2۔ 1 یعنی اس کے بھیجنے سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب (جھٹلائیں) نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ سب کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے۔ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریف ہے اور اصل مخاطب امت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔
[ ٢] یہاں کتاب سے مراد یہی سورة اعراف ہے اور قرآن میں جب کبھی سورة کے ابتداء میں کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کا معنی وہ سورت ہی ہوتا ہے گویا قرآن کریم کی ہر سورة ایک مستقل کتاب ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہے اور قرآن ایسی ہی ایک سو چودہ کتابوں (یا سورتوں) کا مجموعہ ہے جیسا کہ سورة البینہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ( رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ۙ ) 98 ۔ البینة :2) پھر لفظ کتاب کا اطلاق پورے قرآن پر بھی ہوتا ہے۔- [ ٣] جب کبھی کوئی سورة نازل ہوتی اور آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے ردّعمل یہ ہوتا کہ کبھی صاف انکار کردیتے کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات شروع کردیتے، کبھی کسی حسی معجزہ کا مطالبہ شروع کردیتے۔ غرض یہ کہ ان کی طرف سے حوصلہ شکنی اور دل شکنی کی تمام صورتیں واقع ہوجاتیں مگر حوصلہ افزائی کی کوئی صورت نہ ہوتی اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ کی طبیعت میں سخت انقباض اور گھٹن پیدا ہوجاتی اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں آپ قرآن لوگوں تک صرف پہنچا دیں اور انہیں ڈرائیں کفار سے جو ردعمل ہو رہا ہے یا وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کے لیے آپ پریشان نہ ہوں اللہ خود ان سے نمٹ لے گا البتہ اس قرآن کے سنانے کا ایک فائدہ تو یقینی ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنا دے گی۔- اور یاد دہانی سے مراد عہد (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) کی یاددہانی ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور کسی بھی خارجی داعیے سے اس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن اسی دبے ہوئے شعور کو بیدار کرتا اور اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ ۔۔ : کتاب نازل کی گئی، کس نے نازل کی، یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ کتاب کس نے نازل کی ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ آپ جھٹلانے والوں کو ڈرائیں اور خبردار کریں، تاکہ وہ ایمان لے آئیں اور ایمان والوں کو نصیحت کریں، تاکہ ان کے ایمان اور ہدایت میں اضافہ ہو، اس لیے آپ اسے پہنچانے میں دل میں کوئی تنگی یا خوف نہ آنے دیں کہ لوگ آپ کی مخالفت کریں گے، کیونکہ اگر کچھ جھٹلانے والے ہوں گے تو ایمان لانے والے بھی ہوں گے اور آپ پر یہ کتاب اتارنے والا آپ کا حامی و ناصر ہوگا، اس لیے کسی تنگ دہی یا خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کا کام صرف پہنچانا ہے، ہدایت دینا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
معارف و مسائل - پوری سورة پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے مضامین زیادہ تر معاد، یعنی آخرت اور نبوت و رسالت کے متعلق ہیں، چناچہ ابتداء سورة سے چھٹے رکوع تک تقریباً مضمون معاد و آخرت کا بیان ہوا ہے، پھر آٹھویں رکوع سے اکیسویں رکوع تک انبیاء سابقین کے حالات اور ان کی امتوں کے واقعات ان کی جزاء و سزا اور ان پر آنے والے عذابوں کا مفصل تذکرہ ہے۔- (آیت) فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرما کر یہ ارشاد کیا گیا ہے کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجی گئی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی وجہ سے دل تنگی نہ ہونی چاہئے، دل تنگی سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اور اس کے احکام کی تبلیغ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی کا خوف مانع نہ ہونا چاہئے کہ لوگ اس کو جھٹلا دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء دیں گے، (کذاروی عن ابی العالیة، مظہری) - اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امداد و حفاظت کا بھی انتظام کردیا ہے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں دل تنگ ہوں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ دل تنگی سے مراد یہ ہے کہ قرآن اور احکام اسلام سن کر بھی جو لوگ مسلمان نہ ہوتے تھے تو یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بوجہ شفقت کے شاق ہوتا تھا، اسی کو دل تنگی سے تعبیر کیا گیا، اور یہ بتلایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرض منصبی صرف تبلیغ و دعوت کا ہے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کام کرلیا تو اب یہ ذمہ داری آپ کی نہیں کہ کون مسلمان ہوا کون نہیں ہوا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں بلا وجہ دل تنگ ہوں۔
