5۔ 1 اس میں قیام کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔
[٤] قوم ثمود پر کس قسم کا عذاب آیا تھا ؟ ثمود کو کون سے عذاب سے ہلاک کیا گیا تھا ؟ اس کے لیے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ آئے ہیں۔ سورة اعراف آیت ٨٧ میں اس کو الرَّجْفَۃُ (زبردست زلزلہ) کہا گیا ہے۔ سورة ہود کی آیت نمبر ٦٧ میں الصَّیْحَۃُ (زبردست دھماکہ یا ہیبت ناک چیخ) کا لفظ آیا ہے اور سورة حم السجدہ کی آیت نمبر ١٧ میں (صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ ) (یعنی گرنے والی بجلی کا عذاب) کا لفظ آیا ہے اور یہاں الطَّاغِیَۃَ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے عذاب میں سخت سرکشی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیتوں کا بیان ہے۔ اور وہ عذاب یہ تھا کہ ارضی اور سماوی دونوں قسم کے عذاب قوم ثمود پر یک دم آتے تھے۔
فاما ثمود فاھلکوا بالظاغیۃ :” الطاغیۃ “” طغی یطغی “ (ف) سے اسم فاعل ہے، یہ ” عافیۃ “ کی طرح مصدر بھی ہوسکتا ہے۔ اسم فاعل ہو تو ” الطاغیۃ “ کا معنی ” حد سے بڑھنے والی “ ہے اور یہ ” الرجفتہ “ یا ” الصیحۃ “ یا ” الصعقۃ “ کی صفت ہوگی، یعنی ثمود اس زلزلے سے یا آواز سے یا بجلی کی کڑک سے ہلاک ک دیئے گئے جو آوازوں کی حد سے بہت بڑھی ہوئی تھی۔ یہ فرشتے کی آواز تھی یا بجلی کی کڑک تھی جس کے ساتھ زلزلہ بھی تھا، یا زلزلے کے ساتھ آنے والی خوفناک آواز تھی۔” الرجفتہ “ کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٧٨) ، ” الصیحۃ “ کے لئے دیکھیے سورة ہود (٦٧) اور ” الصعقۃ “ کے لئے دیکھیے حم سجدہ (١٧) ۔- مصدر ہو تو معنی ” حد سے بڑھنا “ ہے،” بائ “ سیبہ ہوگی :” ای یطغیانھم “ یعنی ثمود اپنے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، جیسے فرمایا :(کذبت ثمود بطغوھآ) (الشمس : ١١)” قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے (صالح (علیہ السلام) کو) جھٹلا دیا۔ “
فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِكُوْا بِالطَّاغِيَۃِ ٥- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(٥۔ ٦) قوم ثمود کو تو ان کی سرکشی اور شرک کی وجہ سے ہلاک کیا گیا یا یہ کہ ان کی سرکشی نے ان کو جھٹلانے پر آمادہ کیا تاآنکہ وہ ہلاک ہوگئے اور عاد جو تھے سو وہ ایک تیز تند ٹھنڈی ہوا سے ہلاک کیے گئے۔
آیت ٥ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ ۔ ” پس ثمود تو ہلاک کردیے گئے ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے۔ “- الطاغیۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں ۔ یعنی انتہائی شدت والی چیز ۔ اس کے لیے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر الرَّجفۃ (زبردست زلزلہ) ‘ الصَّیحۃ (زور کا دھماکہ یا کڑک) ‘ صَاعِقَۃ (گرج) الفاظ مذکور ہیں ‘ جو عذاب کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :5 سورہ اعراف ، آیت 78 میں اس کو الرجفہ ( زبردست زلزلہ ) کہا گیا ہے ۔ سورہ ہود ، آیت 67 میں اس کے لیے الصیحہ ( زور کے دھماکے ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ سورہ حمٰ السجدہ ، آیت 17 میں فرمایا گیا ہے کہ ان کو صاعقۃ العذاب ( عذاب کے کڑکے ) نے آ لیا ۔ اور یہاں اسی عذاب کو الطاغیہ ( حد سے زیادہ سخت حادثہ ) سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیات کا بیان ہے ۔
2: سورۂ اعراف (۷:۷۳) میں قوم ثمود کا تعارف گزرچکا ہے۔ انہیں حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانے کی وجہ سے ایک زبردست چنگھاڑ کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا جس سے اُن کے کلیجے پھٹ گئے تھے۔