24۔ 1 یعنی زکوٰۃ مفروضۃ، بعض کے نزدیک یہ عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں اس میں شامل ہیں۔
[١٦] سوال کرنا صرف تین طرح کے لوگوں کو جائز ہے :۔ سائل سے مراد پیشہ ور گداگر نہیں۔ ایسی گداگری کا اسلام میں کوئی جواز نہیں سائل سے مراد وہ شخص ہے۔ جو فی الواقع مانگنے پر مجبور ہو۔ چناچہ سیدنا قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے پھر ہم تیرے لیے کچھ حکم کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا : قبیصہ تین شخصوں کے سوا کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے جو اس کا سارا مال تباہ کردے۔ وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجائے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آگئی ہو اور اس کے قبیلہ کے تین معتبر شخص گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے۔ اسے سوال کرنا جائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کرکے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من تحل لہ المسئلۃ) - نیز سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ وہ دراصل آگ کے انگارے طلب کر رہا ہے اب وہ چاہے تو کم کرے یا زیادہ اکٹھے کرلے (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب تاویل قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ توصون بہا اودین) اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو سوال کرنے کا مستحق ہونے کے باوجود سوال کرنے سے ہچکچاتا ہو۔ جسے ہماری زبان میں سفید پوش کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں محروم سے مراد وہ شخص بھی ہے جو روزگار کی تلاش میں ہو اور روزگار اسے میسر نہ آرہا ہو یا جتنی روزی کما رہا ہے اس سے اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ جیسے بوڑھا، بیمار، اندھا، لنگڑا، اپاہج وغیرہ۔
والذین فی اموالھم حق معلوم …: اس آیت سے معلوم ہوا کہ صدقہ و زکوۃ مکہ میں بھی فرض تھے اور وہاں بھی اہل ایمان اپنے اموال میں سے ایک مقرر حصہ نکالتے تھے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے، بلکہ مشرکین بھی اپنی کھیتی اور مویشیوں میں سے بتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مقرر حصہ نکالتے تھے۔ (دیکھیے انعام : ١٣٦) اس سے بہت پہلے اسماعیل (علیہ السلام) بھی اپنے الہ کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے۔ (دیکھیے مریم : ٥٥) ہاں زکوۃ کا موجودہ مخصوص نصاب مدینہ میں مقرر ہوا، اتنے فرض کی ادائیگی کے بغیر تو آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتا۔ البتہ اہل ایمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کریں، یہ ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ اس کی راہ میں کتنا حصہ مقرر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں ایک شخص کا واقعہ مذکور ہے جس کا نام لے کر بادلوں کو حکم ہوا کہ اس کے باغ کو پانی پلائیں۔ وہ شخص اپنے باغ کی آمدنی کے تین حصے کرتا تھا، جس میں سے ایک حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا۔ (دیکھیے مسلم : ٢٩٨٣) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے بغیر بےصبری اور بخل کی کمینگی دور ہو ہی نہیں سکتی۔ ” المحروم “ میں وہ بھی شامل ہے جس کا کوئی ذریعہ معاش نہیں یا کسی آفت کی وجہ سے اپنے سرمایہ سے محروم ہوگیا ہے اور وہ بھی جسے ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہ کرنے کی وجہ سے کچھ نہیں دیا جاتا۔
مقادیر زکواة منجانب اللہ مقرر ہیں ان میں کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں :- (آیت) وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقادیر زکوة اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین اور معلوم ہیں جن کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث صحیحہ میں منقول ہے۔ اس لئے مقادیر زکوة خواہ نصاب زکوة سے متعلق ہوں یا مقدار واجب سے دونوں اللہ تعالیٰ طرف سے مقرر کردہ طے شدہ ہیں یہ زمانے اور حالات کے بدلنے سے نہیں بدل سکتیں۔
وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ ٢٤ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔
آیت ٢٤ ‘ ٢٥ وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ - لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔ ” اور وہ جن کے اموال میں معین حق ہے ‘ مانگنے والے کا اور محروم کا۔ “- ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب ان کا ہے ‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معین حصہ معاشرے کے ان محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کردیتا ہے۔ چناچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصہ الگ کر کے ” حق بہ حق دار رسید “ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یاد رہے سورة المومنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے : وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ ۔ ” اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجہ رہنے والے ہیں “۔ ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ (غرباء و مساکین کا حق) ادا کردینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیہ باطن کا باعث بھی بنتا ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت سورة الحدید کی آیت ١٧ اور ١٨ کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبت جب کسی دل میں گھر جاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا موثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ” تزکیہ “ چاہتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔
6:: اس سے مراد زکوٰۃاور دوسرے واجب حقوق ہیں، ان الفاظ میں یہ بھی واضح فرمادیا گیا ہے کہ زکوٰۃدینا غریبوں پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے۔