Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی اس میں کوئی قوت اور استحکام نہیں رہے گا جو چیز پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ اس میں استحکام کس طرح رہ سکتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وانشقت السمآء …:” واھیۃ “ ” وھی بھی وھبا “ (ض ، س ، ف) (کمزور ہونا، بودا ہونا) سے اسم فاعل ہے۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ یہ مضبوط آسمان جس میں لاکھوں کروڑوں سال سے ایک شگاف بھی نہیں پڑا، بالکل کمزور ہو کر پھٹ جائے گا اور فرشتے اس کے کناروں پر چلے جائیں گے۔ اس دن آٹھ فرشتے عرش الٰہی کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے، پھر (رض) اور فرشتے صف در صف زمین پر تشریف لائیں گے۔ ادھر ایک طرف جہنم لائی جائے گی (دیکھیے فجر ٢١ تا ٢٣) ، دوسری طرف جنت قریب لائی جائے گی۔ (دیکھیے شعرائ : ٩٠، ٩١) اس وقت سب لوگ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے، کسی شخص کا کوئی عمل چھپا نہیں رہ سکے گا۔- (٢) یہ آیت (رض) عنہماکے عرش کے وجود کی زبردست دلیل ہے۔ جو لوگ عرش الٰہی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف حکومت ہے، قیامت کے دن آٹھ فرشتوں کا عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہونا ان کی تردید کرتا ہے۔ یہ حضرات نہ عرش کے وجود کیق ائل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا مانتے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن زمین پر آنا مانتے ہیں اور نہ اس کا اوپر کی جانب ہونا مانتے ہیں، حالانکہ یہ سب کچھ قرآن مجید میں واضح الفاظ میں موجود ہے۔ ایک بزرگ جنہوں نے ہر جگہ عرش الٰہی کی تاویل حکومت و فرماں روائی سے کی ہے ، اس مقام پر آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کے صریح الفاظ کی کوئی تاویل نہیں کرسکے تو انہوں نے اسے آیات متشا بہات میں سے قرار دے کر تسلیم کیا ہے کہ ” ہم نہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہوگی۔ “ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس طرح وہ اللہ کے عرش کے اوپر ہونے کو بھی مانتے اور اس کے زمین پر آنخ کو بھی مانتے اور اس کی کیفیت اللہ کے سپرد کردیتے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کس طرح ہے اور وہ زمین پر کس طرح اترے گا، کیونکہ قرآن و حدیث کی نصوص اور سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے۔ مزیدی دیکھیے سورة فجر (٢٢) کی تفسیر۔ تفسیر ماجدی میں ہے :” یہ کہنا کہ فرشوتں کا حامل عرش ہونا حق تعالیٰ کی شان قیومیت کے منای ہے، محض اپنی سطحیت کا اظہار کرنا ہے، اگر قیومیت کے یہ معنی لے لئے جائیں تو ایک اس مسئلہ پر کیا موقوف ہے، ملائکہ کو واسطہ بنا کر ان سے کام لیتے رہنے کا سارا نظام ہی باطل ہوجاتا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَھِيَ يَوْمَىِٕذٍ وَّاہِيَۃٌ۝ ١٦ ۙ- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔- وهى- الوَهْيُ : شقّ في الأديم والثّوب ونحوهما، ومنه يقال : وَهَتْ عَزَالَيِ السّحابِ بمائها قال تعالی: وَانْشَقَّتِ السَّماءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ واهِيَةٌ [ الحاقة 16] وكلُّ شيءٍ استرخی رباطه فقد وَهِيَ.- ( و ھ ی ) الوھی کے معنی چمڑے کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں میں شگاف ہوجانا کے ہیں اسی سے محاورہ ہے : ۔ وھت عز الی لسحاب بما ئھا بادل کے دھانے پانی کے زور سے ڈھیلے ہوگئے یعنی خوب بارش ہوئی ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ واهِيَةٌ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائیگا اور اسکی بندش ڈھیلی پڑجائے گی اور وھی الشئی کے معنی بندش کا ڈھیلا پڑجانا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani