Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] یہ دونوں حالتیں، یعنی تنگ دستی میں صبر کے بجائے شکوہ و شکایت اور خوشحالی میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے بخل اور پیسہ سے والہانہ محبت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہیں۔ البتہ جن لوگوں میں اور بالخصوص جن ایمانداروں میں مندرجہ ذیل آٹھ صفات، جو آگے آیت نمبر ٢٢ سے ٣٤ تک مذکور ہیں، پائی جائیں وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہیں گے۔ اور ان میں مذکورہ بالا قباحتیں بھی ختم ہوجائیں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الا المصلین…: مگر نمازی بےصبرے اور تھڑولے نہیں ہوتے، وہ نہ مصیبت پر شکوہ ش کیا ت کرتے ہیں اور نہ نعمت ملنے پر بخل کرتے ہیں۔ نماز کی صحیح ادائیگی سے آدمی میں وہ عزم اور ہمت پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایسی تمام کمزوریوں پر قابو پا لیتا ہے، کیونکہ روزانہ پانچ وقت دنیا کے کسی لالچ کے بغیر پورے شروط و آداب کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے جو اللہ کے خوف اور آخرت پر ایمان کے بغیر ادا ہو نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واستعینوا بالصبر و الصلوۃ و انھا لکبیرۃ الا علی الخشعین ، الذین یظنون انھم ملقوا ربھم وانمم الیہ رجعون) (البقرۃ : ٣٥، ٣٦)” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بیشک وہ بہت بڑی ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر۔ جو سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ “- آیات (٢٣) تا (٣٤) میں وہ صفات بیان فرمائی ہیں جن کے بغیر نمازی بھی ” ہلوع “ (تھڑدلا) ہی رہتا ہے۔ ان میں سے پہلی صفت اپنی نماز پر ہمیشگی ہے، یہ نہیں کہ کبھی پڑھ لی کبھی چھوڑ دی، کیونکہ جونہی نماز ترک کرے گا، تو صرف بےصبری اور بخل ہی واپس نہیں آئیں گے بلکہ کفر بھی دوبارہ اس میں پلٹ آئے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نے فرمایا :(بین العبد و بین الکفر ترک الصلاۃ) (ابو داؤد السنۃ باب فی ردالارجاء : ٣٦٨٨۔ مسلم : ٨٢)” بندے اور کفر کے درمیان نماز ترک کرنے کی دیر ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ۝ ٢٢ ۙ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٨) مگر وہ پانچ وقت کا نمازی جو اپنی فرض نمازوں کو رات دن میں ہمیشہ پڑھتے ہیں۔- وہ ایسے نہیں ہیں اور جو کہ اپنے مالوں میں زکوٰۃ کے علاوہ سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے سب کا حق سمجھتے ہیں یا یہ کہ محروم سے مراد وہ ہے جو اپنے اجر و غنیمت سے محروم رہے یا یہ کہ وہ محنتی آدمی ہے جس کا پیشہ اس کی معیشت کے لیے کافی نہ ہو اور جو کہ قیامت کے دن کا اور جو کچھ اس میں ہوگا سب کا اعقتاد رکھتے ہیں اور جو کہ اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں واقعی ان کے رب کا عذاب مطمئن ہونے کی چیز ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ ۔ ” سوائے نمازیوں کے۔ “- ان کمزوریوں اور خامیوں سے محفوظ رکھنے والی ایک چیز نماز ہے۔ گویا نماز تعمیر سیرت کی بنیاد کا پہلا پتھر ہے۔ لیکن صرف وہ نماز جو خاص اہتمام سے مداومت کے ساتھ ادا کی جاتی ہو۔ چناچہ مذکورہ استثناء کے اہل صرف وہی نمازی ہوں گے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :14 کسی شخص کا نماز پڑھنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب اور آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اپنے اس ایمان کے مطابق عمل بھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani