Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 محروم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو رزق سے ہی محروم ہے وہ بھی جو کسی آفت سماوی وارضی کی زد میں آکر اپنی پونجی سے محروم ہوگیا اور وہ بھی جو ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنی صفت تعفف کی وجہ سے لوگوں کی عطا اور صدقات سے محروم رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝ ٢٥ - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- محروم - والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (للسائل والمحروم سائل اور محروم کے لئے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سوال کرنے والے کو سائل کہتے ہیں اور محروم وہ شخص ہے جسے کسی تجارت میں کامیابی نہ ہوتی ہو۔ ابوقلابہ کا قول ہے کہ محروم وہ شخص جس کا مال چلا جائے۔ حسن بن محمد کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ روانہ کیا، اسے مال غنیمت حاصل ہوا، اس کے بعد کچھ دوسرے لوگ بھی آگئے اور یہ آیت نازل ہوئی (فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے)- حضرت انس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان المحروم من حرم وصیتہ بیشک محروم وہ شخص ہے جسے اس چیز سے محروم رکھا جائے جس کی اس کے لئے وصیت کی گئی ہو)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے قبل محروم کے معنی اور اس کے بارے میں اہل علم کے اختلاف آراء کا ذکر کردیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :16 سورہ ذاریات آیت 19 میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے ۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے ۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقرر حق سے مراد فرض زکوۃ ہے ، کیونکہ اسی میں نصاب اور شرح ، دونوں چیزیں مقرر کر دی گئی ہیں ۔ لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابل قبول نہیں ہے کہ سورہ معارج بالاتفاق مکی ہے ، اور زکوۃ ایک مخصوص نصاب اور شرح کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے ۔ اس لیے مقرر حق کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کر رکھا ہے جسے وہ ان کا حق سمجھ کر ادا کرتے ہیں ۔ یہی حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، مجاہد ، شعبی اور ابراہیم نخعی نے بیان کیے ہیں ۔ سائل سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہیں بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کسی سے مدد مانگے ۔ اور محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روز گار ہو ، یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہو مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں ، یا کسی حاد ثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو ، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو ۔ ایسے لوگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک خدا پرست انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں ، بلکہ ان کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ذاریات ، حاشیہ 17 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: جو غریب اپنی حاجت ظاہر کردیتے ہیں، انہیں سوالی سے اور جو حاجت مند ہونے کے باوجود اپنی حاجت کسی سے نہیں کہتے، اُنہیں بے سوالی سے تعبیر کیا گیا ہے۔