بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں ، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں ، نہ ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی ۔ یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لئے دروازہ کھولا نہیں جاتا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( لا تفتح لھم ابو اب السماء ) پڑھی یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں ہم حضور کے ساتھ تھے جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی سب بیٹھ گئے ہم اس طرح خاموش اور با ادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ، پھر فرمایا مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے وہ آ کر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے اطمینان والی روح اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے ۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو ۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا وہ لے کر کہتے ہیں فلاں کی ۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے اس میرے بندے کی کتاب ( علیین ) میں رکھ کر اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا ۔ پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے کون تھے وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ تھے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا ۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے اس کیلئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دو ۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی اس کی خوشبو اور وہاں کی حوا آتی رہتی ہے اور اسکی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے اس کے پاس ایک نہایت حسین وجمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوش ہو جا یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ان سے پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پالوں اور کافر کی جب دنیا کی آخر گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل یہ سن کر وہ روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کی روح جس کا بدترین نام دنیا میں تھا انہیں بتاتے ہیں پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت ( لا تفتح ) الخ ، تلاوت فرمائی ۔ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے اس کی کتاب ( سجین ) میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( ومن یشرک باللہ فکانما خر من السماء فتخطفہ الطیر او تھوی بہ الریح فی مکان سحیق ) یعنی جس نے اللہ کے ساتھ شریک یا گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اسے یا تو پرند اچک لے جائیں گے یا ہوائیں کسی دور دراز کی ڈراؤنی ویران جگہ پر پھینک دیں گی ۔ اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔ اور اس کے پاس وہ فرشتے پہنچتے ہیں اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ یہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ جواب دیتا ہے افسوس مجھے اس کی بھی خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے آہ میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا ۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے اس غلام نے غلط کہا اس کیلئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو وہاں سے اسے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں اس کی قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں ، اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا برے کپڑے پہنے بری بدبو والا آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا یہ پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے؟ یہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا خبیث عمل ہوں ۔ یہ کہتا ہے یا اللہ قیامت قائم نہ ہو ۔ اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں اس کیلئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے اس میں یہ بھی ہے کہ کافر کی قبر میں اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرج ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے پھر اسے جیسا وہ تھا اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے ۔ فرشتہ دوبارہ اسے گرج مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ابن جریر میں ہے کہ نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں اسے مطمئن نفس جو طیب جسم میں تھا تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل ۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ، یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ برے شخص سے وہ کہتے ہیں اے خبیث نفس جو خبیث جسم میں تھا تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل ۔ اس کے نکلنے تک فرشتے اسے یہی سناتے رہتے ہیں ۔ پر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث کو مرحبا نہ کہو ۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں بد بن کر لوٹ جا ۔ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں نہ ان کی روحیں اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرأت تو جمل ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں ۔ لیکن ایک قرأت میں جمل ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ۔ مطلب بہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گذر سکے نہ پہاڑ ، اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ظالموں کی یہی سزا ہے ۔
40۔ 1 اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے، یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوسکتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیسا کہ مسند احمد، جلد 2 صفحہ 364، 365 کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ 40۔ 2 یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی ہے اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک تنگ ہونے کے اعتبار سے بےمثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر کرنے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کا درجہ واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے ایسی چیز کے ساتھ مشروط کردینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا تعلیق بالمحال ہے۔
[٤٠] یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو کسی ناممکن العمل بات کے موقع پر بولا جاتا ہے یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ ویسے ہی شیطان سیرت آدمیوں کا جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے اور جنت میں داخلہ تو دور کی بات ہے ایسے لوگوں کی روح کو جب فرشتے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا جبکہ نیک لوگوں کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ بدکار لوگوں کی روح کو وہیں سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے اور قبر کے امتحان میں ناکامی کے بعد اسے سجین میں قید کردیا جاتا ہے۔- وَلَجَ کے معنی کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا، گھسنا یا گھسنے کی کوشش کرنا ہے جیسے تلوار کا میان میں یا بارش کے پانی کا زمین میں داخل ہونا ہے اور اولج کے معنی کسی چیز کو تنگ جگہ میں داخل کرنا یا گھسیڑنا ہے جیسے ارشاد باری ہے آیت ( يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۭ وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ) 57 ۔ الحدید :6) یعنی اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا : آیت (يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اَلَا هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ ) 39 ۔ الزمر :5) یعنی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر۔ اور آیت (يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ 40) 7 ۔ الاعراف :40) عربی زبان کا محاورہ ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ : یہ پچھلی آیت میں مذکور وعید ” پس چکھو عذاب ۔۔ “ کی کچھ تفصیل ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، جیسا کہ مومن کی روح کے اوپر چڑھنے کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے، مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٨٨، ح : ١٨٥٦١ ]- حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭ: یہ ایک محاورہ ہے جو ایسے کام کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ نہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں۔
خلاصہ تفسیر - (یہ حالت تو کفار کے دخول نار کی ہوئی، اب حرمان جنت کی کیفیت سنو کہ) جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور ان (کے ماننے) سے تکبر کرتے ہیں ان (کی روح کے صعود) کے لئے (مرنے کے بعد) آسمان کے دروازے نہ کھولے جاویں گے (یہ تو حالت مرنے کے بعد برزخ میں ہوئی) اور (قیامت کے روز) وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جاویں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جاوے (اور یہ محال ہے تو ان کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے) اور ہم ایسے مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (یعنی ہم کو کوئی عداوت نہ تھی جیسا کیا ویسا بھگتا، اور اوپر جو دوزخ میں جانا مذکور ہوا ہے وہ آگ ان کو ہر چہار طرف سے محیط ہوگی کہ کسی طرف سے کچھ راحت نہ ملے، چناچہ یہ حال ہوگا کہ) ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر اسی کا اوڑھنا ہوگا، اور ہم ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (جن کا ذکر (آیت) فمن اظلم ممن۔ میں اوپر آیا ہے) اور جو لوگ (آیات الٓہیہ پر) ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے (اور یہ نیک کام چنداں مشکل نہیں، کیونکہ ہماری عادت ہے کہ) ہم کسی شخص کو اس قدرت سے زیادہ کوئی کام نہیں بتلاتے (یہ جملہ معترضہ تھا غرض) ایسے لوگ جنت (میں جانے) والے ہیں، (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان کی حالت اہل دوزخ کی سی نہ ہوگی کہ وہاں بھی ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرتے رہیں گے، بلکہ ان کی یہ کیفیت ہوگی کہ) جو کچھ ان کے دلوں میں (کسی معاملہ کی وجہ سے دنیا میں باقتضائِ طبعی) غبار (اور رنج) تھا ہم اس کو (بھی) دور کردیں گے (کہ باہم الفت و محبت سے رہیں گے اور) ان کے (مکانات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ لوگ (غایت فرح و سرور سے) کہیں گے اللہ تعالیٰ کا (لاکھ لاکھ) احسان ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی (یہاں تک) رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتے (اس میں یہ بھی آگیا کہ یہاں تک پہنچنے کا جو طریقہ تھا ایمان اور اعمال وہ ہم کو بتلایا اور اس پر چلنے کی توفیق دی) واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے (چنانچہ انہوں نے جن اعمال پر جنت کا وعدہ کیا تھا وہ سچا ہوا) اور ان سے پکار کر کہا جاوے گا کہ یہ جنت تم کو دی گئی ہے تمہارے اعمال (حسنہ) کے بدلے۔- معارف و مسائل - چند آیات میں پہلے ایک عہد و میثاق کا ذکر ہے جو ہر انسان سے اس کی اس دنیا میں پیدائش سے پہلے عالم ارواح میں لیا گیا تھا، کہ جب ہمارے رسول تمہارے پاس ہماری ہدایات اور احکام لے کر آئیں تو ان کو دل و جان سے ماننا اور ان کے مطابق عمل کرنا، اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ جو شخص دنیا میں آنے کے بعد اس عہد پر قائم رہ کر اس کے مقتضیات کو پورا کرے گا وہ ہر رنج و غم سے نجات پائے گا اور دائمی راحت و آرم کا مستحق ہوگا، اور جو انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب یا ان کے احکام سے سرکشی کرے اس کے لئے جہنم کا دائمی عذاب مقرر ہے، مذکور الصدر آیات میں اس صورت واقعہ کا اظہار ہے جو اس دنیا میں آنے کے بعد انسانوں کے مختلف گروہوں نے اختیار کی، کہ بعض نے عہد و میثاق کو بھلا دیا، اور اس کی خلاف ورزی کی اور بعض اس پر قائم رہے، اور اس کے مطابق اعمال صالحہ انجام دئیے، ان دونوں فریقوں کے انجام اور عذاب وثواب کا بیان ان چار آیات میں ہے۔ - پہلی اور دوسری آیت میں عہد شکنی کرنے والے منکرین و مجرمین کا ذکر ہے، اور آخری دو آیتوں میں عہد پورا کرنے والے مؤمنین ومتقین کا۔ - پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا اور ہماری ہدایات اور آیات کے مقابلہ میں تکبر کے ساتھ پیش آئے ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ - تفسیر بحر محیط میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس کی ایک تفسیر یہ نقل فرمائی ہے کہ نہ ان لوگوں کے اعمال کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے نہ ان کی دعاؤں کیلئے، مطلب یہ ہے کہ ان کی دعا قبول نہ کی جائے گی، اور ان کے اعمال اس مقام پر جانے سے روک دیئے جائیں گے جہاں اللہ کے نیک بندوں کے اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں، جس کا نام قرآن کریم نے سورة مطففین میں علّیتین بتلایا ہے، اور قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی اس مضمون کی طرف اشارہ ہے، جس میں ارشاد ہے : (آیت) الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ، یعنی انسان کے کلمات طیبات اللہ تعالیٰ کے پاس لیجائے جاتے ہیں، اور ان کا نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے، یعنی انسان کے اعمال صالحہ اس کا سبب بنتے ہیں کہ اس کے کلمات طیبات حق تعالیٰ کی بارگاہ خاص میں پہنچائے جاتے ہیں۔ - اور ایک روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور دوسرے صحابہ کرام سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ منکرین و کفار کی ارواح کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے، یہ روحیں نیچے پٹک دی جائیں گی، اور اس مضمون کی تائید حضرت براء بن عازب (رض) کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے مفصل نقل کیا ہے، جس کا اختصار یہ ہے کہ : - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی انصاری صحابی کے جنازہ میں تشریف لے گئے، ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی تو ایک جگہ بیٹھ گئے، اور صحابہ کرام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد خاموش بیٹھ گئے، آپ نے سر مبارک اٹھا کہ فرمایا کہ مومن بندہ کے لئے جب موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے سفید چمکتے ہوئے چہروں والے فرشتے آتے ہیں، جن کے ساتھ جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے، اور وہ مرنے والے کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، پھر