[١٣] یعنی انسان کی عمومی سرشت یہی ہے کہ اسے جب کوئی تکلیف پہنچے۔ کوئی بیماری آلگے یا معاشی تنگی میں مبتلا ہو تو صبر کے ساتھ وہ وقت گزارنے کے بجائے جزع و فزع شروع کردیتا ہے۔ کبھی تقدیر کو کو سنے لگتا ہے اور کبھی اپنے نصیبوں کو اور جب اللہ اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے تو پھر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ بلکہ مال و دولت کو گلے سے ایسے لگا لیتا ہے جیسے خزانے پر سانپ بیٹھا ہو۔ پھر وہ ایسا ننانوے کے چکر میں پڑجاتا ہے کہ کسی غریب محتاج کی مدد کرنا اور اس کی کسی ضرورت کو پورا کرنا تو درکنار، اپنے اہل و عیال بلکہ اپنی ذات پر خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کی بس ایک ہی ہوس ہوتی ہے کہ اس کی دولت میں روزافزوں اضافہ ہوتا رہے۔
وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا ٢١ ۙ- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔
آیت ٢١ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا ۔ ” اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔ “- جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو سب کچھ سمیٹ کر اپنے ہی پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔- اب اگلی آیات میں ان انسانی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اپنے مضمون کے اعتبار سے ان آیات (آیت ٢٢ تا ٣٥) کا سورة المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ قرآن مجید کے یہ دو مقامات نہ صرف باہم مشابہ ہیں بلکہ ” اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا “ کے اصول کے مطابق ایک مقام کی بعض آیات دوسرے مقام کی بعض آیات کی وضاحت بھی کرتی ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ہمارے ” مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب “ کے تیسرے حصے کا پہلا سبق ان ہی دو مقامات کی آیات (سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور زیر مطالعہ سورة کی آیت ٢٢ سے آیت ٣٥ تک چودہ آیات) پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں دراصل بندئہ مومن کی سیرت و کردار کے ان اوصاف کی فہرست دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔ گویا یہ اوصاف وہ اینٹیں ہیں جنہیں کام میں لا کر ایک بندئہ مومن کو اپنی سیرت کی عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ اینٹیں کچی ہوں گی تو ان سے بنائی گئی عمارت کمزور اور بودی ہونے کے باعث کفر و الحاد کے سیلاب کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ چناچہ سیل باطل کی بلاخیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ” اینٹوں “ کو خوب پختہ کر کے اپنی سیرت کی عمارت استوار کریں۔ بقول اکبر الٰہ آبادی : ؎- تو آگ میں جل اور خاک میں مل ‘ جب خشت بنے تب کام چلے - ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ ‘ تعمیر نہ کر - بہرحال گزشتہ آیات میں جن انسانی کمزوریوں کا ذکر ہے ‘ عمومی طور پر انسان ان میں مبتلا ہو کر ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ‘ بلکہ انسان ان سے نجات پاسکتا ہے۔ چناچہ مندرجہ ذیل اوصاف کے حامل لوگ ان سے مستثنیٰ ہیں :