13۔ 1 یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے جن کی خاطر پیغمبر کو خوش آمد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
[١١] زنیم کا معنی ایسا شخص ہے جس کا نسب مشکوک ہو وہ خود کو کسی دوسرے قبیلے سے ملا رہا ہو، اسی لحاظ سے اس لفظ کا معنی بدذات بھی کیا جاتا ہے۔ بدنام بھی اور ولدالزنا بھی۔ عام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا۔ جو ابو جہل سے پہلے قریش مکہ کا رئیس تھا اور اس کے نسب کا اٹھارہ سال بعد پتہ چلا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ :” عتل “ ” عتل یعتل “ (ن، ض) سختی سے گھسیٹنا، جیسے فرمایا :( خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰی سَوَآئِ الْجَحِیْمِ ) (الدخان : ٤٧)” اسے پکڑو ، پھر سختی سے کھینچتے ہوئے اسے بھڑکتی آگ کے درمیان تک لے جاؤ “۔ ” عتل “ موٹے جسم ، موٹے دماغ اور سخت مزاج والا ۔ ” زنیم “ کے دو معنی ہیں ، ایک یہ کہ جو کسی قوم سے نہ ہو مگر اس میں سے ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرا معنی لئیم ، جو کمینگی اور شرارت میں مشہور ۔ ” بد نام “ کے لفظ میں دونوں مفہوم ادا ہورہے ہیں۔
عُتُلٍؚّبَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ ١٣ ۙ- عتل - العَتْلُ : الأخذ بمجامع الشیء وجرّه بقهر، كَعَتْلِ البعیرِ. قال تعالی: فَاعْتِلُوهُ إِلى سَواءِ الْجَحِيمِ [ الدخان 47] ، والعُتُلُّ : الأَكُولُ المنوع الذي يَعْتِلُ الشیءَ عَتْلًا . قال : عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم 13] .- ( ع ت ل ) العتل کسی چیز کو اس جگہ سے پکڑنا جہاں اس کے سارے سرے جمع ہوتے ہوں اور اسے بزور گھسیٹا جس طرح کہ اونٹ کی مہار پکڑ کر اسے نہایت بیدروی کے ساتھ کھینچا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاعْتِلُوهُ إِلى سَواءِ الْجَحِيمِ [ الدخان 47] اور اسے کھینچ کر دوزخ کے اندر لے جاؤ ۔ العتل بسیار خود وہ مال کو روک کر رکھنے والا جو کسی چیز جو نہایت بےدردی گھسیٹا ہو ( سخت گیر ) قرآن میں ہے : ۔ عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم 13] سخت گیر اور اس کے علاوہ بد ذات بھی ۔- زنم - الزَّنِيمُ والْمَزَنَّمُ : الزّائد في القوم ولیس منهم، تشبيها بِالزَّنمَتَيْنِ من الشّاة، وهما المتدلّيتان من أذنها، ومن الحلق، قال تعالی:- عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم 13] ، وهو العبد زلمة وزَنْمَةً ، أي : المنتسب إلى قوم معلّق بهم لا منهم، وقال الشاعرفأنت زَنِيمٌ نيط في آل هاشم ... كما نيط خلف الرّاكب القدح الفرد - ( ز ن م ) الزنیم یا مزنم اسے کہتے ہیں جو کسی قوم سے نسبتی تعلق تو نہ رکھتا ہو لیکن اس کے ساتھ یونہی ملحق ہو جیسے زنمتا الشاۃ یعنی گوشت کے دو زائد ٹکڑے جو بکری کے گلے یا کان سے نیچے لٹک رہے ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم 13] سخت جھگڑالو اس کے علاوہ بد ذات بھی ۔ اور زنیم اس غلام کو بھی کہتے ہیں جو کسی قوم کی طرف منسوب ہو یعنی زلمۃ یا زنمۃ کی طرح لٹک رہا ہوں در حقیقت ان سے نہ ہو شاعر نے کہا ہے ( الطول ) فأنت زَنِيمٌ نيط في آل هاشم ... كما نيط خلف الرّاكب القدح الفرد اور تو حرام زداہ ہے جو آل ہاشم کے ساتھ اس طرح معلق ہے جیسے لکڑی کا خالی پیالہ سوار کے پیچھے لٹک رہا ہوتا ہے ۔
قول باری ہے (عتل بعد ذلک زنیم، جفا کار اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے) پہلے لفظ کے بارے میں ایک قول ہے کہ ہٹے کٹے اور بدخلق نیز سفاک انسان کو عتل کہا جاتا ہے۔ زنیم اس ولدالزنا کو کہا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق التستری نے، انہیں الولیدبن عتبہ نے، انہیں الولید بن مسلم نے، انہیں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان نے عثمان بن عمیر البجلی سے، انہوں شہرین حوشب سے، انہوں نے حضرت شداد بن اوس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یدخل الجنۃ جو اظ ولا جعظری ولا عتل زنیم) میں نے دریافت کیا کہ جو اظ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ” بہت زیادہ کھانے والا۔ “ میں نے کہا جعظری کون ہوتا ہے، انہوں نے جواب دیا ” ہٹاکٹا اور بدخلق “ پھر میں نے پوچھا ” عتل زنیم “ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ” بڑے پیٹ والا۔
(١٣۔ ١٤) باطل پر سخٹ جھگڑنے والا ہو، یا یہ کہ بہت کھانے پینے والا، صحیح تندرست اور لالچی ہو، اور اس کے علاوہ حرام زادہ ہو، یا یہ کفر و شرک فسق و فجور اور شرارتوں میں مست ہو۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ کی اطاعت نہ کرو اس وجہ سے کہ وہ مال والا اور اولاد والا ہے اور اس کے پاس نو ہزار مثقال چاندی تھی اور اس کے دس بیٹے تھے۔
آیت ١٣ عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ۔ ” بالکل گنوار ہے ‘ اس کے بعد یہ کہ بداصل بھی ہے۔ “- یعنی مذکورہ بالا خصلتیں تو اس کی شخصیت میں ہیں ہی ‘ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بےنسب بھی ہے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :8 اصل میں لفظ عتل استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو خوب ہٹا کٹا اور بہت کھانے پینے والا ہو ، اور اس کے ساتھ نہایت بد خلق ، جھگڑالو اور سفاک ہو ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :9 اصل میں لفظ زنیم استعمال ہوا ہے ۔ کلام عرب میں یہ لفظ اس ولدالزنا کے لیے بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہو گیا ہو ۔ سعید بن جبیر اور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اس شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو ۔ ان آیات میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اس کے بارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا ۔ کسی نے اسود بن عبد یغوث کا نام لیا ہے ۔ کسی نے اخنس بن شریق کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے ۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اس کے اوصاف بیان کردیے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے ان اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کا نام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے ۔