سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی یہاں ان کافروں کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا ، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبر کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے ، تو فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے ، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے ، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے انشاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لئے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی ، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لئے تیار کر دی گئی ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بےنصیب ہو گئے ( ابن ابی حاتم ) صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو ، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا ، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے ، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے ، سدی فرماتے ہیں حرد ان کی بستی کا نام تھا لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ۔ یہ جانتے تھے کہا اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے ، لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے ۔ کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہو چکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا ہے ، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا ، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے ، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہو گیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں ، پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہو گیا کہ باغ تو یہ ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں ، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں ، ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے ، سدی فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی انشاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا ، امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کے معنی ہی انشاء اللہ کہنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد و ثناء نہیں کرتے؟ یہ سن کر اب وہ کہنے لگ ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی ، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے ، پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا ، پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو واللہ اعلم ، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے ، حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یہ لوگ فروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے ۔ مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کر دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں یہ ارادہ انہوں نے پختہ کر لیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کر دیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ، پھر فرماتا ہے جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں ، بیہقی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے ۔
17۔ 1 مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔ 17۔ 2 باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو تباہ کردیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔
[١٤] یعنی ان قریش مکہ کو بھی اسی طرح آزمائش میں ڈال رکھا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔
١۔ اِنَّا بَلَوْنٰـہُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ۔۔۔۔: اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بیشمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ تمام لوگ حج کے لیے انکے پاس آتے اور اپنی ضروریات کے لیے ان کے گاہک بنتے تھے ، وہ جہاں جاتے اہل حرم ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی کچھ نہ کہتا ۔ ہر قسم کا میوہ ان کے شہر پہنچ جاتا ، ان کی تجارت خوب چمکی ہوئی تھی اور وہ نہایت مال دار اور مکمل امن کی نعمت سے بہرہ ور تھے ۔ ان نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انعام بھی کیا کہ ان میں اپنا آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرمایا ، مگر انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کردیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ چلے جانے کے بعد قریش نے آپ کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا ، جس سے وہ خود بھی غیر محفوظ ہوگئے اور ان کی تجارت بھی برباد ہوگئی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے ان پر قحط مسلط ہوگیا ، یہاں تک کہ وہ مردار تک کھا گئے۔ ( دیکھئے بخاری ، ٤٨٢٨، ٤٨٠٩) اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کی اس حالت کا ذکر ان آیات میں بیان کیا ہے :( وَضَرَبَ اللہ ُ مَثَـلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہ ِ فَاَذَاقَہَا اللہ ُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ ) (النحل : ١١٢، ١١٣) ” اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی ، اطمینان والی تھی ، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا ، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے اور بلا شبہ یقینا ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا ، تو انہیں عذاب نے اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے “۔- یہاں اہل مکہ کی نا شکری اور اس پر سزا کے لیے بطور مثال ایک باغ والوں کا قصہ بیان کیا اور فرمایا :( انا بلونھم کما بلونا اصحب الجنۃ) ” بیشک ہم نے مکذبین کو نعمت دے کر آزمایا جس طرح باغ والوں کو نعمت دے کر آزمایا تھا “۔ یہ چند بھائی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت شاندار باغ عطاء فرمایا تھا، مگر بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالتے ، انہوں نے قسم کھالی کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے ، کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور نہ انہیں کچھ دیں گے ، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے جانے سے پہلے ہی آگ لگنے یا کسی اور آسمانی آفت سے باغ برباد ہوگیا ۔ صبح گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔- ٢۔” بلونھم “ ” بلا یبلو “ (ن) آزمانا ، مصیبت میں مبتلا کرنا ، انعام کرنا ۔” لیصرمنھا “ ” صرم یصرم “ (ض) کاٹنا ، کٹنا ، ” صریم “ کٹا ہوا ۔ یہ باغ کہا تھا اور باغ والے کون تھے ؟ قرآن نے ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ قرآن واقعات کو بطور تاریخ نہیں بلکہ بطور عبرت بیان کرتا ہے اور اس کے لیے نفس واقعہ ہی کافی ہے۔ اس مقام پر سورة ٔ کہف کی آیات (٣٢ تا ٤٤) بھی دیکھ لیں ، وہاں بھی عبرت دلانے کے لیے دو باغ رکھنے والے کی مثال بیان کی گئی ہے۔
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ (یعنی ہم نے آزمائش میں ڈالا ان (اہل مکہ) کو جس طرح آزمائش میں ڈالا تھا باغ والوں کو) سابقہ آیات میں کفار اہل مکہ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن وتشنیع کا جواب تھا۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے پچھلے زمانے کا ایک قصہ ذکر کر کے اہل مکہ کو تنبیہ فرمائی اور عذاب سے ڈرایا۔ اہل مکہ کو آزمائش میں ڈالنے سے یہ مراد بھی ہو سکتی کہ جس طرح آئندہ آنے والے قصہ میں باغ والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا انہوں نے ناشکری کی جس کے نتیجہ میں عذاب آ گیا اور ان کی نعمت سلب ہوگئی، حق تعالیٰ نے اہل مکہ پر اپنا سب سے بڑا انعام تو یہ فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے اندر پیدا فرمایا اس کے علاوہ ان کی تجارتوں میں برکت عطا فرمائی اور ان کو خوشحال بنادیا، یہ ان کی آزمائش ہے کہا للہت عالیٰ کی ان نعمتوں کے شکر گزار ہوتے ہیں اور اللہ و رسول پر ایمان لاتے ہیں یا اپنے کفر وعناد پر جمے رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کو باغ والوں کے قصہ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کفر ان نعمت سے ان پر بھی ایسا ہی عذاب نہ آجائے۔ یہ تفسیر اس صورت میں بھی صادق ہے جبکہ ان آیات کو بھی مثل اکثر سورت کے مکی قرار دیا جائے لیکن بہت سے حضرات مفسرین نے ان آیات کو مدنی قرار دیا ہے اور جس آزمائش کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ قحط کا عذاب ہے جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے ان لوگوں پر مسلط ہوا تھا جس میں وہ بھوک سے مرنے لگے اور مردار جانور اور درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد کا ہے۔- باغ والوں کا قصہ :۔ یہ باغ بعض سلف جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ کے قول پر یمن میں تھا اور حضرت سعید بن جبیر کی ایک روایت یہ ہے کہ صنعاء جو یمن کا مشہور شہر اور دارالسلطنت ہے اس سے چھ میل کے فاصلے پر تھا اور بعض حضرات نے اس کا محل وقوع حبشہ کو بتلایا ہے (ابن کثیر) یہ لوگ اہل کتاب میں سے تھے اور یہ واقعہ رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کے کھچ عرص ہبع کا ہے (قرطبی) - آیت مذکورہ میں ان کو اصحاب الجنتہ یعنی باغ والوں کے نام سے تعبیر کیا ہے مگر مضمون آیات سے معلوم ہوتا ہے کہا ان کے پاس صرف باغ ہی نہیں بلکہ کاشت کی زمینیں بھی تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ باغ کے ساتھ ہی مزروعہ زمین بھی ہو مگر باغوں کی ہشرت کے سبب باغ والے کہہ دیا گیا۔ واقعہان کا بروایت محمد بن مروان حضرت عبداللہ ابن عباس سے اس طحر منقول ہے۔ صنعا یمن سے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک باغ تھا جس کو صروان کہا جاتا تھا۔ یہ باغ ایک صالح اور نیک بندے نے لگایات ھا اس کا عمل یہ تھا کہ جب کھیتی کاٹتا تو جو درخت دراتنی سے باقی رہ جاتے تھے ان کو فقراء و مساکین کے لئے چھوڑ دیتا تھا یہ لوگ اس سے غلہ حاصل کر کے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اسی طرح جب کھیتی کو گاہ کو غلہ نکالتا تو جو دانہ بھوسے کیساتھ اڑ کر الگ ہوجاتا، اس دانے کو بھی فقراء و مساکین کے لئے چھوڑ دیتا تھا، اسی طرح جب باغ کے درختوں سے پھل توڑتا تو توڑنے کے وقت جو پھل نیچے گر جاتا وہ بھی فقراء کے لئے چھوڑ دیتا تھا (یہی وجہ تھی کہ جب اس کی کھیتی کٹنے یا پھل توڑنے کا وقت آتا تو بہت سے فقراء و مساکین جمع ہوجاتے تھے) اس مرد مصالح کا انتقال ہوگیا اس کے کتنی بیٹے باغ اور زمین کے وارث ہوئے، انہوں نے آپس میں گفتگو کی کہ اب ہمارا عیال بڑھ گیا ہے اور پیداوار ان کی ضرورت سے کم ہے اس لئے اب ان فقراء کے لئے ا تنا غلہ اور پھل چھوڑ دینا ہمارے بس کی بات نہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان لڑکوں نے آزاد نوجوانوں کی طرح یہ کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا اتنی بڑی مقدار غلہ اور پھل کی لوگوں کو لٹا دیتا تھا۔ ہمیں یہ طریقہ بند کرنا چاہئے، آگے ان کا قصہ خود قرآن کریم کے الفاظ میں حسب ذیل ہے۔- اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِيْنَ وَلَا يَسْتَثْنُوْن یعنی انہوں نے آپس میں حلف قسم کر کے یہ عہد کیا کہا اب کی مرتبہ ہم صبح سویرے ہی جا کر کھیتی کاٹ لیں گے تاکہ مساکین و فقراء کو خبر نہ ہو اور وہ ساتھ نہ لگ لیں اور اپنے اس منصوبے پر ان کو اتنا یقین تھا کہ انشاء اللہ کہنے کی بھی توفیق نہ ہوئی جیسا کہ سنت ہے کہ کل جو کام کرنا ہے جب اس کا ذکر کرے تو یوں کہے کہ ہم انشاء اللہ کل یہ کام کریں گے۔
اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ كَـمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ٠ ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِيْنَ ١٧ ۙ- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - صرم - الصَّرْمُ : القطیعة، والصَّرِيمَةُ : إحكام الأمر وإبرامه، والصَّرِيمُ : قطعةٌ مُنْصَرِمَةٌ عن الرّمل .- قال تعالی: فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ [ القلم 20] ، قيل : أصبحت کالأشجار الصَّرِيمَةِ ، أي :- الْمَصْرُومِ حملُهَا، وقیل : کاللّيل، لأنّ اللّيل يقال له : الصَّرِيمُ ، أي : صارت سوداء کاللّيل لاحتراقها، قال : إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، أي : يجتنونها ويتناولونها، فَتَنادَوْا مُصْبِحِينَ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 21- 22] .- والصَّارِمُ : الماضي، وناقةٌ مَصْرُومَةٌ: كأنها قطع ثديها، فلا يخرج لبنها حتّى يقوی. وتَصَرَّمَتِ السَّنَةُ. وانْصَرَمَ الشیءُ : انقطع، وأَصْرَمَ : ساءت حاله .- ( ص ر م ) الصرم : کے معنی ریوڑ کے ہیں اور الصریمۃ کسی کام کے احکام اور ابرام کو کہتے ہیں اور ریت کے علیحدہ ٹکڑے کو الصریم کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ [ القلم 20] تو وہ ایسے ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ باغ ان درختوں کی طرح ہوگیا جن کے پھل کاٹ لئے گئے ہوں یعنی صریم بمعنی مصروم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ صریم رات کو بھی کہتے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ یعنی کھیتی سوختہ ہوکر رات کی طرح سیاہ ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ ڈالیں گے ۔ فَتَنادَوْا مُصْبِحِينَ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 21- 22] جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو۔ الصارم تیز تلوار ناقۃ مصرومۃ : اونٹنی جس کا دودھ خشک ہوگیا ہو ۔ گویا اس کے پستان کاٹ دیئے گئے ہیں ۔ تصرمت السنۃ سال گزر گیا ۔ انصرم الشئی کسی چیز کا منقطع ہوجانا اصرم الرجل : وہ آدمی بدحال ہوگیا ۔- صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔
(١٧۔ ٢٠) اور ہم نے مکہ والوں کی بدر کے دن قتل و قید اور شکست کے ساتھ اور ترک استغفار کے ساتھ اور بدر میں رسول اکرم کی بددعا کی وجہ سے سات سالہ قحط اور بھوک کی شکایت سے آزمائش کر رکھی ہے جیسا ہم نے باغ والوں یعنی بنی ضروان، بھوک کی شکایت اور ان کے باغوں کو آگ لگا کر آزمائش کی تھی۔- جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ اس باغ کا پھل ضرور صبح سویرے چل کر توڑ ڈالیں گے اور انہوں نے انشاء اللہ بھی نہ کہا۔ سو اس باغ پر رات ہی میں عذاب آپڑا سو وہ باغ جل کر ایسا رہ گیا جیسا کہ تاریک رات۔- شان نزول : اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے ابن جریج سے روایت کیا ہے کہ ابو جہل نے بدر کے دن اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ان مسلمانوں کو پکڑ کے رسیوں سے باندھ لو اور ان میں سے کسی کو قتل مت کرو تب یہ آیت نازل ہوئی تو جیسا کہ باغ والے پھل توڑنے پر اپنے آپ کو قادر سمجھ کر باتیں ملا رہے تھے اسی طرح ابوجہل مسلمانوں پر اپنے آپ کو قادر سمجھ کر یہ کہہ رہا تھا۔
آیت ١٧ اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِج ” یقینا ہم نے ان (اہل مکہ) کو اسی طرح آزمایا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا۔ “- اللہ تعالیٰ لوگوں کو طرح طرح کے امتحانات سے آزماتا رہتا ہے۔ ایک انسان کو اگر دولت کی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ‘ تو کسی دوسرے کو غربت کے امتحان سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ سورة الملک کی اس آیت میں تو انسان کی زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ہی آزمائش بتایا گیا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ ۔ ” اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی ۔ “- اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ ۔ ” جبکہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ضرور اس کا پھل اتار لیں گے صبح سویرے۔ “
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :12 اس مقام پر سورہ کہف رکوع 5 بھی پیش نظر رہے جس میں اسی طرح عبرت دلانے کے لیے دو باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے ۔
7: مکہ مکرَّمہ کے بعض مال دار کافروں کو یہ زعم تھا کہ اگر اﷲ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوتا تو ہمیں مال و دولت سے نہ نہ نوازتا، جیسا کہ سورۃ مومنون (۲۳:۵۶) میں اﷲ تعالیٰ نے ان کے اس خیال کا ذِکر فرمایا ہے۔ یہاں اﷲ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ ہم بعض اوقات کسی کو مال و دولت کو اس آزمانے کے لئے دیتے ہیں، اور اگر وہ اس پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری کرے تو اس پر دُنیا ہی میں عذاب آجاتا ہے۔ چنانچہ ان آیات میں اسی طرح کا ایک واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جو اہل عرب میں مشہور تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک نیک شخص کا بہت بڑا باغ تھا۔ اُس نیک آدمی کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے باغ اور کھیت کی پیداوار کا ایک اچھا خاصہ حصہ غریبوں کو دیا کرتا تھا۔ جب اُس کا انتقال ہوا تو اُس کے بیٹوں نے یہ طے کیا کہ ہمارا باپ بے وقوف تھا جو اتنی ساری پیداوار غریبوں کو دے کر اپنی دولت میں کمی کردیتا تھا۔ اب جو ہم باغ کی کٹائی کریں گے تو ایسا اِنتظام کریں گے کہ کوئی غریب آدمی وہاں آنے ہی نہ پائے۔ اس کے نتیجے میں جب وہ کٹائی کے لئے پہنچے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے باغ پر ایک ایسی آفت بھیج دی کہ سارا باغ تباہ ہو کر رہا گیا۔ اکثر روایتوں کے مطابق یہ واقعہ یمن کے شہر صنعا سے کچھ فاصلے پر ضروان نامی ایک علاقے میں پیش آیا تھا۔ یہ علاقہ اب بھی ضروان کہلاتا ہے، اور میں نے دیکھا ہے۔ وہاں چاروں طرف پھیلے ہوئے سبزے کے درمیان ایک کالے کالے پتھروں والا ویران علاقہ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہی اُس باغ کی جگہ تھی جو بعد میں آباد نہیں ہوسکی۔ واللہ اعلم۔