Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 کہ کیا وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گا، جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سلھم ایھم بذلک زعیم : ان سے پوچھیے ان میں سے کون اس کا ذمہ لیتا ہے کہ آخرت میں انھیں وہی ملے گا جو وہ کہیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَلْہُمْ اَيُّہُمْ بِذٰلِكَ زَعِيْمٌ۝ ٤٠ - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- زَعِيمٌ ،- للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول .- زعیم - اور زعیم کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ضامن کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔- وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠٤١) آپ ان سے ذرا چوپھیے تو کہ تمہارے اس دعوے پر تمہارا کون ضامن ہے کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے کچھ معبود ہیں کہ انہوں نے ان سے اس چیز کا وعدہ کر رکھا ہے تو ان کو چاہیے کہ ان ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو پیش کریں اگر یہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :22 اصل میں لفظ زعیم استعمال ہوا ہے ۔ کلام عرب میں زعیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کفیل ، یا ضامن ، یا کسی قوم کی طرف سے بولنے والا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سے کون آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اللہ سے تمہارے لیے ایسا کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani