام تھک ہار کر۔ “- اندازہ کیجیے کہ کس قدر ُ پرزور اسلوب ہے اور کتنا بڑا چیلنج ہے بار بار دیکھو ‘ ہر پہلو اور ہر زاویے سے دیکھو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تمہیں کہیں کوئی خلل ‘ نقص یا رخنہ نظر نہیں آئے گا ظاہر ہے یہ چیلنج پوری انسانیت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ بہرحال آج تک کوئی سائنس دان اور کوئی دانشور اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ گویا اب تک پوری نوع انسانی اس نکتے پر متفق ہے کہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک تخلیق مثالی اور کامل ہے۔ دراصل دنیا بھر کے دانائوں اور دانشوروں کی توجہ اس مثالی تخلیق کی طرف دلا کر انہیں پیغام تو یہ دینا مقصود ہے کہ اے عقل کے اندھو کائنات کی خوبصورتی اور کاملیت کو دیکھ کر اس پر حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے خالق کو پہچانو اور اس کی عظمت کے سامنے اپنا سر نیازخم کرو۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و عجائب کا کھوج لگانے والے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہرین فلکیات بھی اس معاملے میں اپنے ناک تلے کے پتھر سے ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان لوگوں نے اپنی تحقیقات کے دوران بہت کچھ دریافت بھی کیا اور بہت کچھ دیکھا بھی۔ لیکن اس ساری چھان بین میں انہیں اگر نہیں نظر آیا تو اس کائنات کا خالق کہیں نظر نہیں آیا۔ بقول اقبال : ؎- ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا - اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani