نون وغیرہ جیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورہ بقرہ کے شروع میں گذر چکا ہے اس لئے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ، کہا گیا ہے کہ یہاں ان سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ اس نے کہا کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھ ڈال پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے ، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ابن ابی حاتم ) مطلب یہ ہے کہ یہاں ن سے مراد یہ مچھلی ہے ، طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں؟ حکم ہوا ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی ، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے ، ابن عساکر کی حدیث میں ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا لکھ اس نے پوچھا کیا ؟ فرمایا جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے عمل ، رزق عمر ، موت وغیرہ ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا ۔ اس آیت میں یہی مراد ہے ، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا ، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا ، مجاہد فرماتے ہیں یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے ، بغوی وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے ، واللہ اعلم اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے ہیں تو وہ آپ کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا بتایئے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتا دیں ، ابن سلام کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے ، آپ نے فرمایا سنو قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آ جائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے ، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا فرمایا جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا ، پوچھا انہیں پانی کونسا ملے گا ؟ فرمایا سلسبیل نامی نہر کا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد ن سے نور کی تختی ہے ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے ، ابن جریج فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ن سے مراد دولت ہے اور قلم سے مراد قلم ہے ، حسن اور قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ نے نون کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا ، پھر فرمایا لکھ اس نے پوچھا کیا لکھوں؟ فرمایا لکھ اس نے پوچھا کیا لکھوں؟ جو قیامت تک ہونے والا ہے ، اعمال خواہ نیک ہوں خواہ بد ، روزی خواہ حلال ہو خواہ حرام ، پھر یہ بھی کہ کونسی چیز دنیا میں کب جائے گی کس قدر رہے گی ، کیسے نکلے گی ، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ رشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے ، محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہو جاتا ہے عمر پوری ہو جاتی ہے اجل آ پہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں کہ بتاؤ آج کے دن کیا سامان ہے؟ وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لئے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا اس بیان کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا تم تو عرب ہو کیا تم نے قرآن میں محافظ فرشتوں کی بابت یہ نہیں پڑھا آیت ( اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 29 ) 45- الجاثية:29 ) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو اصل سے نقل کر لیا کرتے تھے ۔ یہ تو تھا لفظ ن کے متعلق بیان ، اب قلم کی نسبت سنئے ۔ بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے آیت ( الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ Ćۙ ) 96- العلق:4 ) یعنی اس اللہ نے قلم سے لکھنا سکھایا ، پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کے رسائی ہو سکے ، اس لئے اس کے بعد فرمایا آیت ( نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ Ǻۙ ) 68- القلم:1 ) یعنی اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں ، حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ اس چیز کی جو جانتے ہیں ، سدی فرماتے ہیں مراد اس سے فرشتوں کا لکھنا ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اور مفسرین کہتے ہیں اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر لکھا گیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی تو بحمد اللہ دیوانہ نہیں جیسے کہ تیری قوم کے جاہل منکرین حق کہتے ہیں بلکہ تیرے لئے اجر عظیم ہے اور ثواب بےپایاں ہے جو نہ ختم ہو نہ ٹوٹے نہ کٹے کیونکہ تو نے حق رسالت ادا کر دیا ہے اور ہماری راہ میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی ہیں ہم تجھے بےحساب بدلہ دیں گے ، تو بہت بڑے خلق پر ہے یعنی دین اسلام پر اور بہترین ادب پر ہے ، حضرت عائشہ سے اخلاق نبوی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن تھا ، سعید فرماتے ہیں یعنی جیسے کہ قرآن میں ہے اور حدیث میں ہے کہ صدیقہ نے پوچھا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ، سائل حضرت سعید بن ہشام نے کہا ہاں پڑھا ہے آپ نے فرمایا بس تو آپ کا خلق قرآن کریم تھا ، مسلم میں یہ حدیث پوری ہے جسے ہم سورہ مزمل کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ بنو سواد کے ایک شخص نے حضرت عائشہ سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے یہی فرما کر پھر آیت ( وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ Ć ) 68- القلم:4 ) پڑھی اس نے کہا کوئی ایک آدھ واقعہ تو بیان کیجئے ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا سنو ایک مرتبہ میں نے بھی آپ کے لئے کھانا پکایا اور حضرت حفصہ نے بھی ، میں نے اپنی لونڈی سے کہا دیکھ اگر میرے کھانے سے پہلے حضرت حفصہ کے ہاں کا کھانا آ جائے تو تو برتن گرا دینا چنانچہ اس نے یہی کیا اور برتن بھی ٹوٹ گیا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بکھرے ہوئے کھانے کو سمیٹنے لگے اور فرمایا اس برتن کے بدلے ثابت برتن تم دو واللہ اور کچھ ڈانٹا ڈپٹا نہیں ( مسند احمد ) مطلب اس حدیث کا جو کئی طرق سے مختلف الفاظ میں کئی کتابوں میں ہے یہ ہے کہ ایک تو آپ کی جبلت اور پیدائش میں ہی اللہ نے پسندیدہ اخلاق بہترین خصلتیں اور پاکیزہ عادتیں رکھی تھیں دوسرے آپ کا عمل قرآن کریم پر ایسا تھا کہ گویا احکام قرآن کا مجسم عملی نمونہ ہیں ، ہر حکم کو بجا لانے اور ہر نہی سے رک جانے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ گویا قرآن میں جو کچھ ہے وہ آپ کی عادتوں اور آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن آپ نے مجھے اف تک نہیں کہا کسی کرنے کے کام کو نہ کروں یا نہ کرنے کے کام کر گزروں تو بھی ڈانٹ ڈپٹ تو کجا اتنا بھی نہ فرماتے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوش خلق تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ تو ریشم ہے نہ کوئی اور چیز ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والی چیز میں نے تو کوئی نہیں سونگھی نہ مشک اور نہ عطر ( بخاری و مسلم ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے آپ کا قد نہ تو بہت لانبا تھا نہ آپ پست قامت تھے ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ، شمائل ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نہ تو کبھی کسی خادم یا غلام کو مارا نہ بیوی بچوں کو نہ کسی اور کو ، ہاں اللہ کی راہ کا جہاد الگ چیز ہے ، جب کبھی دو کاموں میں آپ کو اختیار دیا جاتا تو آپ اسے پسند کرتے جو زیادہ آسان ہوتا ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میں کچھ گناہ ہو تو آپ اس سے بہت دور ہو جاتے ، کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اللہ کی حرمتوں کو توڑتا ہو تو تو آپ اللہ کے احکام جاری کرنے کے لئے ضرور انتقام لیتے ، مسند امد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں میں بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اور آپ کے مخالف اور منکر ابھی ابھی جان لیں گے کہ دراصل بہکا ہوا اور گمراہ کون تھا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( سَيَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ 26 ) 54- القمر:26 ) انہیں ابھی کل ہی معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون تھا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 24 ) 34- سبأ:24 ) ہم یا تم ہدایت پر ہیں ایک کھلی گمراہی پر حضرات ابن عباس فرماتے ہیں یعنی یہ حقیقت قیامت کے دن کھل جائے گی ، آپ سے مروی ہے کہ ( مفتون ) مجنون کو کہتے ہیں مجاہد وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ، قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی کون شیطان سے نزدیک تر ہے؟ ( مفتون ) کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو حق سے بہک جائے اور گمراہ ہو جائے ( ایکم ) پر ( ب ) کو اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ دلالت ہو جائے کہ آیت ( فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ Ĉۙ ) 68- القلم:5 ) میں تضمین فعل ہے تو تقدیری عبارت کو ملا کر ترجمہ یوں ہو جائے گا کہ تو بھی اور وہ بھی عنقریب جان لیں گے اور تو بھی اور وہ سب بھی بہت جلدی ( مفتون ) کی خبر دے دیں گے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ تم میں سے بہکنے والے اور راہ راست والے سب اللہ پر ظاہر ہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کا قدم پھسل گیا ہے ۔
1۔ 2 قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چناچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی)
[١] بعض لوگوں کے نزدیک ن سے مراد دوات ہے اور اس قیاس کی بنیاد یہ ہے کہ قلم اور دوات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔- [٢] اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے :- ولید بن عبادہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے کہا لکھ چناچہ قلم نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ابد تک ہونے والا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) - اس حدیث کے مطابق لکھنے والی قلم خود ہی ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس قلم سے لکھنے والے اللہ کے فرشتے ہوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قلم اور ان فرشتوں کی قسم جو لوح محفوظ سے قرآن نقل کرتے ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے جو نزول قرآن کے بعد ان صحابہ کرام (رض) کی قسم جو قرآن کی وحی کو قلم سے لکھتے ہیں اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ ان مورخین کی قسم جو قلم کے ساتھ بڑے بڑے مصلحین کی داستان حیات تاریخ کے اوراق میں ثبت کرتے ہیں۔
