یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔ 33۔ 1 لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔
[١٦] یعنی یہ عذاب تو باغ والوں کو اس دنیا میں ملا۔ اور جو آخرت میں اس طرح کے بخل سے عذاب ہوگا وہ اس سے بہت بڑا ہوگا۔
کٰذَلِکَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ۔۔۔: اہل مکہ کو یاد دلایا جارہا ہے کہ نعمت کی ناشکری پر عذاب اس طرح ہوتا ہے جس طرح باغ والوں پر آیا اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے، کیونکہ دنیا کے عذاب کے بعد تو - توبہ و استغفار کی گنجائش ہے، جیسا کہ اس باغ والوں نے توبہ کرلی اور توبہ کے بعد عذاب سے ہونے والے نقصان کی تلافی کی بھی امید ہے، جیسا کہ باغ ملنے کی امید رکھی، مگر آخرت کے عذاب کے بعد ان میں سے کسی چیز کی گنجائش نہیں۔
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ۔ اہل مکہ کے عذاب قحط کا اجمالی اور باغ والوں کے کھیت جل جانے کا تفصیلی ذکر فرمانے کے بعد عام ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اسی طرح آیا کرتا ہے اور دنیا میں عذاب آجانے سے بھی ان کے آخرت کے عذاب کا کفارہ نہیں ہوتا بلکہ آخرت کا عذاب اس کے علاوہ اور اس سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔- اگلی آیات میں اول نیک متقی بندوں کی جزاء کا ذکر ہے اور اس کے بعد مشرکین مکہ کے ایک اور باطل دعوے کا رد ہے۔ وہ یہ کہ کفار مکہ کرتے تھے کہ اول تو قیامت آنے والی نہیں اور دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب کا قصہ سب افسانہ ہے اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو ہمیں وہاں بھی ایسی ہی نعمتیں اور مال و دولت ملے گا جیسا دنیا میں ملا ہوا ہے، اس کا جواب کئی آیتوں میں میں دیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نیک بندوں اور مجرمین کو برابر کردیں گے یہ کیسا عجیب و غریب فیصلہ ہے جس پر نہ کوئی سند نہ دلیل نہ کسی آسمانی کتاب سے اس کا ثبوت نہ اللہ کی طرف سے کوئی وعدہ وعید کہ وہاں بھی تمہیں نعمت دے گا۔- قیامت کی ایک عقلی دلیل :۔ ان آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ قیامت آنا اور حساب کتاب ہونا اور نیک و بد کی جزا و سزاء یہ سب عقلاً ضروری ہے کیونکہ اس کا تو دنیا میں ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں جو عموماً فساق فجار بدکار ظالم چورا اور ڈاکو ہیں نفع میں رہتے اور مزے اڑاتے ہیں، ایک چور اور ڈاکو ایک رات میں بعض اوقات اتنا کمال یتا ہے کہ شریف نیک آدمی عمر بھر میں بھی نہ کما سکے۔ پھر وہ نہ خوف خدا و آخرت کو جانتا ہے نہ کسی شرم و حیا کا پابند ہے اپنے نفس کی خواہشات کو جس طرح چاہے پورا کرتا ہے اور نیک شریف آدمی اول تو خدا سے ڈرتا ہے وہ بھی نہ ہو تو برادری کی شرم و حیا سے مغلوب ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے کارخانے میں تو بدکار بدمعاش کامیاب اور نیک شریف آدمی ناکام نظر آتا ہے اب اگر آگے بھی کوئی ایسا وقت نہ آئے جس میں حق و ناحق کا صحیح انصاف ہو نیک کو اچھا بدلہ ملے بد کو سزا ملے تو پھر اول تو کسی برائی کو برائی اور گناہ کو گناہ کہنا لغو و بےمعنے ہوجاتا ہے کہ وہ ایک انسان کو بلاوجہ اس کی خواہشات سے روکنا ہے دوسرے پھر عدل و انصاف کے کوئی معنے باقی نہیں رہتے جو لوگ خدا کے وجود کے قائل ہیں وہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ خدا تعالیٰ کا انصاف کہاں گیا۔- رہا یہ شبہ کو دنیا میں بسا اوقات مجرم پکڑا جاتا ہے اس کی رسوائی ہوتی ہے سزا پاتا ہے شریف آدمی کا امتیاز اس سے یہیں واضح ہوجاتا ہے اور عدل و انصاف حکومتوں کے قوانین سے قائم ہوجاتا ہے۔ یہ اسلئے غلط ہے کہ اول تو ہر جگہ اور ہر حال میں حکومت کی نگرانی ہو ہی نہیں سکتی، جہاں ہوجاوے وہاں عدالتی ثبوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت ہر جگہ بہم پہنچنا آسان نہیں جس کے ذریعہ مجرم سزا پا سکے اور جہاں ثبوت بھی بہم پہنچ جائے تو زور و زر اور رشوت و سفارش اور دباؤ کے کتنے چور دروازے ہیں جن سے مجرم نکل بھاگتا ہے اور اس زمانے کی حکومتی اور عدالتی جرم و سزا کا جائزہل یا جائے تو اس وقت تو سزا صرف وہ بیوقوف بےعقل یا بےسہارا آدمی پاتا ہے جو ہوشیاری سے کوئی چور دروازہ نہ نکال سکے اور جس کے پاس نہ رشوت کے لئے پیسے ہوں نہ کوئی بڑا آدمی اس کا مددگار ہو یا پھر وہ اپنی بےوقوفی سے ان چیزوں کو استعمال نہ کرسکے۔ باقی سب مجرم آزاد پھرتے ہیں۔
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ٠ ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَكْبَرُ ٠ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ٣٣ ۧ- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار - والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم .- والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] .- التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
آیت ٣٣ کَذٰلِکَ الْعَذَابُط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ٧ ” اسی طرح آتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب تو یقینا بہت ہی بڑا ہے ۔ “- اس واقعے میں تو دنیا کے عذاب کا ذکر ہے۔ لیکن یاد رکھو دنیا کے عذاب تو نسبتاً چھوٹے اور وقتی ہوتے ہیں اور توبہ کرنے پر ٹل بھی جاتے ہیں۔ مثلاً ایک سال اگر پکی پکائی فصل برباد ہوگئی تو اللہ کی طرف رجوع کرنے سے ہوسکتا ہے اگلے سال اس کی تلافی ہوجائے ‘ لیکن آخرت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آخرت کا عذاب بہت بڑا ہوگا اور اس وقت پلٹنے کا راستہ اور توبہ کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہوگا۔- لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ ” کاش کہ یہ لوگ (اس حقیقت کو) جانتے “