23۔ 1 مراد ہیں مومن کامل اور اہل توحید، ان کے اندر مذکورہ اخلاقی کمزوریاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے برعکس وہ صفات محمودہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ نماز میں کوتاہی نہیں کرتے ہر نماز اپنے وقت پر نہایت پابندی اور التزام سے پڑھ لیتے ہیں۔ کوئی مشغولیت انہیں نماز سے نہیں روکتی اور دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نماز سے غافل نہیں کرتا۔
[١٥] دائمون کے دو مفہوم :۔ سب سے پہلی اور اہم صفت یہ ہے کہ وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بروقت ادا کرتے ہیں۔ باجماعت ادا کرتے ہیں۔ ٹھیک طرح سے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ اس آیت میں دَائِمُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دوام کا ایک معنی تو ہمیشگی ہے اور دام الشَیْیُ بمعنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک بلا تغیر ایک ہی حالت میں رہنا، ترجمہ میں یہی معنی اختیار کیا گیا ہے اس کا دوسرا معنی سکون اور ٹھہراؤ ہے اور ماء الدَّائِمِ بمعنی کھڑا پانی جس میں کچھ حرکت نہ ہو۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنی نماز کو نہایت سکون، ٹھہراؤ، اطمینان قلب اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ وہ نہ یہ کرتے ہیں کہ منافقوں کی طرح جلدی جلدی چند ٹھونگیں ماریں اور فٹا فٹ نماز سے فارغ ہوئے۔ اور نہ یہ کرتے ہیں کہ بس ایک اللہ کی یاد کو دل و دماغ میں نہ لائیں باقی ادھر ادھر کی ساری باتیں نماز میں سوچتے رہیں۔
الَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ ٢٣ ۠ - دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو
نمازوں کی پابندی کرنا - قول باری ہے (الذین ھم علی صلاتھم دائمون، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں) ابوسلمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز وہ تھی جس کی پابندی کی جاتی ہو۔ پھر حضرت عائشہ (رض) نے درج بالا آیت تلاوت کی۔- حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ وہ لوگ نمازوں کے اوقات کی پابندی کرتے ہیں۔ حضرات عمران بن حصین (رض) سے آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ شخص جو نماز کے دوران دائیں بائیں نہیں دیکھتا۔- سائل اور محروم کون ہے ؟
آیت ٢٣ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ ۔ ” جو اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں۔ “- یعنی وہ لوگ جو اپنے روز مرہ معمولات میں نماز کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اس میں کوتاہی نہیں کرتے۔ چناچہ ایسے ” نمازی “ اس وصف کے مصداق نہیں بن سکتے جو ” فارغ وقت “ میں تو نماز ادا کرلیتے ہیں لیکن جب کوئی اور مصروفیت ہو تو انہیں نماز کا خیال تک نہیں آتا ‘ اور نہ ہی انہیں نماز کے ضائع ہوجانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اس آیت کے مشابہ سورة المومنون میں یہ آیت ہے : الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ ۔ ” وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔ “
سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :15 یعنی کسی قسم کی سستی اور آرام طلبی ، یا مصروفیت ، یا دلچسپی ان کی نماز کی پابندی میں مانع نہیں ہوتی ۔ جب نماز کا وقت آجائے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے خدا کی عبادت بجا لانے کے لیے کھڑا ہو جاتے ہیں ۔ علی صلاتھم دائمون کے ایک اور معنی حضرت عقبہ بن عامر نے یہ بیان کیے ہیں کہ وہ پورے سکون اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ کوے کی طرح ٹھونگیں نہیں مارتے ۔ مارا مار پڑھ کر کسی نہ کسی طرح نماز سے فارغ ہو جانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اور نماز کے دوران میں ادھر ادھر التفات بھی نہیں کرتے ۔ عربی محاورے میں ٹھیرے ہوئے پانی کو ماءِ دائم کہا جاتا ہے ۔ اسی سے یہ تفسیر ماخوذ ہے ۔