فرشتہ موت عزرائیل (علیہ السلام) آتے ہیں، اور اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ رب کی مغفرت اور خوشنودی کے لئے نکلو، اس وقت اس کی روح اس طرح بدن سے بآسانی نکل جاتی ہے جیسے کسی مشکیزہ کا دہانہ کھول دیا جائے تو اس کا پانی نکل جاتا ہے، اس کی روح کو فرشتہ موت اپنے ہاتھ میں لے کر ان فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے، یہ فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں، جہاں ان کو کوئی فرشتوں کا گروہ ملتا ہے وہ پوچھتے ہیں یہ پاک روح کسی کی ہے، یہ حضرات اس کا وہ نام و لقب لیتے ہیں، جو عزت و احترام کے لئے اس کے واسطے دنیا میں استعمال کیا جاتا تھا، اور کہتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں ہے، یہاں تک یہ فرشتے بھی ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں اس وقت حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کا اعمال نامہ علییّن میں لکھو، اور اس کو واپس کردو، یہ روح پھر لوٹ کر قبر میں آتی ہے، اور قبر میں حساب لینے والے فرشتے آکر اس کو اٹھاتے اور سوال کرتے ہیں، کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور دین اسلام ہے، پھر سوال ہوتا ہے کہ یہ بزرگ جو تمہارے لئے بھیجے گئے ہیں کون ہیں وہ کہتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس وقت ایک آسمانی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ سچا ہے، اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دو اور جنت کا لباس پہنا دو اور جنت کی طرف اس کا دروازہ کھول دو ، اس دروازہ سے اس کو جنت کی خوشبوئیں اور ہوائیں آنے لگتی ہیں، اور اس کا نیک عمل ایک حسین صورت میں اس کے پاس اس کو مانوس کرنے کے لئے آجاتا ہے۔ - اس کے بالمقابل کافر ومنکر کا جب وقت موت آتا ہے تو آسمان سے سیاہ رنگ مہیب صورت فرشتے خراب قسم کا ٹاٹ لے کر آتے ہیں، اور بالمقابل بیٹھ جاتے ہیں، پھر فرشتہ موت اس کی روح اس طرح نکالتا ہے جیسے کوئی خار دار شاخ گیلی اون میں لپٹی ہوئی ہو اس میں سے کھینچی جائے یہ روح نکلتی ہے تو اس کی بدبو مردار جانور کی بدبو سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے، فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں راہ میں جو دوسرے فرشتے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ یہ کس کی خبیث روح ہے، یہ حضرات اس وقت اس کا وہ برے سے برا نام و لقب ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک کہ سب سے پہلے آسمان پر پہنچ کر دروازہ کھولنے کے لئے کہتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، بلکہ حکم یہ ہوتا ہے کہ اس بندہ کا اعمال نامہ سجیّن میں رکھو، جہاں نافرمان بندوں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں، اور اس روح کو پھینک دیا جاتا ہے، وہ بدن میں دوبارہ آتی ہے فرشتے اس کو بٹھا کر اس سے بھی وہی سوالات کرتے ہیں جو مومن بندہ سے کئے تھے، یہ سب کا جواب یہ دیتا ہے ھاہ ھاہ لا ادری، یعنی میں کچھ نہیں جانتا، اس کے لئے جہنم کا فرش، جہنم کا لباس دے دیا جاتا ہے، اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے اس کو جہنم کی آنچ اور گرمی پہنچتی رہتی ہے، اور اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے، نعوذ باللہ منہ - خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منکرین و کفار کی ارواح آسمان تک لیجائی جاتی ہیں آسمان کا دروازہ ان کے لئے نہیں کھلتا تو وہیں سے پھینک دی جاتی ہے، آیت مذکورہ (آیت) لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَاب السَّمَاۗء کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ بوقت موت ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ - آخر آیت میں ان لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ، اس میں لفظ یلج ولوج سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں تنگ جگہ میں گھسنا، اور جمل اونٹ کو کہا جاتا ہے اور سَمّ سوئی کے روزن کو، معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک اونٹ جیسا عظیم الجثہ جانور سوئی کے روزن میں داخل نہ ہوجائے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح سوئی کے روزن میں اونٹ کا داخل ہونا عادةً محال ہے اسی طرح ان کا جنت میں جانا محال ہے، اس سے ان لوگوں کا دائمی عذاب جہنم بیان کرنا مقصود ہے، اس کے بعد ان لوگوں کے عذاب جہنم کی مزید شدت کا بیان ان الفاظ سے کیا گیا (آیت) لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ، مہاد کے معنی فرش، اور غواش، غاشیة کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں ڈھانپ لینے والی چیز کے، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا سب جہنم کا ہوگا، اور پہلی آیت جس میں جنت سے محرومی کا ذکر تھا اس کے ختم پر (آیت) ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ ، فرمایا اور دوسری آیت میں عذاب جہنم کا ذکر ہے، اس کے ختم پر (آیت) ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ ارشاد فرمایا، کیونکہ یہ اس سے زیادہ اشد ہے۔
