15۔ 1 اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کے مطابق اسے مہلت عطا فرما دی جو اس کی حکمت، ارادے اور مشیت کے مطابق تھی جس کا پورا علم اسی کو ہے۔ تاہم ایک حکمت یہ نظر آتی ہے کہ اس طرح اپنے بندوں کی آزمائش کرسکے گا کہ کون رحمان کا بندہ بنتا ہے اور کون شیطان کا پجاری۔
[١٣] ابلیس کے عزائم :۔ شیطان چونکہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی ہوا تھا اس لیے وہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کا دشمن بن گیا اس نے اپنے کسی قصور کا احساس نہ کیا اور ان گناہوں کی سزا کا اصل سبب سیدنا آدم (علیہ السلام) کو قرار دیا اور قیامت تک اللہ سے مہلت بھی مانگی اور آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو بہکانے اور ورغلانے کا اختیار بھی مانگا تو اللہ نے اسے یہ اختیار دے دیا۔ اس عرصے میں سیدنا آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو بہکا کر اور گمراہ کر کے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ آدمی فی الواقع خلافت ارضی کا اہل نہیں ہے اور میں نے جو اسے سجدہ نہیں کیا تو اس معاملہ میں میں ہی راہ راست پر تھا۔
قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ : شیطان نے مہلت تو قیامت تک کی مانگی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے علم میں طے شدہ وقت تک مہلت دی۔ دیکھیے سورة حجر ( ٣٨) اور سورة ص (٨١) قیامت تک مہلت کی کہیں تصریح نہیں ہے۔ شیطان کو مہلت دینے سے مقصود بندوں کا امتحان ہے کہ وہ رحمٰن کی راہ پر چلتے ہیں یا شیطان کی۔
4: شیطان نے درخواست تو یہ کی تھی کہ اس وقت تک اسے زندگی دی جائے جس دن حشر ہوگا، اور دوسرے مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ یہاں اس درخواست کے جواب میں مہلت دینے کا ذکر ہے، لیکن یہ مہلت کب تک دی گئی ہے، اس آیت میں یہ بات واضح طور پر بیان نہیں فرمائی گئی، سورۂ حجر (۳۸:۱۵) اور سورۂ ص (۳۸:۸۱) میں بھی یہ واقعہ آیا ہے، وہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ایک معین وقت‘‘ تک مہلت دی گئی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اس کی درخواست کے مطابق روز حشر تک مہلت دینے کا وعدہ نہیں کیا گیا، بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک معین وقت ہے جو اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے اس وقت تک مہلت دی گئی ہے، دوسرے دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان قیامت کا پہلا صور پھونکے جانے تک زندہ رہے گا، اور اس کے بعد جس طرح دوسری مخلوقات کو موت آئے گی، اسے بھی موت آئے گی۔ پھر جب سب کو زندہ کیا جائے گا تو اسے بھی زندہ کیا جائے گا۔