باہم قتل کی سزا ان گو سالہ پر ستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کر لیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورۃ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہو چکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہی تمہارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم والا ہے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی ۔ ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے ۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آپڑتا ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے ۔ قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر بدعتی ذلیل ہے ۔ پھر فرماتے ہے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے گو کفر و شرک اور نفاق و شفاق ہی کیوں نہ ہو ۔ فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لائیں تو اے رسول رحمت اور اے نبی نور ( یعنی قرآن ) تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکاری کرے پھر اس سے نکاح کر لے تو؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی کوئی دس دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا ۔
152۔ 1 اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لئے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت اور رسوائی کے مستحق قرار پائے۔ 152۔ 2 اور یہ سزا ان ہی کے لئے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا (بہتان) کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔
[١٤٩] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ اللہ کا غضب وہی تھا جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیت ٥٤ میں گزر چکا ہے کہ ایسے بچھڑا پرست مشرکوں کو قتل کر کے باقی معاشرہ کو شرک سے پاک کردیا جائے۔ گؤ سالہ پرستی کے معاملہ میں بنی اسرائیل کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی دوسرے وہ تھے جنہوں نے خود پرستش تو نہ کی مگر کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے پرستش بھی نہ کی اور پرستش کرنے والوں کو منع بھی کرتے رہے۔ جب ان لوگوں کو اپنے اس جرم عظیم کا احساس ہوا اور اللہ سے توبہ کی درخواست کی تو اللہ نے توبہ کی قبولیت کی شرط یہ قرار دی کہ تمام گؤ سالہ پرست مشرکوں کو قتل کردیا جائے اور انہیں قتل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو خود اس شرک سے بچتے بھی رہے اور مشرکوں کو اس شرک سے منع بھی کرتے رہے۔
سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب یہ ہوا کہ جب تک ان میں سے بعض نے بعض کو قتل نہیں کیا ان کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ (دیکھیے بقرہ : ٥٤) بنی اسرائیل میں جس طرح قتل عمد کی حد قتل تھی اسی طرح شرک کی حد بھی قتل ہی تھی اور یہ اس ” اِصْرٌ“ یعنی بوجھ میں شامل تھی جو پہلی امتوں پر ڈالے گئے۔ ہماری امت میں یہ تخفیف ہوئی کہ شرک کی حد اب قتل نہیں بلکہ صدق دل سے توبہ ہی سے معافی ہوجاتی ہے۔ البتہ اگر شرک پر اصرار کرے تو وہ مرتد ہے اور اسے قتل کیا جائے گا۔ - وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْن : ابو قلابہ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا : ” قیامت تک ہر مفتری کی یہی سزا ہے (خواہ دین میں شرکیہ کام ایجاد کرے یا کوئی اور) ۔ “ کیونکہ کوئی بھی نئی چیز دین میں داخل کرنے والا مفتری ہے اور بدعت بدترین جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے لگایا جاتا ہے۔ امام مالک اور سفیان بن عیینہ ; نے کہا ہے کہ ” مفترین “ کے معنی ” مبتدعین “ یعنی اہل بدعت کے ہیں اور ہر بدعتی قیامت تک ذلیل و خوار ہوتا رہے گا۔ (قرطبی، بغوی)
خلاصہ تفسیر - (پھر حق تعالیٰ نے ان گوسالہ پرستوں کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ) جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی ہے ( اگر اب بھی توبہ نہ کریں گے تو) ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ( کچھ ان ہی کی تخصیص نہیں) (تو) افتراء پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں کہ ( دنیا ہی میں مغضوب اور ذلیل ہوجاتے ہیں گو کسی عارض سے اس ذلت کا گاہے ظہور نہ ہو یا دیر میں ہو، چناچہ سامری نے جو توبہ نہ کی اس پر غضب اور ذلت کا نزول ہوا جس کا قصہ سورة طہ میں ہے، قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ (الایة) اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے ( مثلا گوسالہ پرستی ان سے سرزد ہوگئی مگر) پھر وہ ان ( گناہوں) کے ( کرنے کے) بعد توبہ کریں اور ( اس کفر کو چھوڑ کر) ایمان لے آئیں، تمہارا رب اس توبہ کے بعد ( ان کے) گناہ کا معاف کردینے والا ( اور ان کے حال پر) رحمت کرنے والا ہے ( گو تکمیل توبہ کے لئے اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ کا بھی حکم ہوا ہو کیونکہ اصل رحمت آخرت کی ہے۔ چناچہ تائبین کی خطا اسی طرح معاف ہوئی) اور جب ( ہارون (علیہ السلام) کی یہ معذرت سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان ( تختیوں) کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدیت اور رحمت تھی ( مراد احکام ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے موصوف بہدایت اور موعود برحمت ہوتا ہے) اور ( جب گوسالہ کا قصہ تمام ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اطمینان سے تورات کے احکام سنائے، ان لوگوں کی عادت تھی ہی شبہات نکالنے کی، چناچہ اس میں بھی شبہ نکالا کہ ہم کو کیسے معلوم ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں، ہم سے اللہ تعالیٰ خود کہہ دیں تو یقین کیا جائے، آپ نے حق تعالیٰ سے عرض کیا، وہاں سے حکم ہوا کہ ان میں کے کچھ آدمی جن کو یہ لوگ معتبر سمجھتے ہوں منتخب کر کے ان کو کوہ طور پر لے آؤ ہم خود ان سے کہہ دیں گے کہ یہ ہمارے احکام ہیں اور اس لانے کے لئے ایک وقت معین کیا گیا چنا نچہ) موسیٰ ( علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین ( پر لانے) کے لئے منتخب کئے ( چناچہ وہاں پہنچ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو اس میں ایک شاخ نکالی اور کہنے لگے کہ خدا جانے کون بول رہا ہوگا ہم تو جب یقین لائیں کہ اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھ سے دیکھ لیں، لقولہ تعالیٰ لَنْ نُّؤ ْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ، اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی کی سزا دی نیچے سے زلزلہ شدید شروع ہوا اوپر سے ایسی کڑک بجلی ہوئی کہ سب وہاں ہی رہ گئے) سو جب ان کو زلزلہ ( وغیرہ) نے آپکڑا تو موسیٰ ( علیہ السلام) ڈرے کہ بنی اسرائیل جاہل اور بدگمان تو ہیں ہی یوں سمجھیں گے کہ کہیں لے جاکر کسی طریق سے ان سب کا کام تمام کردیا ہے گھبرا کر) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار ( یہ مجھ کو یقین ہے کہ ان لوگوں کو محض سنرا دینا منظور ہے خاص ہلاک کرنا مقصود نہیں کیونکہ) اگر آپ کو یہ منظور ہوتا تو آپ اس کے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کردیتے ( کیونکہ ان کا اس وقت ہلاک ہونا بنی اسرائیل کے ہاتھوں میرا ہلاک ہونا ہے سو اگر آپ کو یہ مقصود ہوتا تو آپ پہلے بھی ایسا کرسکتے تھے مگر جب ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوگیا کہ ان کو بھی ہلاک کرنا مقصود نہیں کیونکہ اس سے میری ہلاکت بھی ہے اور بدنامی کے ساتھ، آپ سے امید ہے کہ مجھ کو بدنام نہ کریں گے اور بھلا) کہیں آپ ہم میں کے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردیں گے ( کہ بےوقوفی تو کریں یہ لوگ کہ ایسی گستاخی کریں اور ساتھ میں بنی اسرائیل کے ہاتھ سے ہلاک ہوں میں بھی، آپ سے امید ہے کہ آپ ایسا نہ کریں گے پس ثابت ہوا کہ) یہ واقعہ ( رجفہ اور صاعقہ کا) محض آپ کی طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو آپ چاہیں گمراہی میں ڈال دیں ( کہ حق تعالیٰ کی شکایت اور ناشکری کرنے لگے) اور جس کو آپ چاہیں ہدایت پر قائم رکھیں ( کہ اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھتا ہے سو میں آپ کے فضل و کرم سے آپ کے حکیم ہونے کا علم رکھتا ہوں لہذا اس امتحان میں مطمئن ہوں اور) آپ ہی تو ہمارے خبر گیراں ہیں ہم پر مغفرت اور رحمت فرمایئے اور آپ سب معافی دینے والوں سے زیادہ ہیں ( سو ان کی گستاخی بھی معاف کردیجئے چناچہ وہ لوگ صحیح سالم اٹھ کھڑے ہوئے سورة بقرہ میں تفصیل ملاحظہ ہو) اور ( اس دعا کے ساتھ آپ نے تفصیل رحمت کے لئے یہ بھی دعا کی کہ) ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دیجئے اور ( اسی طرح) آ خرت میں بھی ( کیونکہ) ہم آپ کی طرف ( خلوص و اطاعت کے ساتھ) رجوع کرتے ہیں ( اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور) فرمایا کہ ( اے موسیٰ اول تو مطلقا