لَہُمْ مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ ٤١- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے - مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - الْغَاشِيَةُ- في الأصل محمودة وإنما استعیر لفظها هاهنا علی نحو قوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَواشٍ [ الأعراف 41] کہ لفظ غاشیۃ اصل میں اچھی چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے مگر یہاں بطور استعارہ عذاب کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس طرح آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَواشٍ [ الأعراف 41] ایسے لوگوں کے لئے ( نیچے ) بچھانا بھی ( آتش ) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی ۔ میں ہے کہ ( یہاں مھاد ( بچھونے ) کے مقابل میں غواش لفظ آیا ہے جس سے جہنم کا عذاب مراد ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٤٠) قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جھٹلانے والے لوگوں کے اعمال اور ارواح کے چڑھنے کے لیے آسمانی دروازے نہیں کھولے جائیں گے جیسا کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہیں داخل ہوسکتا ہے یا یہ کہ تاوقتیکہ وہ موٹی رسی جس سے کشتی کو باندھا جاتا ہے، سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے یہ چیز ناممکن ہے تو ان کا جنت میں داخلہ بھی ناممکن ہے۔
آیت ٤٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَاب السَّمَآءِ ) - اگرچہ یہ بات حتمیت سے نہیں کہی جاسکتی ‘ تاہم قرآن مجید میں کچھ اس طرح کے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم اسی زمین پر برپاہو گی اور ابتدائی نُزُل (مہمانی ) والی جنت بھی یہیں پر بسائی جائے گی۔ (وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ) (الانشقاق ) کی عملی کیفیت کو ذہن میں لانے سے یہ نقشہ تصور میں یوں آتا ہے کہ زمین کو جب کھینچا جائے گا تو یہ پچک جائے گی ‘ جیسے ربڑ کی گیند کو کھینچا جائے تو وہ اندر کو پچک جاتی ہے۔ اس عمل میں زمین کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا جو جہنم کی شکل اختیار کرلے گا (واللہ اعلم) ۔ احادیث میں مذکور ہے کہ روز محشر میدان عرفات کو کھول کر وسیع کردیا جائے گا اور یہیں پر حشر ہوگا۔ قرآن حکیم میں (وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ) (الفجر ) کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پروردگار شان اجلال کے ساتھ نزول فرمائیں گے ‘ فرشتے بھی فوج در فوج آئیں گے اور یہیں پر حساب کتاب ہوگا۔ گویا قصۂ زمین برسرزمین والا معاملہ ہوگا۔ اہل بہشت کی ابتدائی مہمان نوازی بھی یہیں ہوگی ‘ لیکن پھر اہل جنت اپنے مراتب کے اعتبار سے درجہ بدرجہ اوپر کی جنتوں میں چڑھتے چلے جائیں گے ‘ جبکہ اہل جہنم یہیں کہیں رہ جائیں گے ‘ ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے۔- (وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ط) - اسے کہتے ہیں تعلیق بالمحال۔ نہ یہ ممکن ہوگا کہ سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ گزر جائے اور نہ ہی کفار کے لیے جنت میں داخل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگی۔ بالکل یہی محاورہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بھی ایک جگہ استعمال کیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے پاس ایک دولت مند شخص آیا اور پوچھا کہ آپ ( علیہ السلام) کی تعلیمات کیا ہیں ؟ جواب میں آپ ( علیہ السلام) نے نماز پڑھنے ‘ روزہ رکھنے ‘ غریبوں پر مال خرچ کرنے اور دوسرے نیک کاموں کے بارے میں بتایا۔ اس شخص نے کہا کہ نیکی کے یہ کام تو میں سب کرتا ہوں ‘ آپ بتایئے اور میں کیا کروں ؟ آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم نے یہ ساری منزلیں طے کرلی ہیں تو اب آخری منزل یہ ہے کہ اپنی صلیب اٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو یعنی حق و باطل کی کشمکش میں جان و مال سے میرا ساتھ دو ۔ یہ سن کر اس شخص کا چہرہ لٹک گیا اور وہ چلا گیا۔ اس پر آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ممکن ہے مگر کسی دولت مند شخص کا اللہ کی بادشاہت میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ واقعہ قرآن میں مذکور محاورے کے حوالے سے بر سبیل تذکرہ آگیا ہے ‘ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اس فرمان کو کسی معاملے میں بطور دلیل پیش کرنا مقصود نہیں۔
22: یہ ایک عربی زبان کا محاورہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک اونٹ سوئی کے ناکے میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا، اسی طرح یہ لوگ کبھی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