١۔” ن “ حروف تہجی میں سے ایک حرف ہے۔ مختلف سورتوں کی ابتداء میں آنے والے ان حروف سے اصل مرد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، سب سے قریب بات یہ ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید ان حروف تہجی ہی میں اتارا ہے ، اگر تمہیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمہارے بھی علم اور استعمال میں ہیں ، تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کرلے آؤ ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آتے ہیں ان کے بعد قرآن مجید ، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے۔ ( واللہ اعلم) ۔ - بعض مفسرین نے فرمایا ” ن “ کا معنی مچھلی ہے اور یہاں اس عظیم مچھلی کی قسم کھائی گئی ہے جس کی پشت پر ساتوں زمینیں رکھی ہوئی ہیں ، لیکن یہ بات درست نہیں ۔ ایک تو اس لیے کہ کسی صحیح حدیث سے ایسی کسی مچھلی کا وجود ہی ثابت نہیں، دوسرا اس لیے کہ بیشک کلام عرب میں ” نون “ کا معنی مچھلی ہے ، جیسا کہ فرمایا :( وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا ) ( الانبیائ : ٨٧)” اور مچھلی والے کو جب وہ غصے میں بھرا ہوا چلا گیا “۔ مگر یہاں یہ لفظ ” ن “ کی شکل میں ہے ، ” نون “ کی شکل میں نہیں ۔ علاوہ ازیں اگر اس سے مراد مچھلی ہوتی تو اس پر رفع ، نصب یا جر کا اعراب ہونا چاہیے تھا اور آخر میں تنوین آنی چاہیے تھی ، جب کہ یہاں اس کے آخر میں وقف ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دوسرے حروف مقطعات مثلاً ” الم “ کی طرح حرف تہجی ہی ہے۔ بعض نے ” ن “ کا معنی دوات بتایا ہے ، مگر یہ لغت میں غیر معروف ہے اور اس پر اعراب اور تنوین نہ ہونے سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔- ٢۔ وَالْقَلَمِ ۔۔۔۔:” القلم “ سے مراد لوح محفو ظ پر لکھنے والا قلم بھی ہوسکتا ہے ، جس کے متعلق ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اول شی خلقہ اللہ تعالیٰ القلم وامرہ ان یکتب کلی شی یکون) (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی : ١، ٢٥٧، : ١٣٣)” سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا کہ ہر وہ چیز لکھ دے جو آئندہ ہوگی “۔ یہ حدیث ترمذی (٣٣١٩) ، ابو داؤد (٤٧٠٠) اور مسند احمد (٥، ٣١٧) میں بھی عبادہ بن صامت (رض) سے مروی ہے ۔ اور وہ قلم بھی مراد ہوسکتا ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں ۔ لفظ عام ہے ، اس لیے اسے کسی ایک قلم کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا ۔ ” وما یسطرون “ میں لوح محفوظ میں لکھے ہوئے آسمانی صحیفے ، قرآن مجید اور ابتدائے خلق سے لکھی ہوئی تمام کائنات کی تقدیر بھی شامل ہے اور انسان یا فرشتے جو کچھ لکھتے ہیں وہ سب کچھ بھی شامل ہے۔
خلاصہ تفسیر - ن (اس کے معنے اللہ ہی کو معلوم ہیں) قسم ہے قلم کی (جس سے مقادیر خلق لوح محفوظ پر لکھے گئے) اور (قسم ہے) ان (فرشتوں) کے لکھنے کی (جو کہ کاتب اعمال ہیں۔ حضرت ابن عباس نے قلم اور مایسطرون کی یہی تفسیر فرمائی ہے (در منشور) آگے جواب قسم ہے) کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں صجیسا منکرین نبوت کہتے ہیں (کذافی الدرعن ابن جریج فی سببب النزول) مطلب یہ کہ آپ بنی برحق ہیں اور یہ قسمیں اس مدعا کے نہایت مناسب ہی کیونکہ منجملہ مقادیر کے نزول قرآن بھی ہے پس اس آیت میں اشارہ ہے کہ نبوت آپ کی علم الٰہی میں پہلے ہی سے محقق و موکد ہے پس ثبوت اس کا متیقن ہوا اور اعمال لکھنے والے فرشتے مصدقین و منکرین کے اعمال کو لکھ رہے غ ہیں پس انکار نبوت پر سزا ہوگی اس سے ڈر کر ایمان لانا واجب ہے اور بیشک آپ کے لئے (اس تبلیغ احکام پر) ایسا اجر (ملنے والا) ہے جو (کبھی) ختم ہونے اولا نہیں (اس میں بھی تقریر ہے نبوت کی جو مستلزم ہے نفی مطاعن کو اور تقریر نبوت کے ساتھ متضمن ہے تسلی کو بھی کہ آپ چند روز برداشت کرلیجئے کہا نجام اس کا اجر عظیم ہے) اور بیشک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں ( کہ ہر فعل آپ کا موصوف باعتدال اور قرین رضائے ایزدمتعال ہے اور مجنون میں اخلاق کا کمال کہاں ہوتا ہے یہ بھی جواب ہے طعن مذکور کا آگے تسلیہ ہے یعنی یہ جو ایسے مہملات بکتے ہیں) سو (اس کا غم نہ کیجئے کیونکہ) عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں کس کو جنون (حقیقی) تھا (یعنی جنون کی حقیقت ہے زوال عقل اور عقل کی غایت ہے ادراک نفع و ضرر اور ضر رمعتدبہ وہ ہے جو ابدی ہو، پس قیامت میں ان کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ عاقل اہل حق تھے جنہوں نے اس نفع کو حاصل کیا اور مجنون یہ خود تھے جو اس نفع سے محروم رہ کر ضرر ابدی میں مبتلا ہوئے اور چونکہ) آپ کا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ راہ (راست) پر چنلے والوں کو بھی خوب جانتا ہے (اس لئے ہر ایک کو اس کے مناسب جزا و سزا دے گا اور اس جزا و سزا کے مناسب ہونے کو یہ منکرین بھی اس وقت سمجھ لیں گے جب حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ عاقل کون تھا مجنون کون، آگے ذم منکرین اک مضمون ہے غ کہ جب آپ حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں) تو آپ ان تکذیب کرنے والوں کا کہنا نہ مانئے (جیسا کہ اب تک نہیں منا، اور وہ کہنا وہ ہے جو آگے مفہوم ہوتا ہے یعنی) یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آپ (نعوذ باللہ اپنے منصبی کام میں کہ تبلیغ ہے ذرا) ڈھیلے ہوجاویں تو یہ بھی ڈھیلے ہوجائیں (آپ کا ڈھیلا ہونا یہ کہ بت پرستی کی مذمت نہ کریں اور ان کا ڈھیلا ہونا یہ کہ آپ کی مخالفتن نہ کریں۔ سورة کافرون کی تفسیر میں ابن عباس نے ڈھیلے ہونے کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے۔ درمنثور) اور آپ (بالخصوص) کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے والا ہو ( مراد جھوٹی قسم کھانے والا ہے۔ عادة اکثر جھوٹے آدمی قسمیں بہت کھایا کرتے ہیں اور جو اپنی حرکات شنیعہ کی وجہ سے عنداللہ و عندالخلق) بےوقعت ہو (دل دکھانے کے لئے) طعنہ دینے والا ہو چغلیاں لگاتا پھرتا ہو نیک اکم سے روکنے والا ہو حد (اعتدال) سے گزرنے والا ہو گناہوں کا (ارتکاب) کرنے والا ہو، سخت مزاج ہو (اور) اس (سب) کے علاوہ بدنام (بھی) ہو (مراد ولد الزنا اور مطلب یہ ہے کہ اور اخلاق و افعال بھی اس کے خبیث ہوں چونکہ غالباً ولدالزنا کے اخلاق و افعال اچھے نہیں ہوتے اس لئے مجازاً اس سے یہ مراد لیا گیا، خلاصہ یہ کہ اول تو مطلقاً مکذبین کا پھر خصوص جبکہ وہ مکذبین ان ذمائم کے ساتھ بھی متصف ہوں جیسا کہ آپ کے مکذبین میں سے بعض بڑے بڑے ایسے ہی تھے اور اس درخواست میں شریک بلکہ اس کے بانی تھے غرض آپ ایسے شخص کا کہنا نہ مانیئے اور وہ بھی محض) اس سبب سے کہ وہ مال اور اولاد والا ہو۔ (یعنی دنیا کی وجوہات رکھتا ہو اور ایسے شخص کی اطاعت سے اس لئے منع کیا جاتا ہے کہ اس سخص کی یہ عادت ہے کہ) جب ہماری آیتیں اس کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے یہ بےسند باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول چلی آتی ہیں صمطلب یہ کہ آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان کی اطاعت سے منع کرنے کی اصل علت ان کی تکذیب ہے اور اسی بناء پر اول فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْن فرمایا گیا پھر بطور تخصیص بعد تعمیم کے ان مکذبین میں سے ایسے لوگوں کی اطاعت سے ممانعت کی گئی جو علاوہ تکذیب کے اور بری عادتیں بھی رکھتے ہوں ایسوں کی اطاعت سے ممانعت مطلق مکذبین کی اطاعت کی ممانعت سے اور زیادہ اشد ہوگی لیکن اصل علت وہی تکذیب رہے گی آگے ایسے شخص کی سزا کا بیان ہے کہ) ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگا دیں گے۔ (یعنی قیامت میں اس کے چہرے اور ناک پر اس کے کفر کی وجہ سے کوئی علامت ذلت اور پہچان کی لگا دیں گے جس سے وہ خوب رسوا ہو۔ حدیث مرفوع میں ایسا ہی وارد ہے کما فی الدرالمنشور آگے اہل مکہ کو ایک قصہ سنا کر ان کو وبال سے ڈرایا گیا ہے) ہم نے (جوان اہل مکہ کو سامان عیش دے رکھا ہے جس پر یہ مغرور ہو رہے ہیں تو ہم نے) ان کی آزمائش کر رکھی ہے (کہ دیکھیں یہ نعمتوں کے شکر میں ایمان لاتے ہیں یا ناشکری و بیقدری کر کے کفر کرتے ہیں) جیسا (ان سے پہلے نعمتیں دے کر) ہم نے باغ والوں کی آزمائش کی تھی ( یہ باغ بقول ابن عباس ملک حبشہ میں تھا اور بقول سعید بن جبیر یمن میں، کذا فی الدا المنشور اور یہ قصہ اہل مکہ میں مشہور معروف تھا اور جن باغ والوں کا یہ قصہ ہے ان کے باپ کا اپنے وقت میں معمول تھا کہ ایک بڑا حصہ اس باغ کے پھل کا مساکین میں صرف کیا کرتا تھا جب وہ مر گیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہمارا باپ احمق تھا کہ اس قادر آمدین مسکینوں کو دے دیتا تھا اگر یہ سب آوے کس قدر فراغت ہو چناچہ ان آیتوں میں ان کا بقیہ قصہ مذکور ہے یعنی یہ واقعہ آئنذدہ اس وقت ہوا) جبکہ ان لوگوں نے (یعنی اکثر یا بعض نے لقولہ تعالیٰ قال اوسطھم باہم) قسم کھائی کہ اس (باغ) کا پھل ضرور صبح چل کر توڑ لیں گے اور (ایسا وثوق ہوا کہ) انہوں نے انشاء اللہ بھی نہیں کہا سو اس باغ پر آپ کے رب کی طرف سے ایک پھرنے والا (عذاب) پھر گیا ( اور وہ ایک آگ تھی۔ کذا فی الدرعن ابن جریج، خواہ خالص آگ ہو یا ہوا میں ملی ہوئی ہو جیسے لو) اور وہ سو رہے تھے پھر صبح کو وہ باغ ایسا رہ گیا جیسے کٹا ہوا کھیت (کہ خالی زمین رہ جاتی ہے اور بعض جگہ کاٹ کر جلا بھی دیا جاتا ہے مگر ان کو اس کی کچھ خبر نہیں تھی) سو صبح کے قوت (سو کر جو اٹھے تو) ایک دوسرے کو پکارنے لگے کہ اپنے کھیت پر سویرے چلو اگر تم کو پھل توڑنا ہے (کھیت یا تو مجازاً کہہ دیا ہو یا اس میں ایسی چیزیں بھی ہوں جو تنہ دار نہیں ہوتیں جیسے انگور وغیرہ یا کہ اس باغ کے متعلق کھیت بھی ہو) پھر وہ لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے چلے کہ آج تم تک کوئی محتاج نہ آنے پاوے اور (بزعم خود) اپنے کو اس کے نہ دینے پر قادر سمجھ کر چلے (کہ سب پھل گھر لے آویں گے اور کسی کو نہ دیں گے، کجذا فی الدرعن ابن عباس) پھر جب (وہاں پہنچے اور) اس باغ کو (اس حالت میں) دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک ہم رستہ بھول گئے ( اور کہیں نکل آئے کیونکہ یہاں تو باغ داغ کچھ بھی نہیں پھر جب موقع پر حدود کو دیکھ کر یقین کیا کہ وہی جگہ ہے تو اس وقت کہنے لگے کہ بھولے نہیں) بلکہ جگہ تو وہی ہے لیکن) ہماری قسمت ہی پھٹو گئی (کہ باغ کا یہ حال ہوگیا) ان میں جو (کسی قدر) وہ کہنے لگا کیوں میں نے تم کو کہا نہ تھا (کہ ایسی نیت مت کرو، مساکین کے دینے سے برکت ہوتی ہے اسی لئے اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اچھا کہا مگر عملاً یہ شخص بھی باوجود کراہت قلب کے سب کے ساتھ شریک ہوگیا تھا اس لئے احقر نے لفظ کسی قدر بڑھا دیا لان الاوسط مراضافی پھر پہلی بات کو یاد دلا کر اس سخص نے کہا کہ اپنی شامت اعمال تو بھگت لی مگر) اب (توبہ اور) تسبیح (و تقدیس) کیوں نہیں کرتے (تاکہ وہ گناہ معاف ہو اور اس سے زیادہ وبال نہ آ جاوے) سب (توبہ کے طور پر) کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے ( یہ تیز یہ ہے جو استغفار کی تمہید ہے) بیشک ہم قصور وار ہیں (یہ استغفار ہے) پھر ایک دوسرے کو مخاطب بناکر باہم الزام دینے لگے (جیسا کام بگڑنے کے وقت اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو رائے فاسدہ کا ذمہ دار بتلایا کرتا ہے پھر سب متفق ہو کر) کہنے لگے کہ بیشک ہم (سب ہی) حد سے نکلنے والے تھے (کسی) ایک کی خطا نہ تھی ایک دوسرے پر الزام بیکار ہے سب ملکر توبہ کرلو) شاید (توبہ کی برکت سے) ہمارا پروردگار ہم کو اس سے ا چھا باغ بدلے میں دیدے (اب) ہم اپنے رب کی طرف رجوع ہوتے ہیں (یعنی توبہ کرتے ہیں اور بدلنا عام ہے خواہ دنیا میں نعم البدل ملجاوے خواہ آخرت میں اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مومن تھے مرتکب معصیت ہوئے تھے اور یہ بات کہیں سند کے ساتھ نظر سے نہیں گزری کہ آیا اس باغ کے عوض ان کو دنیا میں کوئی باغ ملایا نہیں، البتہ بلا سند روح المعانی میں انب مسعود کا قول لکھا ہے کہ اس سے ا چھا باغ ان کو عطا کیا گیا واللہ اعلم۔ آگے قصہ کی غرض یعنی تحذیر کی تصریح ہے کہ خلاف حکم کرنے پر) اسی طرح عذاب ہوا کرتا ہے (جب ہوا کرتا ہے یعنی اے اہل مکہ تم بھی ایسے عذاب کے مستحق ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ کے کیونکہ عذاب مذکور تو محض معصیت پر تھا اور تم تو کفر کرتے ہو) اور آخرت کا عذاب اس (عذاب دنیوی) سے بھی بڑھ کر ہے کیا خوب ہوتا کہ یہ لوگ ( اس بات کو) جان لیتے (تاکہ ایمان لے آتے۔ آگے ان سزاؤں کی تحقیق کے لئے کفار کے خیال باطل کا ابطال فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے (آیت) لئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی یعنی) بیشک پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے نزدیک آسائش کی جنتیں ہیں (یعنی سبب دخول جنت کا تقویٰ ہے اور اس سے کافر عاری ہیں تو ان کو جنت کیسے مل جاوے گی) کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانبرداروں کے برابر کردیں گے (یعنی اگر کافروں کو نجات ہو تو فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں کیا فرق و امتیاز رہ جاوے گا جس سے فرمانبرداروں کی فضیلت ثابت ہو۔ کقولہ تعالیٰ فی (آیت) ص ام نجعل الذین امنوا و عملوا الصلحت کالمفسدین الخ) تم کو کیا ہوا تم کیسا فیصلہ کرتے ہو کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں پڑھتے ہو کہ اس میں تمہارے لئے وہ چیز (لکھی) ہو جو تم پسند کرتے ہو (یعنی اس میں لکھا ہو کہ تم کو آخرت میں حسنی یعنی نعمت ملے گی) کیا ہمارے ذمہ کچھ قسمیں چڑھی ہوئی ہیں جو تمہارے لئے کھائی گئی ہوں اور وہ قسمیں قیامت تک باقی رہنے اولی ہوں (جن کا یہ مضمون ہو) کہ تم کو وہ چیزیں ملیں گی جو تم فیصلہ کر رہے ہو (یعنی ثواب اور جنت) ان سے پوچھئے ان میں اس کا کون ذمہ دار ہے کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے کچھ شریک (خدائی) ہیں (کہ انہوں نے ان کو ثواب دینے کا ذمہ لیا ہے) سو ان کو چاہئے کہ یہ اپنے ان شریکوں کو پیش کریں گے یہ سچے ہیں غرض جب یہ مضمون کسی آسمانی کتاب میں نہیں ویسے بلاکتاب دوسرے طریق وحی سے ہمارا وعدہ نہیں جو مثل قسم کے ہوتا ہے پھر ایسی حالت میں کون شخص ان میں سے یا ان کے شرکاء میں سے ذمہ داری کرسکتا ہے ہرگز نہیں پھر دعویٰ کس بناء پر ہے۔ آگے ان لوگوں کی قیامت کی سروائی کا ذکر ہے وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس دن کہ سباق کی تجلی فرمائی جاوے گی اور سجدہ کی طرف لوگوں کو بلایا جاوے گا (اس کا قصہ حدیث شیخین میں مفروعاً اس طرح آیا ہے کہ حق تعالیٰ قیامت کے میدان میں اپنی ساق ظاہر فرما دے گا۔ ساق کہتے ہیں پنڈلی کو، اور یہ کوئی خاص صفت ہے جس کو کسی مناسبت سے ساق فرمای جیسا قرآن میں ہاتھ آیا ہے اور ایسے مفہومات متشابہات کہلاتے ہیں اور اسی حدیث میں ہے کہ اس تجلی کو دیکھ کر تمام مؤمنین مومنات سجدے میں گر پڑیں گے مگر جو شخص ریا سے سجدہ کرتا تھا اس کی کمر تختہ کی طرح رہ جاویگی سجدہ نہ کرسکے گا۔ اور سجدے کی طرف بلائے جانے سے یہ شبھہ نہ کیا جاوے کہ وہ دارالتکلیف نہیں ہے کیونکہ بلائے جانے سے مراد امر بالسجود نہیں ہے بلکہ اس تجلی میں یہ اثر ہوگا کہ سب ابالضطرار سجدہ کرنا چاہیں گے جن میں مومن اس بات پر قادر ہوجائیں گے اور اہل ریا و نفاق قادر نہ ہوں گے اور کفار کا قادر نہ ہونا اس سے بدرجہ اولی ٰمفہوم ہوتا ہے جسکا آگے ذکر ہے یعنی کفار بھی سجدہ کرنا چاہیں گے) سو یہ (کافر) لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے (اور) ان کی آنکھیں (ماے ر شرمندگی کے) جھکی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہوگی اور (وجہ اس کی یہ کہ) یہ لوگ (دنیا میں) سجدہ کی طرف بلائے جایا کرتے تھے (اس طرح کہ ایمان لا کر عبادت کریں) اور وہ صحیح سالمت ہے (یعنی سجدہ پر قادر بھی تھے چناچہ ظاہر ہے کہ ایمان و عبادت فعل اختیایر ہے بس دنیا میں امتثال امر نہ کرنے سے آج ان کو یہ رسوائی ذلت ہوئی اور دوسری آیت میں جو نگاہ کا اوپر اٹھا رہنا ایٓا ہے وہ اس کے معارض نہیں کیونکہ گاہے غلبہ حیرت سے ایسا ہوگا اور گاہے غلبہ ندامت سے ایسا ہوگا، آگے کفار کے اس خیال کا رد ہے کہ عذاب میں دیر ہونے کو اپنے مقبول ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور اس کے ضمن میں آپ کی تسلی بھی ہے، یعنی جب ان کا مستحق عذاب ہونا اوپر کی آیتوں سے معلمو ہوچکا) تو مجھ کو اور جو اس کلام کو جھٹلاتے ہیں ان کو (اس حال موجودہ پر) رہنے دیجئے (یعنی عذاب میں دیر ہونے سے رنج نہ کیجئے) ہم ان کو بتدریج (جہنم کی طرف) لی جا رہی ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں