[٢٦] یعنی جو لوگ غلط روی اور اس کے برے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں وہ تو یقیناً اس قرآن سے نصیحت حاصل کریں گے۔ اور جن لوگوں کو اپنی اصلاح کی فکر ہی نہیں یا وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ قرآن کو نہ اللہ کا کلام سمجھتے ہیں اور نہ اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب وہ اپنے رویہ پر سخت نادم ہوں گے اور ان کا قرآن کو جھٹلانا ان کے لئے سخت حسرت و پشیمانی کا موجب ہوگا۔ لیکن اس وقت پچھتانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
(وانا لنعلم…:” انا لنعلم “ (ہم جانتے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان جھٹلانے والوں کو سزا دیں گے، جیسے فسادیوں کو ڈاٹنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو سب ہمیں معلوم ہے۔
وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِيْنَ ٤٩- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(٤٩۔ ٥٠) اور ہمیں معلوم ہے کہ تم میں بعض قرآن حکیم کو جھٹلانے والے ہیں اور بعض تصدیق کرنے والے اور یہ قرآن کافروں کے حق میں قیامت کے دن موجب حسرت ہے۔
آیت ٤٩ وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْکُمْ مُّکَذِّبِیْنَ ۔ ” اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ جھٹلانے والے بھی ہیں۔ “- وہ ہمارے کلام کو جھٹلانے پر کمربستہ ہوچکے ہیں کہ جو چاہے ہو وہ اسے اللہ کا کلام نہیں مانیں گے۔