Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول تھے، جن کو اللہ نے سزا نہیں دی، بلکہ دلائل و معجزات اور اپنی خاص تائید و نصرت سے انہیں نوازا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] قادیانیوں کا مرزا قادیانی کی نبوت پر استدلال اور اس کا جواب :۔ ذرا سوچو اگر کسی بادشاہ کا کوئی سفیر یا نائب بادشاہ کا پیغام پہنچانے کی بجائے اپنی طرف سے ہی پیغام دینا شروع کردے اور یہ کہے کہ یہ بادشاہ کی طرف سے پیغام ہے تو بادشاہ اپنے ایسے غدار سفیر یا نائب سے کیا سلوک کرے گا۔ اسے جلاد کے حوالے کرنے کی بجائے یہ چاہے گا کہ خود اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دے۔ پھر کیا اگر اللہ کا یہ رسول اپنی طرف سے باتیں بناکر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردے تو کیا اللہ اسے معاف کر دے گا ؟ وہ تو اللہ کی نظروں میں سب سے بڑا مجرم ہوگا۔ جس نے اللہ کے کلام میں اپنا کلام شامل کرکے اس سارے کلام کو ہی مشکوک اور بےاعتبار بنادیا۔- واضح رہے ان آیات سے نبوت کے جھوٹے مدعیوں نے دلیل پکڑی ہے کہ ہم سچے نبی ہیں اگر ہم جھوٹے ہوتے تو ہمیں فوراً ہلاک کردیا جاتا۔ یہ استدلال انتہائی غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ وعید تو اس نبی کے لیے ہے جس کا نبی ہونا پہلے دلائل وبراہین سے ثابت ہوچکا ہے۔ یہ وعید اس کے لیے نہیں جس کا نبی ہونا ہی ثابت نہ ہو۔ مثلاً حکومت کا ایک اعلیٰ افسر حکومت کے احکام کی بجائے اپنے احکام چلانے لگے تو حکومت اسے سخت سزا دے گی۔ لیکن اگر کوئی موچی یا سڑک کوٹنے والا یا بھنگی لوگوں سے یہ کہنا شروع کردے کہ میرے واسطہ سے تم کو گورنمنٹ کے یہ احکام دیئے جاتے ہیں۔ ایسے شخص کی باتوں پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا۔ نہ ہی حکومت ایسے لوگوں کی بکواس کو درخور اعتنا سمجھتی ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے انہیں سزا دیا کرے۔ لوگوں نے تو نبوت کے بجائے خدائی کے بھی دعوے کئے۔ کئی لوگوں نے ان کی خدائی کو تسلیم بھی کیا۔ پھر بھی اللہ نے ایسے خداؤں کو فوراً کوئی سزا نہیں دی۔ اس لئے کہ یہ سراسر باطل ہے اور لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بھی۔ کئی بہروپئے اپنے آپ کو اعلیٰ افسر ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ ان سے دھوکا بھی کھا جاتے ہیں۔ مگر حکومت ایسے جعلی بہروپیوں کو کوئی سزا نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں ان آیات میں آپ کی نبوت پر استدلال ہے ہی نہیں بلکہ استدلال اس بات پر ہے کہ یہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے۔ جس میں نبی کے کلام کی آمیزش بھی قطعاً ناقابل برداشت ہے۔ خواہ وہ کلام اللہ کی تفسیر ہی کیوں نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۝ ٤٧- حجز - الحَجْزُ : المنع بين الشيئين بفاصل بينهما، يقال : حَجَزَ بينهما . قال عزّ وجل : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل 61] ، والحِجَاز سمّي بذلک لکونه حاجزا بين الشام والبادية، قال تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] ، فقوله : حاجِزِينَ صفة لأحد في موضع الجمع، والحِجَاز حبل يشدّ من حقو البعیر إلى رسغه، وتصوّر منه معنی الجمع، فقیل : احتجز فلان عن کذا واحتجز بإزاره، ومنه : حُجْزَة السراویل، وقیل : إن أردتم المحاجزة فقبل المناجزة «1» ، أي : الممانعة قبل المحاربة، وقیل : حَجَازيك، أي : احجز بينهم .- ( ح ج ز ) الحجز ( ن ض ) کے معنی دو چیزوں کے درمیان روک اور حد فاصل بنانے کے ہیں کہا جاتا ہے حجز بینھما دان کے درمیان حد ۔ فاصل قائم کردی جیسے فرمایا : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل 61] اور ( کس نے ) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنادی ۔ اور ھجاز کو بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شام اور بادیہ کے درمیان حائل ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] پھر تم میں سے کوئی ( ہمیں ) اس سے روکنے والا نہیں ہے ۔ میں حاجزین احد کی صفت ہے کیونکہ احد کا لفظ معنی جمع ہے ۔ نیز حجانہ اس رسی کو کہتے ہیں جو اونٹ کی کلائی میں ڈال کر اسے اس کی کمر کے ساتھ باند دیتے ہیں ( تاکہ ہل نہ سکے ) پھر حجز میں معنی منع کے پیش نظر احتجز فلان عن کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے رک جانیکے ہیں اھتجز بازارہٰ تہبند باندھنا ۔ اسی سے حجزۃ السرا ویل ہے جس کے معنی انار بند کے نیضہ کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ ان ارد تم المحاجزۃ فقبل المناجزۃ یعنی ایک دوسرے کو روکنے اور صلح کا موقعہ لڑائی سے قبل ہوتا ہے ۔ حجازیک یعنی ان کے درمیان حائل ہوجائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :25 اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ نبی کو اپنی طرف سے وحی میں کوئی کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں ہے ، اور اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس کو سخت سزا دیں ۔ مگر اس بات کو ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے جس سے آنکھوں کے سامنے یہ تصویر کھنچ جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کا مقرر کردہ افسر اس کے نام سے کوئی جعلسازی کرے تو بادشاہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کا سر قلم کر دے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ غلط استدلال کیا ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے ، اس کی رگ دل یا رگ گردن اگر اللہ تعالی کی طرف سے فوراً نہ کاٹ ڈالی جائے تو یہ اس کے نبی ہونے کا ثبوت ہے ۔ حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے ، نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے بارے میں نہیں ہے ۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوے کرتے ہیں اور زمین پر مدتوں دندناتے پھرتے ہیں ۔ یہ ان کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن ، جلد دوم ، تفسیر سورہ یونس حاشیہ 23 میں کر چکے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: فرمایا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوّت کا جھوٹا دعوی کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرے تو اﷲ تعالیٰ اُسی دُنیا میں اُسے رسوا بھی فرماتے ہیں، اور اُس کو عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اگر (خدانخواستہ) حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا نبوّت کا دعویٰ دُرست نہ ہوتا اور آپ (معاذاللہ) جھوٹی باتیں بناکر اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تو اﷲ تعالیٰ اِسی دُنیا میں آپ کے ساتھ وہ معاملہ فرماتے جس کا ذِکر ان آیتوں میں کیا گیا ہے۔