اور (دنیا میں ان پر عذاب نہ ڈالنے سے) ان کو مہلت دیتا ہوں بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے (آگے ان کے انکار نبوت پر تعجب ہے) کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ مانگتے ہیں کہ وہ اس تاوان سے دبے جاتے ہیں ( اس لئے آپ کی اطاعت سے نفرت ہے وہذا کقولہ تعالیٰ ام تسلھم خرجا) یا ان کے پاس غیب (کا عمل) ہے کہ یہ (اس کو محفوظ رکھنے کے واسطے) لکھ لیا کرتے ہیں (یعنی کیا ان کو احکام خداوندی خود کسی طریقے سے معلمو ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ صحاب وحی کے اتباع سے مستغنی ہیں اور ظاہ ہے کہ دونوں امر نہیں ہیں پھر انکار نبوت عجیب ہے آگے آپ کا تسلیہ ہے جب ان کا استحقاق عذاب اور کفر جو موجب استحقاق ہے معلوم ہوگ یا اور یہ کہ ان کی مہلت استدراج یعنی ایک قسم کی ڈھیل ہے اور وقت موعود پر عذاب ہوگا) تو آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے اور (تنگدلی میں) مچھلی (کے پیٹ میں جانے) والے (پیغمبر یونس علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائے (کہ وہ عذاب نازل نہ ہونے سے تنگدل ہوئے اور کہیں چلے گئے جسکا قصہ کئی جگہ تھوڑا تھوڑا آ چکا ہے مضمون مقصود تشبیہ کا تو ختم ہوچکا، آگے بطور تمتیم قصد کے ارشاد ہے کہ وہ وقت بھی یاد کیجئے) جبکہ یونس (علیہ السلام) نے (اپنے رب سے) دعا کی اور وہ غم سے گھٹ رہے تھے (یہ غم مجموعہ تھا کئی غموں کا ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا ایک عذاب کے ٹل جانے کا ایک بلا اذن صریح حق تعالیٰ کے وہاں سے چلے آنے کا۔ ایک مچھلی کے پیٹ میں محبوس ہونیکا اور وہ دعا یہ ہے (آیت) لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین جس سے مقصود معانی اور طلب نجات عن الحبس ہے چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور مچھلی کے پیٹ سے نجات ہوئی اسی کی نسبت ارشاد ہے کہ) اگر خدا وندی احسان ان کی دستگیری نہ کرتا تو وہ (جس میدان میں مچھلی کے پیٹ سے نکال کر ڈال دیئے گئے تھے اس) میدان میں بدحالی کے ساتھ ڈالے جاتے (دستگیری سے مراد قبول تو بہ ہے اور بدحالی سے مراد یہ کہ ان کی اجتہادی غلطی پر منجانب اللہ ان کو ملامت ہوئی حاصل اسکا اور آیت سورة صافات کا یہ ہے کہ اگر یہ توبہ و استغفار نہ کرتے تب تو شکم ماہی سے نجات ہی نہ ہوتی کما قال (آیت) فلوہ انہ کان الخ - اور اگر توبہ و استغفار کرتے مگر اللہ تعالیٰ قبول نہ فرماتا تو اس توبہ و استغفار کی اسقدر دنیوی برکت تو ہوتی کہ شکم ماہی سے نجات ہوجاتی اور میدان میں جس طرح اب ڈالے گئے اسی طرح ڈالے جاتے لیکن اس وقت وہ ڈالا جانا مذموم ہوتا اور اب کا ڈالا جانا مذموم ہونے کی حالت میں نہیں ہوا کیونکہ قبول توبہ کے بعد خطا پر مذمت و ملامت نہیں ہوا کرتی) پھر ان کے رب نے ان کو (اور زیادہ) برگزیدہ کرلیا اور ان کو (زیادہ رتبہ کے) صالحین میں سے کردیا (شاید اس تمتیم قصہ سے یہ بھی مقصود ہو کہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنا ان کو کیسا مضر ہوا اور توکل کیسا نافع ہوا اسی طرح عذاب کے بارے میں آپ بھی اپنی رائے سے جلدی نہ کیجئے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیجئے کہ انجام بہتر ہوگا) اور (آگے آپ کی شان میں کفار کے مجنون کہنے کا ایک دوسرے انداز زمین ابطال ہے شروع سورت میں انداز سے اس کو باطل کیا گیا تھا یعنی) یہ کافر جب قرآن سنتے ہیں تو (شدت عداوت سے) ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا کر گرا دیں گے (یہ ایک محاورہ ہے جیسے بولتے ہیں کہ فلاں شخص اس طحر دیکھتا ہے جیسے کھا جائے گا کما فی روح المعانی نظر الی نظر ایکاد یصدعنی او یکاد یا کلنی، مطلب یہ کہ شدت عداوت سے آپ کو بری بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں) اور (اسی عداوت سے آپ کی نسبت) کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) پہ مجنون ہیں حالانکہ یہ قرآن (جس کے ساتھ آپ تکلم فرماتے ہیں) تمام جہان کے واسطے نصیحت ہے (اور مجنون آدمی کے متعلق ایسی اصلاح عام نہیں ہو سکتی اس میں تو جواب طعن جنون ظاہر ہے اور بیان عداوت سے بھی اس طعن کا ضعیف ہونا ثابت ہوگیا کیونکہ جس قول کا منشاء شدت عداوت ہو وہ قابل اتفات نہیں) - معارف و مسائل - سورة ملک میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور توحید اور علم وقدرت کے دلائل مشاہدہ کائنات سے بیان ہوئے ہیں اور کفار و منکرین پر عذاب شدید کا ذکر ہے۔ سورة نون میں کفار کے ان مطاعن کا جواب ہے وہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلا ان کا طعنہ یہ تھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کامل العقل کامل اعلم جامع الفضائل رسول کو معاذ اللہ مجنون کہتے تھے یا اسوجہ سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو وحی فرشتہ کے ذریعہ نازل ہوتی تھی بوقت وحی اس کے آثار آپ کے جسم مبارک پر دیکھے جاتے تھے، پھر آپ وحی سے حاصل شدہ آیات پڑھ کر سناتے تھے یہ معاملہ کفار کے فہم و ادراک سے باہر تھا اس لئے اس کو جنون قرار دے دیا اور یا اسوجہ سے کہ آپ نے اپنی قوم اور پوری دنیا کے عائد موجودہ کے خلاف یہ دعویٰ کیا کہ عابدتک کے قابل اللہ کے سوا کوئی نہیں جن خود تراشیدہ بتوں کو وہ خدا سمجھتے تھے ان کا بےعلم و شعور ناقابل نفع و ضرر ہونا بیان کیا، آپ کے اس عقیدہ کا کوئی ساتھی نہ تھا آپ اکیلے یہ دعویٰ لے کر بغیر کسی ظاہری سازو سامان کے ساری دنیا کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے۔ ظاہر بیں نظروں میں اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا ایسے دعوے کو لے کر کھڑا ہونا جنون سمجھاگ یا اور بغیر کسی سبب کے بھی بعض طعن برائے طعن ہو سکتا ہے کہ مجنون کہتے ہوں، سورة نون کی ابتدائی آیتوں میں ان کے اس خیال باطل کی تردید قسم کے ساتھ مؤ کد کر کے بیان فرمائی ہے۔- نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْن ،ۙمَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْن حرف نون حروف مقطعہ میں سے ہے جو قرآن کریم کی بہت سی سورتوں کو امت کو اس کی تحقیق میں پڑنے سے روک دیا گیا ہے۔- قلم سے کیا مراد ہے اور قلم کی فضیلت والقلم میں واؤ حرف قسم ہے اور قلم سے مراد عام قلم بھی ہوسکتا ہے جس میں قلم تقدیر اور فرشتوں اور انسانوں کے سب قلم جن سے کچھ لکھا جاتا ہے سب داخل ہیں (کما ہو قول ابی حاتم البستی) اور خاص قلم تقدیر بھی مراد ہو سکتا ہے ہیں (کما ہو قول ابن عباس) اور اس قلم تقدیر کے متعلق حضرت عبادہ بن الصامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ، قلم نے عرض کیا، کیا لکھوں تو حکم دیا کہ تقدیر الٰہی کو قلم نے (حکم کے مطابق) ابد تک ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا۔ (رواہ الترمذی و قال ہذا حدیث غریب) اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا۔- اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ قلم اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے جو اس نے اپے ن بندوں کو عطا فرمائی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک قلم، قلم تقدیر پیدا فرمایا جسنے تمام کائنات و مخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں پھر دوسرا فرمایا جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں گے اس دوسرے قلم کا ذکر سورة اقرار میں آیا ہے (آیت) علم بالقلم۔ واللہ اعلم - آیت میں اگر قلم سے مراد قلم تقدیر لیا جائے جو سب سے پہلی مخلوق ہے تو اس کی عظمت اور تمام چیزوں پر ایک برتری ظاہر ہے اس لئے اس کی قسم کھانا مناسب ہوا اور اگر قلم سے مراد عام قلم لئے جاویں جس میں قلم تقدیر اور فرشتوں کے اقلام کے علاوہ انسانوں کے قلم بھی داخل ہیں تو اس کی قسم اسلئے کھائی گئی کہ دنیا میں بڑے بڑے کام سب قلم ہی سے ہوتے ہیں۔ ملکوں کی فتوحات میں تلوار سے زیادہ قلم کا مؤثر ہونا منقول و معروف ہے ابوحاتم بستی نے اسی مضمون کو دو شعروں میں فرمایا ہے۔- اذا اقسم الابطال یوما بسیفھم جب کہ قسم کھائیں بہادر لوگ کسی دن اپنی تلوار کی، کفی قلم الکتاب عزا ورفعة، تو کافی ہے لکھنے والوں کا قلم ان کی عزت و برتری کے لئے - وعدہ وہ ممایکسب المجد والکرم، اور اس کو شمار کریں ان چیزوں میں جو انسان کو عزت و شرف بخشتی ہیں مدی الدھر ان اللہ اقسم بالقلم ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے کیونکہ اللہ نے قسم کھائی ہے قلم کی۔- بہرحال اس آیت میں قلم تقدیر یا عام قلم خلائق کی اور پھر لفظ مایسطرون میں جو کچھ ان قلموں سے لکھا گیا یا لکھا جائے گا اس کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے کفار کے اس طعنہ باطلہ کا رد فرمایا کہ آپ مجنون ہیں ارشاد ہوا ۙمَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْن یعنی آپ اپنے رب کی نعمت و فضل کی وجہ سے ہرگز مجنون نہیں اس میں بنعمتہ ربک بڑھا کر دعویٰ کی دلیل بھی دے دی کہ جس شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمت و رحمت مکمل ہو وہ کیسے مجنون ہوسکتا ہے اس کو مجنون کہنے والا خود مجنوں ہے۔- فائدہ :۔ علماء نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ جس چیز کی قسم کھاتے ہیں وہ مضمون قسم پر ایک شہادت ہوتی ہے یہاں ما یسطرون کے لفظ سے دنیا کی تاریخ میں جو کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے اس کو بطور شہادت پیش کیا ہے کہ دنیا کی تاریخ کو دیکھو، ایسے اعلیٰ اخلاق و اعمال والے کہیں مجنون ہوتے ہیں وہ تو دوسروں کی عقل درست کرنے والے ہوتے ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ ١ - قلم - أصل القَلْمِ : القصّ من الشیء الصّلب، کا لظفر وکعب الرّمح والقصب، ويقال لِلْمَقْلُومِ : قِلْمٌ. كما يقال للمنقوض : نقض . وخصّ ذلک بما يكتب به، وبالقدح الذي يضرب به، وجمعه : أَقْلَامٌ. قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] . وقال : وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] ، وقوله : إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] أي : أقداحهم، وقوله تعالی: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] تنبيه لنعمته علی الإنسان بما أفاده من الکتابة وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام کان يأخذ الوحي عن جبریل وجبریل عن ميكائيل وميكائيل عن ؟ ؟ ؟ إسرافیل وإسرافیل عن اللّوح المحفوظ واللّوح عن القَلَمِ» فإشارة إلى معنی إلهيّ ، ولیس هذا موضع تحقیقه . والْإِقْلِيمُ : واحد الْأَقَالِيمِ السّبعة . وذلک أنّ الدّنيا مقسومة علی سبعة أسهم علی تقدیر أصحاب الهيئة .- ( ق ل م ) القلم ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی کسی سخت چیز کو تراشنے کے ہیں ۔ اس لئے ناخن بانس کی گرہ اور سر کنڈ سے وغیرہ کے تراشنے پر قلم کا لفظ بو لاجاتا ہے اور تراشیدہ چیز کو ہے جیسے کہا جاتا ہے تو قلم مقلوم ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اتا ہے ۔ اور ( عرف میں ) خاص کر لکھنے کے آلہ اور قرعہ اندازی کے تیر پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اس کی جمع اقلام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں ( سب کے سب ) قلم ہوں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے ۔ میں اقلام سے قرعہ اندازی کے تیر مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] جس نے قلم کے ذر یعہ سے علم سکھایا ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انسان کو کتابت کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو حدیث میں ایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبیریل (علیہ السلام) سے وحی اخذ کرتے تھے اور جبیریل مکائیل سے وہ اسرافیل سے اور اسرافیل لوح محفوظ سے اور لوح محفوظ قلم سے تو یہاں سر الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی تحقیق کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ الاقلیم ۔ ربع مسکون کا ساتواں حصہ ۔ علماء بیئت کی تحقیق کے مطابق زمین کے سات حصے ہیں ۔ اور ہر حصہ پر اقلیم کا لفظ بولتے ہیں اس کی جمع اقالیم ہے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطراوأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(١۔ ٢) قسم ہے ن کی اور قلم کی اور ان کے لکھنے کی، نون یہ ایک مچھلی ہے جس نے ساتوں زمینوں کو اپنی پشت پر اٹھا رکھا ہے اور یہ پانی میں ہے۔- اور اس کے نیچے بیل ہے اور بیل کے نیچے پتھر ہے اور اس کے نیچے نرم مٹی ہے اور مٹی کی تہ میں کیا چیز ہے اس کا علم اللہ کے علاوہ اور کسی کو نہیں اور اس مچھلی کا نام لیواش ہے یا یہ کہ لوتیاہ اور بیل کا نام بھ موت ہے اور بعض تلہوت ذکر کیا ہے، یا یہ کہ لیوتا ہے اور یہ مچھلی سمندر میں ہے اسے عفواص کہا جاتا ہے اور جیسا کہ بڑے دریا میں چھوٹا بیل ہوتا ہے یہ اس کی طرح ہے اور یہ دریا جو فاء پتھر میں ہے اور اس پتھر میں چار ہزار شکنیں ہیں۔- ایک شکن سے پانی نکل کر زمین تک آتا ہے اور وہ اسماء خداوندی میں سے ایک اسم ہے اور وہی نون رحمن ہے، اور نون کے معنی دوات کے بھی بیان کیے گئے ہیں اور یہ قلم نور کا ہے اس کا طول آسمان و زمین کی مسافت کے برابر ہے اور اسی سے لوح محفوظ پر لکھا گیا ہے کہ قلم فرشتوں میں سے ایک ہے۔ اسی کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور قسم ہے اس کی جو کہ فرشتے انسانوں کے اعمال لکھتے ہیں۔ آگے جواب قسم ہے کہ محمد اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت و اسلام کی فضیلت عطا فرمائی ہے آپ مجنون نہیں ہیں۔- شان نزول : مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ (الخ)- ابن منذر نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ کفار رسول اکرم کے متعلق کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ آپ مجنون ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١ نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ ۔ ” ن ‘ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ یہ لکھتے ہیں۔ “- یعنی قلم بھی اور جو علمی ذخیرہ قلم کے ذریعہ نوع انسانی کے ہاں اب تک وجود میں آیا ہے وہ بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ :
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :1 امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر ، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اس سے مراد قرآن مجید ہے ۔
1: یہاں حرف نون اُنہی حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف قرآنی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، اور جن کے بارے میں سورۃ بقرہ کے شروع میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ان کے ٹھیک ٹھیک معنیٰ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔ 2: مکہ مکرَّمہ کے کافر لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو (معاذ اللہ) دیوانہ کہا کرتے تھے۔ اگلی آیت میں اُن کی تردید فرمائی گئی ہے، اور اس سے پہلے اس آیت میں اس تردید پر یہ قسم کھائی گئی ہے۔ اس کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے فرمایا ہے کہ قلم سے مراد تقدیر کا قلم ہے اور وہ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی قسم ہے تقدیر کے قلم کی، اور تقدیر کے ان فیصلوں کی جو فرشتے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دیوانے نہیں ہیں۔ یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیغمبر ہونا اور مکہ مکرَّمہ میں مبعوث ہونا تقدیر میں پہلے سے لکھا جا چکا تھا، اس لئے آپ اگر اﷲ تعالیٰ کا پیغام دُنیا والوں تک پہنچا رہے ہیں تو اس میں نہ کوئی غیر معقول بات ہے، اور نہ اس پر کسی کو حیرت ہونی چاہئے۔ دُوسرے بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ قلم سے مراد عام قلم ہے، اور ’’جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں‘‘ سے مراد عام لوگوں کا لکھنا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قلم سے لکھنا جاننے والے بھی وہ اعلی مضامین لکھنے سے عاجز ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قرآنِ کریم کے ذریعے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، حالانکہ آپ اُمّی ہیں، اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ ایک اُمّی کی زبان مبارک پر ایسا اُونچے درجے کا کلام جاری ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ کے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی آ رہی ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو دیوانگی کا طعنہ دینا خود دیوانگی ہے۔