4۔ 1 اس میں قیامت کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔
[٢] قَارِعۃٌ: قَرَعَ بمعنی ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنا کہ اس سے آواز پیدا ہو۔ اور قرع الباب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ کے معنی کھڑکھڑانے والی، اور ابن الفارس کے نزدیک قارِعَۃٌ ہر وہ چیز ہے جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو۔ نیز قارِعَۃٌ قیامت کا صفاتی نام ہے۔ یعنی اس دن کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر کئی طرح کی آوازیں پیدا کریں گی۔- [٣] یعنی قیامت یا آخرت کا معاملہ اتنا ہی نہیں کہ کوئی مانتا ہے تو مان لے نہیں مانتا تو نہ مانے۔ قیامت آئے گی تو پتہ چل جائے گا کہ آتی ہے یا نہیں آتی۔ بلکہ اس کا فوری اثر اس دنیا میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور ہی ایسا موثر ذریعہ ہے کہ جو انسان کو، افراد کو اوراقوام کو اخلاقی پستیوں میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ان کے اخلاق بگڑ گئے وہ ظلم و جور میں مبتلا ہوگئیں۔ بالآخر اللہ کا عذاب آیا جس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔
کذبت ثمودہ و عاد بالقارعۃ :” القارعۃ “” قرع “ (ف) کھٹکھٹانا، کسی سخت چیز پر دوسری چیز سے ضرب لگانا۔ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح یک لخت آکھٹکھٹائے گی جیسے کوئی آنے والا زور سے دروازہ آکھٹکھٹاتا ہے اور آدمی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ کفار کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والے پہلے لوگ تم ہی نہیں، بلکہ تم سے پہلے عاد وثمود نے، جو قوت و شوکت میں تم سے کہیں بڑھ کر تھے، اس کھٹکھٹانے والی (قیامت) کو جھٹلایا، پھر ان کا انجام کیا ہوا ؟ ثمود جو عرب کے شمال مغرب اور عاد جو عرب کے جنوب مشرق کی متمدن ترین قومیں تھیں، توحید کے انکار کے بعد ان کا سب سے بڑا جرم قیامت اور آخرت کا انکار تھا، جس نے انہیں سرکش بنادیا تھا اور جس کی پاداش میں آخر کار انہیں تباہ و برباد کردیا گیا۔ موجودہ زمانے کی مادہ پرست بزعم خویش مہذب قوموں کی سرکشی کا اصل باعث بھی قیامت اور جزا و سزا کا انکار ہے۔
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌۢ بِالْقَارِعَۃِ ٤- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- قرع - القَرْعُ : ضرب شيء علی شيء، ومنه : قَرَعْتُهُ بِالْمِقْرَعَةِ. قال تعالی: كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة 4] ، الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة 1-2 ]- ( ق ر ع ) القرع - ( ف ) کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز ہر مارنے کے ہیں اسی سے قرعیتہ بالمقر عۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کورے سے سر زنش کرنے کے ہیں اور قیامت کے حادثہ کو قارعۃ کہا گیا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة 4]( وہی ) کھڑ کھڑا نے والی ( جس کو ثمود اور عاد ( دونوں نے جھٹلا یا ۔ الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة 1- 2] کھڑ کھڑانے والی کیا ہے ۔
ثمود اور عاد نے قیام قیامت کو جھٹلایا قیامت کو قارعہ اس لیے کہا گیا کہ یہ ان کے دلوں کو ہلا دے گی۔
آیت ٤ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌم بِالْقَارِعَۃِ ۔ ” جھٹلایا تھا ثمود نے بھی اور عاد نے بھی اس کھڑکھڑا دینے والی کو۔ “- القارعۃ سے مراد بھی قیامت ہے۔ قَـرَعَ کا معنی ہے ایک سخت چیز کو دوسری چیز سے ٹکرانا ‘ کو ٹنا ‘ ریزہ ریزہ کردینا ‘ کھڑکھڑا دینا ‘ یا بہت زور سے کھٹکھٹانا۔ الحاقّۃ اور القارعۃ ان دونوں الفاظ کے مابین ایک نسبت یہ بھی ہے کہ یہ دوسورتوں کے نام ہیں اور ان دونوں سورتوں کے آغاز کا انداز بھی ایک جیسا ہے ۔ چناچہ سورة القارعۃ کا آغاز بھی بالکل اسی طرح ہو رہا ہے : اَلْقَارِعَۃُ - مَا الْقَارِعَۃُ - وَمَـآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ ۔
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :3 کفار مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شدنی ہے ، تم چاہے مانو یا نہ مانو ، وہ بہرحال آکر رہے گی ۔ اس کے بعد اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں ، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر ان کے مستقبل سے ہے ۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخر کار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہو گا ، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی ، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دیا ۔ سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :4 اصل لفظ القارعہ ہے ۔ قرع عربی زبان میں ٹھوکنے ، کوٹنے کھڑکھڑا دینے ، اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے لیے یہ دوسرا لفظ اس کی ہولناکی کا تصور دلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