میری رحمت میرے غضب پر سابق ہے چنانچہ) میں اپنا عذاب ( اور غضب) تو اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں ( گو مستحق عذاب ہر نافرمان ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب پر واقع نہیں کرتا بلکہ ان میں سے خاص خاص لوگوں پر واقع کرتا ہوں جو غایت درجہ سرکش اور متمرد ہوتے ہیں) اور میری رحمت ( ایسی عام ہے کہ) تمام اشیاء کو محیط ہو رہی ہے ( باوجودیکہ ان میں بہت سی مخلوق مثلا سرکش ومعاند لوگ اس کے مستحق نہیں مگر ان پر بھی ایک گونہ رحمت ہے گو دنیا ہی میں ہی سہی، پس جب مری رحمت غیر مستحقین کے لئے بھی عام ہے) تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام تو ( کامل طور پر) ضرور ہی لکھوں گا جو کہ ( اس کے حسب وعدہ مستحق بھی ہیں بوجہ اس کی کہ وہ اطاعت کرتے ہیں چنانچہ) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ( جو منجملہ اعمال قلب سے ہے) اور زکوة دیتے ہیں ( جو کہ اعمال جوارح سے ہے) اور جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ( جو کہ عقائد میں سے ہے، تو ایسے لوگ تو پہلے سے مستحق رحمت ہیں گو آپ درخواست بھی نہ کرتے اور اب تو آپ درخواست بھی کرتے ہیں ارحمنا واکتب لنا، پس ہم بشارت قبول دیتے ہیں کیونکہ آپ تو ایسے ہیں ہی اور آپ کی قوم میں بھی جو مورد رحمت بننا چاہے وہ ایسے ہی اوصاف اختیار کرے کہ مستحق ہوجائے )- معارف ومسائل - یہ سورة اعراف کا انیسواں رکوع ہے، اس کی پہلی آیت میں گوسالہ پرستی کرنے والے اور اس پر قائم رہنے والے بنی اسرائیل کے انجام بد کا ذکر ہے کہ آخرت میں ان کو رب العالمین کے غضب سے سابقہ پڑے گا جس کے بعد کہیں پناہ کی جگہ نہیں اور دنیا میں اس کو ذلت و خواری نصیب ہوگی۔- بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی ملتی ہے :- جیسے سامری اس کے ساتھیوں کا حال ہے کہ انہوں نے گوسالہ پرستی سے صحیح توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں ہی خوار و ذلیل کردیا کہ اس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حکم دے دیا کہ وہ سب لوگوں سے الگ رہے نہ وہ کسی کو ہاتھ لگائے نہ کوئی اس کو ہاتھ لگائے، چناچہ وہ عمر بھر اسی طرح جانوروں کے ساتھ پھرتا رہا کوئی انسان اس کے پاس نہ آتا تھا۔- تفسیر قرطبی میں بروایت قتادہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ عذاب مسلط کردیا تھا کہ جب کوئی اس کو ہاتھ لگائے یا وہ کسی کو ہاتھ لگائے تو فورا دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا (قر طبی)- اور تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ خاصیت اس کی نسل میں بھی آج تک باقی ہے، اور آخر آیت میں ارشاد فرمایا وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ یعنی جو لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہیں ان کو ایسی ہی سزا دی جاتی ہے، سفیان بن عینیہ نے فرمایا کہ جو لوگ دین میں بدعت اختیار کرتے ہیں وہ بھی اس افتراء علی اللہ کے مجرم ہو کر اس سزا کے مستحق ہوتے ہیں (مظہری)- امام مالک نے اسی آیت سے استدلال کرکے فرمایا کہ دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے والوں کی یہی سزا ہے کہ آخرت میں غضب الہی کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں ذلت کے (قرطبی)
اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِـجْلَ سَيَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَذِلَّۃٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ ١٥٢- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- عِجْلُ ( بچهڑا)- : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ.- العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔- نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] - بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(١٥٢) جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی اور جن لوگوں نے اس میں ان کی پیروی کی، ان پر بہت جلد غضب اور جزیہ کی ذلت مسلط ہوگئی، جھوٹے کردار کے لوگوں کو ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔
آیت ١٥٢ (اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَذِلَّۃٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط) ۔ - غضب سے آخرت کا غضب بھی مراد ہے اور قتل مرتد کی وہ سزا بھی جس کا ذکر ہم سورة البقرۃ کی آیت ٥٤ میں پڑھ آئے ہیں۔