Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یعنی دنیا کے برعکس ان کا معاملہ ہوگا دنیا میں تکبر وعناد کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوتی تھیں۔ 43۔ 2 یعنی صحت مند اور توانا تھے، اللہ کی عبادت میں کوئی چیز ان کے لئے مانع نہیں تھی۔ لیکن دنیا میں اللہ کی عبادت سے یہ دور رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وقد کانوا یدعون الی السجود وھم سلمون : گویا آخرت میں ان کی پیٹھ کا تختہ بن جانا اور ان کا سجدے کے قابل نہ رہنا اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے دنیا میں صحیح سالم ہوتے ہوئے ایک اللہ کو سجدہ کرنے کی دعوت قبول نہ کی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ۝ ٠ ۭ وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ۝ ٤٣- خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - رهق - رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری.- ( ر ھ ق ) رھقہ - ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔- ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] ،- بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی بھلائی کو نہیں دیکھ سکیں گے اور ان پر ذلت اور پسماندگی چھائی ہوگی یعنی ان کی صورتیں سیاہ ہوں گی۔- اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان لوگوں کو دنیا میں توحید خداوندی کے سامنے جھکنے کے لیے بلایا جایا کرتا تھا مگر ان لوگوں نے توحید خدا ودی کو اختیار نہیں کیا حالانکہ یہ صحیح وسالم تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ ” ان کی نگاہیں زمین پر گڑی رہ جائیں گی “- تَرْہَقُہُمْ ذِلَّـــۃٌط ” ان (کے چہروں) پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ “- وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ ۔ ” اور ان کو (دنیا میں) پکارا جاتا تھا سجدے کے لیے جبکہ یہ صحیح سالم تھے۔ “- دنیا میں وہ لوگ اذان کی آواز پر کبھی توجہ ہی نہیں کرتے تھے اور کوئی مجبوری و معذوری نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے تھے۔ قیامت کے دن میدانِ حشر میں وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن نہیں کرسکیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :25 اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے روز علی الاعلان اس بات کا مظاہرہ کرایا جائے گا کہ دنیا میں کون اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا تھا اور کون اس سے منحرف تھا ۔ اس غرض کے لیے لوگوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اللہ تعالی کے حضور سجدہ بجا لائیں ۔ جو لوگ دنیا میں عبادت گزار تھے وہ سجدہ ریز ہو جائیں گے ۔ اور جن لوگوں نے دنیا میں اللہ کے آگے سر نیاز جھکانے سے انکار کر دیا تھا ان کی کمر تختہ ہو جائے گی ۔ ان کے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہاں عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہرہ کرسکیں ۔ اس لیے وہ ذلت اور پیشمانی کے ساتھ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani