3۔ 1 گویا کہ تجھے اس کا علم نہیں، کیونکہ تو نے ابھی اسے دیکھا ہے اور نہ اس کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، گویا مخلوقات کے دائرہ علم سے باہر ہے (فتح القدیر)
[١] انداز کلام کو اس قدر موکد اس لیے بنایا گیا ہے کہ قرآن کے مخاطب قریشی لوگ قیامت کے کٹر منکر تھے۔ اور اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ آپ بھی بس اتنا ہی جان سکتے ہیں۔ کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے۔ یہ نہیں جان سکتے کہ کب آئے گی یا اس وقت کیا کیفیت ہوگی۔ چناچہ اسی سورة میں قیامت کی بعض کیفیات بیان کردی گئی ہیں۔
1: اس حقیقت سے مراد قیامت ہے۔ عربی محاورے کے مطابق یہ انتہائی پر زُور تعبیر ہے جو کسی واقعے کے خوفناک پہلو کو ظاہر کرنے کے لئے نہایت بلیغ پیرائے میں بیان فرمائی گئی ہے، اور اُس کو کسی دُوسری زبان میں اپنی پوری تاثیر کے ساتھ منتقل کرنا ممکن نہیں، لیکن مفہوم واضح کرنے کے لئے قریب قریب لفظی ترجمہ کردیا گیا ہے۔