سورة اعراف - قول باری ہے فلایکن فی صدرک حرج منہ۔ پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو) فقرے کا انداز بیان نہی کی صورت میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ مخاطب کو حرج یعنی تنگی سے تعرض کرنے سے روکا گیا ہے جن سے مروی ہے کہ حرج کے معنی تنگی کے ہیں۔ یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ پورے فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا دل اس خوف سے تگ نہ ہو کہ کہیں تم اس کا حق ادا کرنے سے قاصر نہ رہ جائو۔ بات یہ نہیں ہے بلکہ تمہارے ذمہ تو صرف اس کے ذریعے لوگوں کو خدا کے عذاب اور اس کی نافرمانی کے نتائج سے ڈراتے رہنا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجا، سدی اور قتادہ کا قول ہے کہ حرج سے یہاں شک مراد ہے۔ یعنی تمہیں اس بات میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس کتاب کے ذریعے لوگوں کو ڈرانا تم پر لازم ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں ” کفار اور مشرکین تمہاری تکذیب کرتے ہیں ان کی تکذیب کی وجہ سے تمہارا دل تنگ نہ ہونا چاہیے “۔ جس طرح یہ قول باری ہے فلعلک باخع نفسک علیٰ اثارھم لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاً ۔ اگر یہ لوگ اس کتاب پر ایمان نہ لائے تو کیا تم اس پر افسوس کے مارے ان کے پیچھے اپنی جان دے دو گے) ۔
(٢) یہ قرآن حکیم بذریعہ جبرئیل امین (علیہ السلام) مکہ والوں کو ڈرانے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا گیا ہے تاکہ وہ ایمان لائیں، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کسی کے نہ ماننے پر قرآن کے اللہ کی طرف سے ہونے میں شک اور دل میں تنگ نہ ہونی چاہئے، قرآن کریم نے حلال و حرام تمام چیزوں کو وضاحت سے بیان کردیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبودان باطل مثلا بتوں وغیرہ کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے، تم لوگ نہ کسی کم چیز سے نصیحت حاصل کرتے ہو اور نہ زیادہ سے۔
آیت ٢ (کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ ) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے تھے ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سالہا سال کی جدوجہد کے باوجود مکہ کے صرف چند لوگ ایمان لائے۔ یہ صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے باعث تشویش تھی۔ ایک عام آدمی تو اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی دوسروں کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو صاف بچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ لیکن ایک شریف النفس انسان ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں تو اس میں اس کی طرف سے کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اس سوچ اور احساس کی وجہ سے وہ اپنے دل پر ہر وقت ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسلسل کوشش کے باوجود اہل مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے تو بشری تقاضے کے تحت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دل میں بہت پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ - (لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ )- لِتُنْذِرَ بِہٖ وہی لفظ ہے جو ہم سورة الانعام کی آیت ١٩ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں فرمایا گیا تھا : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) اور یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تمہیں بھی خبردار کروں اور جس جس کو یہ پہنچے۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے لیے ذِکْرٰی (یاد دہانی) ہے۔ یعنی جن سلیم الفطرت لوگوں کے اندر بالقوۃ ( ) ایمان موجود ہے ان کے اس سوئے ہوئے ( ) ایمان کو بیدار ( ) کرنے کے لیے یہ کتاب ایک طرح سے یاددہانی ہے۔ جیسے آپ کو کوئی چیز بھول گئی تھی ‘ اچانک کہیں اس کی کوئی نشانی دیکھی تو فوراً وہ شے یاد آگئی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے حصول کے لیے اس کائنات کی نشانیوں کو یاد دہانی (ذکریٰ ) بنا دیا ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :1 کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :2 یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے ۔ وہ بگڑتے ہیں ، بگڑیں ۔ مذاق اُڑاتے ہیں ، اُڑائیں ۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ، بنائیں ۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں ، ہو جائیں ۔ تم بےکھٹکے اس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو ۔ جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے ، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج استعمال ہوا ہے ۔ لغت میں حرج اس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو ۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے ۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ( الحجر۸ ، آیت ۹۷ ) ”اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو“ ۔ یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے ۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ بِہ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ ( ہود ، آیت ١۲ ) ” تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جارہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا ۔ “ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :3 مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کا اصل مقصد تو ہے اِنذار ، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکانا اور متنبہ کرنا ، رہی اہل ایمان کی تذکیر ( یاد دہانی ) تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو اِنذر کے سلسلہ میں خود بخود حاصل ہو جاتا ہے ۔
2: یعنی آپ کو یہ پریشانی نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے مضامین کو آپ لوگوں سے کیسے منوائیں گے، اور اگر لوگ نہ مانے تو کیا ہوگا ؟ کیونکہ آپ کا فریضہ لوگوں کو ہوشیار اور خبردار کرنا ہے، ان کے ماننے نہ ماننے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