16۔ 1 بعض کے نزدیک اس کا تعلق دنیا سے ہے، مثلًا کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں ان کافروں کے ناکوں کو تلواروں کا نشانہ بنایا گیا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ قیامت والے دن جہنمیوں کی علامت ہوگی کہ ان کے ناکوں کو داغ دیا جائے گا یا اس کا مطلب چہروں کی سیاہی ہے۔ جیسا کہ کافروں کے چہرے اس دن سیاہ ہونگے۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کا یہ حشر دنیا اور آخرت دونوں جگہ ممکن ہے۔
[١٣] ممکن ہے کہ اس کی ناک بڑی اور لمبوتری ہو تاہم عمومی محاورہ یہ ہے کہ جو لوگ صاحب مال اور اولاد ہوں ان کی ناک بھی بڑی ہوتی ہے اور یہ لوگ اپنی ناک کی خاطر کئی ایسے جتن کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ناک کو کوئی آنچ نہ پہنچے۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ ہم اس شخص کی اس بڑی ناک کو پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑیں گے۔
سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ :” الخرطوم “ کا لفظ اصل میں درندوں کی ناک ( تھوتھنی) یا ہاتھی کی سونڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان بد خصلتوں والے انسان کی ناک کو تحقیر و مذمت کے لیے ” خرطوم “ کہا گیا ہے۔ سرکش آدمی چونکہ اپنی ناک اونچی رکھنے ہی کے لیے حق سے انکار کرتا ہے ، اس لیے قیامت کے دن اسی ناک پر داغ لگایا جائے گا جو اس کیذلت کا نشان ہوگا۔” وسم یسم “ ( ض) کا معنی داغ اور نشان لگانا ہے۔
سَنَسِمُہٗ عَلَي الْخُرْطُوْمِ ١٦- وسم - الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ- [ الفتح 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ- [ القلم 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات . وتَوَسَّمْتُ : تعرّفت بِالسِّمَةِ ، ويقال ذلک إذا طلبت الوَسْمِيَّ ، وفلان وَسِيمٌ الوجه : حسنه، وهو ذو وَسَامَةٍ عبارة عن الجمال، وفلانة ذات مِيسَمٍ :إذا کان عليها أثر الجمال، وفلان مَوْسُومٌ بالخیر، وقوم وَسَامٌ ، ومَوْسِمُ الحاجِّ : معلمهم الذي يجتمعون فيه، والجمع : المَوَاسِمُ ، ووَسَّمُوا :- شهدوا المَوْسِمَ کقولهم : عرّفوا، وحصّبوا وعيّدوا : إذا شهدوا عرفة، والمحصّب، وهو الموضع الذي يرمی فيه الحصباء .- وس م ) الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] کثرتسجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعنی ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں اس لئے کہ اس سے زمین پر گھاس کے نشانات ظاہر ہوجاتے ہیں اور تو تمت جس کے معنی علامت سے پہچان لینے کے ہیں ۔ دراصل یہ لفظ وسمی گھاس کے تلاش کرلینے پر بولا جاتا ہے ۔ فلان وسیم الوجہ فلاں خوب رؤ ہے ۔ ھو ذو و سامۃ ۔ وہ صاحب جمال ہے ۔ فلانۃ ذات میسم فلاں عورت صاحب حسن و جمال ہے ۔ فلان موسوم بالخیر اس کے چہرہ سے خیر ٹپکتی ہے ۔ قوم وسام ۔ خوبصورت لوگ ۔ موسم الحاج ۔ حجاج کے جمع ہونے کا زمانہ اس کی جمع موا سم ہے اسمو ا کے معنی موسم حج میں حاضر ہونے کے ہیں ۔ جیسا کہ عر فوا وحصبوا وعیدوا کے معنی عرفہ محصب اور عید گاہ میں جمع ہونے کے ہیں اور جس جگہ حجاج کنکر پھینکتے ہیں اسے محصب کہا جاتا ہے ۔- خرط - قال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ، أي : نلزمه عارا لا ينمحي عنه، کقولهم : جدعت أنفه، والخرطوم : أنف الفیل، فسمّي أنفه خرطوما استقباحا له .- ( خ ر ط ) الخرطوم اس کے اصل معنی ہاتھ کی سونڈ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ، ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ۔ میں انسان کی ناک پر خرطوم کا اطلاق کیا ہے تو یہ محض مذمت کے لئے ہے ۔ یعنی اسے نہ مٹنے والی عار لاحق ہوگی یہ جدعت انفہ کی طرح کا محاورہ ہے
ہم عنقریب اس کی صورت پر یا یہ کہ اس کی ناک پر داغ لگا دیں گے، یا یہ کہ اس کی صورت کو سیاہ کردیں گے۔
آیت ١٦ سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ ۔ ” ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔ “- ممکن ہے اس کی ناک زیادہ لمبی اور نمایاں ہو۔ وہ خود بھی ازراہِ تکبر اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا ‘ جس کے لیے حقارت کے طور پر سونڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔- اب آئندہ آیات میں ایمان بالآخرت کے حوالے سے بہت عمدہ اور عام فہم تمثیل کے طور پر باغ والوں کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :11 چونکہ وہ اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا اس لیے اس کی ناک کو سونڈ کہا گیا ۔ اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے ۔ یعنی ہم دنیا اور آخرت میں اس کو ایسا ذلیل و خوار کریں گے کہ ابد تک یہ عار اس کا پیچھا نہ چھوڑے گا ۔
6: سونڈ سے مراد ناک ہے جسے اہانت کے طور پر سونڈ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کی ناک کو داغ کر اُس پر ایک بدنما نشان لگا دیا جائے گا جس سے اُس کی مزید رُسوائی ہوگی۔