92۔ 1 یعنی جس بستی سے یہ اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہونے کے بعد ایسے ہوگئے جیسے وہ یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ 92۔ 2 یعنی خسارے میں وہی لوگ رہے جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی، نہ کہ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے۔ اور خسارہ بھی دونوں جہانوں میں۔ دنیا میں بھی ذلت کا عذاب چکھا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ عذاب شدید ان کے لئے تیار ہے۔
[٩٨] اس عذاب کے بعد ان کی بستیاں یوں سنسان اور ویران ہوگئیں جیسے وہاں کبھی لوگ آباد ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو یہاں سے ملک بدر کردیں گے یا پھر تمہیں ہمارا ہی مذہب اختیار کرنا پڑے گا یہ تھا اللہ کے پیغمبر اور اس کی آیات کو جھٹلانے کا انجام کہ دھمکی دینے والے خود ہی نیست و نابود ہوگئے۔
كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا : ” غَنِیَ یَغْنَی (س) “ کا معنی ہے کسی جگہ رہنا، یعنی وہ جو شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بستی سے نکالنے کے درپے تھے وہ خود اس طرح ہوگئے جیسے وہ کبھی اس میں رہے ہی نہیں تھے اور انھیں خسارے سے ڈرانے والے خود ہی خسارا اٹھانے والے ہوگئے۔
پانچویں آیت میں قوم شعیب کے واقعہ سے دوسروں کو عبرت کا سبق دیا گیا ہے جو اس واقعہ کے بیان کا اصل مقصود ہے۔ فرمایا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَا، لفظ غنی کے ایک معنی کسی مقام میں خوش عیشی کے ساتھ بسر کرنے کے بھی آتے ہیں اس جگہ یہی معنی مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جن مکانات میں آرام و عیش کی زندگی گزارتے تھے۔ اس عذاب کے بعد ایسے ہوگئے کہ گویا کبھی یہاں آرام و عیش کا نام ہی نہ تھا۔ پھر فرمایا اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِيْنَ یعنی جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا وہی لوگ خسارہ میں پڑے۔ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں کو اپنی بشتی سے نکال دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ انجام کار خسارہ انھیں پر پڑا۔
الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْہَا ٠ ۚۛ اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا شُعَيْبًا كَانُوْا ہُمُ الْخٰسِرِيْنَ ٩٢- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :75 مدین کی یہ تباہی مدتہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل رہی ہے ۔ چنانچہ زبور داؤد میں ایک جگہ آتا ہے کہ اے خدا فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد باندھ لیا ہے لہٰذا تو ان کے ساتھ وہی کر جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا ( ۸۳ ۔ ۵تا۹ ) ۔ اور یَسعِیاہ بنی ایک جگہ بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آشور والوں سے نہ ڈرو ، اگرچہ وہ تمہارے لیے مصریوں کی طرح ظالم بنے جا رہے ہیں لیکن کچھ دیر نہ گزرے گی کہ رب الافواج ان پر اپنا کوڑا برسائے گا اور ان کا وہی حشر ہوگا جو مَدیان کا ہوا ( یسعیاہ: ١۰ ۔ ۲١ تا ۲٦ ) ۔