یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔
[١٥] باغ والوں کا قصہ :۔ یہ واقعہ آیت نمبر ١٧ سے آیت نمبر ٣٣ تک پھیلا ہوا ہے۔ جسے ہم تسلسل کے ساتھ اپنے الفاظ میں بیان کریں گے کسی شخص کا ایک باغ تھا جو بھرپور فصل دیتا تھا۔ اس شخص کا زندگی بھر یہ دستور رہا کہ جب بھی پھل کی فصل اٹھاتا تو اس کے تین حصے کرتا۔ ایک حصہ تو خود اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتا۔ دوسرا حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کردیتا اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین میں بانٹ دیتا۔ اس کی اس سخاوت کی وجہ سے اس کا باغ سب سے زیادہ فصل دیتا۔ کٹائی کے دن فقراء و مساکین موقع پر پہنچ جاتے اور اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے۔- جب یہ شخص انتقال کر گیا تو اس کے بیٹوں کو خیال آیا کہ ہمارا باپ تو ساری عمر اس باغ کی فصل کو ادھر ادھر تقسیم کرکے اپنی کمائی یوں ہی لٹاتا رہا اور زندگی بھر مفلس ہی رہا۔ اب کے یہ ریت ختم کردینا چاہیے۔ باغ ہمارا ہے اور اس پر ہمارا ہی حق ہے چناچہ انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جب کٹائی کا موقع آئے تو راتوں رات ہی کرلی جائے۔ تاکہ نہ غریب مسکین آئیں، نہ ہمیں تنگ کریں اور نہ ہم برے بنیں۔ انہوں نے اس بات پر قسمیں کھائیں کہ ایسا ہی کریں گے اور انہیں اپنی اسکیم پر اس قدر وثوق تھا کہ انہوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔- جب کٹائی کا وقت آگیا تو وہ راتوں رات، خوشی خوشی، اچھلتے کودتے اپنے باغ کی طرف روانہ ہوئے ادھر اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اسی رات سخت آندھی کا طوفان آیا۔ جس میں آگ تھی۔ آندھی کے ذریعہ وہ آگ باغ کے درختوں تک پہنچ گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہیں جلا کر راکھ کرگئی۔ آن کی آن میں سارا باغ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ جب یہ عقل مند بیٹے وہاں پہنچے تو وہاں نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ انہیں وہاں باغ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ سوچنے لگے کہ ہم شائد رات کے اندھیرے میں کسی غلط جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر جب کچھ حواس درست ہوئے تو حقیقت ان پر آشکار ہوگئی کہ ان کی نیت کا فتور آندھی کا عذاب بن کر ان کے باغ کو بھسم کر گیا ہے۔ اب وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ان کے منجھلے بھائی نے کہا کیا میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ اسے ہر وقت یاد رکھو اور اسی سے خیر مانگو۔ مگر ان بھائیوں میں سے کسی نے بھی منجھلے بھائی کی طرف توجہ نہ دی تو ناچار اسے بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔ اور وہ ملامت بھی اس طرح کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو کہتا کہ تم ہی نے یہ ترغیب دی تھی دوسرا کہتا کہ یہ مشورہ تو تمہارا تھا مگر اب پچھتانے سے کچھ بن نہ سکتا تھا۔ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔- باپ کو اس کی سخاوت اور دوسروں سے ہمدردی کا یہ صلہ ملتا رہا کہ اسی کا باغ سب سے زیادہ پھل لاتا تھا اور جتنا کچھ وہ دوسروں پر خرچ کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اسے مہیا فرماتا۔ مگر جب بیٹوں پر بخل اور حرص غالب آئی تو اس کا ثمرہ یوں ملا کہ نیت کے فتور نے مجسم طوفان کا روپ دھار کر سارا باغ ملیا میٹ کردیا۔ اس وقت نہ زمین کی زرخیزی کام آئی، نہ ان کی کوئی تدبیر، اس واقعہ سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی بنا پر اگر اللہ تعالیٰ نادیدنی وسائل کے ذریعہ رزق فراہم کرسکتا ہے تو نیت میں فتور آنے پر ایسے ہی نادیدنی وسائل سے دیئے ہوئے رزق کو چھین بھی سکتا ہے۔ آخر سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں اور محتاجوں کا حق مارنا چاہا اور حرص و طمع میں آکر اصل بھی کھو بیٹھے۔ یہ جو کچھ خرابی آئی اس میں ہم ہی قصور وار ہیں۔ مگر اب بھی ہم اپنے پروردگار سے ناامید نہیں کیا عجیب ہے کہ وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ ہم کو عطا کردے۔
وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ :” الاستثنائ “ کسی چیز کو عام حکم سے علیحدہ کرنا ، ان شاء اللہ کہنا ۔ آیت کے دو معنی ہیں ، ایک یہ کہ انہیں اپنے منصوبے کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا وہ اللہ کی قدرت و مشیت کو بھی بھول گئے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے سارا پھل اتار دینے کی قسم کھائی ۔ عام طور پر پھل چنتے وقت کچھ پھل مساکین کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے اس کا استثناء بھی نہیں کیا۔
وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ کے معین استثناء نہ کرنے کے ہیں اور مراد اس استثناء سے انشاء اللہ کہنا ہے اور بعض حضرات مفسرین نے استثناء سے مراد یہ لیا ہے کہ ہم پورا پورا غلہ اور پھل لے آویں گے فقراء کا حصہ مستثنی نہ کریں گے۔ (مظہری)
وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ ١٨- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- استثناء - : إيراد لفظ يقتضي رفع بعض ما يوجبه عموم لفظ متقدم، أو يقتضي رفع حکم اللفظ عما هو . فممّا يقتضي رفع بعض ما يوجبه عموم اللفظ قوله تعالی: قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً الآية : [ الأنعام 145] .- وما يقتضي رفع ما يوجبه اللفظ فنحو قوله :- والله لأفعلنّ كذا إن شاء الله، وامرأته طالق إن شاء الله، وعبده عتیق إن شاء الله، وعلی هذا قوله تعالی: إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ وَلا يَسْتَثْنُونَ [ القلم 17- 18] .- الاستثناء کے معنی کلام میں ایسا لفظ لانے کے ہیں جو پہلے عام حکم سے بعض افراد کی تخصیص یا اس عام حکم کے کیتہ مرتفع ہونے کا فائدہ دے چناچہ عموم حکم ہے بعض اٖفراد کی تخصیص کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً الآية : [ الأنعام 145] کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے ۔ حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو ۔ اور پہلی کلام کی کلیۃ نفی جیسے :۔ والله لأفعلنّ كذا إن شاء الله، میں یہ کام ضرور کروں گا انشاء اللہ ۔ امرء تہ طالق ان شاء اللہ اس کی عورت کو طلاق ہے انشاء اللہ ۔ عبدہ عتیق ان شاء اللہ ۔ اس کا غلام آزاد ہے ان شاء اللہ اور آیت کریمہ :۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ وَلا يَسْتَثْنُونَ [ القلم 17- 18] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح صبح ہوتے ہم اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ اور انشاء اللہ نہ کہا ۔ وَلا يَسْتَثْنُونَسے بھی یہی مراد ہیں ۔
آیت ١٨ وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ ۔ ” اور انہوں نے (اس پر) ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔ “- باغ کے پھل پک کر تیار ہوچکے تھے ۔ انہوں نے ایک رات پروگرام طے کرلیا کہ وہ صبح سویرے جائیں گے اور سارا پھل اتار لائیں گے۔ گویا وہ اپنے اسباب و وسائل کے گھمنڈ میں مسبب ِحقیقی کو بالکل ہی بھول گئے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :13 یعنی انہیں اپنی قدرت اور اپنے اختیار پر ایسا بھروسہ تھا کہ قسم کھا کر بے تکلف کہہ دیا کہ ہم ضرور کل اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور یہ کہنے کی کوئی ضرورت وہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہ کام کریں گے ۔
8: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ سارے کا سارا پھل ہم توڑ لیں گے، اور اُس کے کسی حصے کا استثنا نہیں کریں گے، یعنی کوئی حصہ غریبوں کے لئے نہیں چھوڑیں گے۔ دُوسرے اِستثنا کرنے کا ایک مطلب ان شا اللہ کہنا بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم صبح ہوتے ہی پھل توڑ لیں گے تو اُس وقت انہوں نے ’’اِن شاء اللہ‘‘ نہیں کہا تھا۔